جسٹس مسرت ہلالی پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سپریم کورٹ میں تعینات کی جانے والی دوسری جج بن گئی ہیں۔
جمعے کو ان کی تقریبِ حلف برداری اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی عمارت میں منعقد ہوئی جہاں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ان سے حلف لیا۔
وہ سپریم کورٹ میں تعیناتی سے قبل پشاور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس کے طور پر ذمہ داریاں ادا کر رہی تھیں۔
انھیں رواں برس اپریل میں ہی پشاور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا تھا اور وہ پہلی خاتون جج تھیں جنھیں یہ عہدہ دیا گیا تھا۔
14 جون کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے جسٹس ہلالی کی عدالت عظمیٰ میں تعیناتی کی سفارش کی تھی جس کے بعد پانچ جولائی کو صدرِ پاکستان نے اس کی منظوری دی تھی۔
مسرت ہلالی کی شمولیت کے بعد پاکستان کی سپریم کورٹ میں تعینات ججوں کی تعداد 16 ہو گئی ہے جبکہ عدالتِ عظمیٰ کے لیے منظور شدہ تعداد 17 ہے۔
جسٹس ہلالی سے قبل جنوری 2022 میں جسٹس عائشہ ملک پاکستان میں سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج مقرر کی گئی تھیں۔
مسرت ہلالی نے پشاور یونیورسٹی کے خیبر لا کالج سے قانون کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد 1983 میں ڈسٹرکٹ کورٹس میں وکالت شروع کی۔
اس کے بعد وہ 1988 میں ہائی کورٹ اور 2006 میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں وکالت کی بھی اہل قراردے دی گئی تھیں۔
مسرت ہلالی کا جوڈیشل کریئر بھی شاندار رہا ہے۔ انھیں سنہ 2013 میں ایڈیشنل جج کے طور پر تعینات کیا گیا تھا اور پھر سال 2014 میں انھیں پشاور ہائی کورٹ کا مستقل جج تعینات کیا گیا۔
جسٹس ہلالی بطور جج تعینات ہونے سے قبل مختلف ادوار میں پشاور ہائیکورٹ بارکی پہلی سیکرٹری اور نائب صدر کے عہدے پر بھی کام کرتی رہی ہیں۔
انھوں نے بطور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا، چیئرپرسن خیبر پختونخوا انوائرمنٹل پروٹیکشن ٹربیونل کے علاوہ خواتین کے کام کے مقامات پر ہراسانی کے خلاف محتسب کے عہدے پر بھی کام کیا ہے۔
’پراعتماد شخصیت: مسرت ہلالی ایک آئیڈیل وکیل رہیں‘
جسٹس مسرت ہلالی کے بارے میں ان کے ساتھ کام کرنے والے وکلا کا کہنا ہے کہ انھوں نے گذشتہ چند دہائیوں میں خواتین کے بارے میں منفی تاثر کو زائل کیا ہے۔
سینیئر وکیل شبیر گگیانی ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ جسٹس مسرت ہلالی نے اس وقت وکالت شروع کی تھی جب اس شعبے میں بہت کم خواتین وکلا پشاور میں پریکٹس کرتی تھیں اور جسٹس ہلالی نے بطور وکیل اپنی قابلیت اور جدوجہد سے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور عدلیہ میں اہم مقام حاصل کیا۔
پشاور کی سینیئر خاتون وکیل فرحانہ مروت کا کہنا ہے کہ پراعتماد شخصیت اور انسانی حقوق کے لیے اپنے کام کی وجہ سے مسرت ہلالی ان کے لیے ایک آئیڈیل وکیل رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب وہ جج بنیں تب بھی انھوں نے انسانی حقوق سے متعلق کے علاوہ لاپتہ افراد کے مقدمات پر بھی زیادہ توجہ دی۔
فرحانہ مروت کے مطابق وہ بطور وکیل جسٹس ہلالی کی عدالت میں پیش ہوتی رہی ہیں اور ان کا تجربہ ہے کہ وہ ’مقدمات کی سماعت کے دوران مقدمے کی نوعیت کو بہتر طریقے سے سمجھتی تھیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’خاندانی نوعیت کے مقدمات میں جسٹس مسرت ہلالی کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اس خاندان کے لیے بہترین فیصلہ کرنے کی کوشش کریں تاکہ گھرانے بچ سکیں اور بچے متاثر نہ ہوں۔‘
سینیئر وکیل اسحاق قاضی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے ’جسٹس مسرت ہلالی بطور وکیل صحیح بات کو صحیح کہنے کی جرات رکھتی تھیں۔‘
’انھوں نے انسانی حقوق کے لیے جدو جہد کی اور پورے پاکستان میں اگر کہیں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی تو وہ حق دلوانے کے لیے وہاں موجود رہیں۔‘
جسٹس مسرت ہلالی بحیثیت جج
جسٹس مسرت ہلالی نے اُس وقت ایک جج کے حیثیت سے حلف اٹھایا جب صوبے میں شدت پسندی عروج پر تھی اور ان دنوں میں جبری گمشدہ افراد کے کیسز بڑی تعداد میں رپورٹ ہو رہے تھے جبکہ انھی دنوں میں ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن جیسے قوانین بھی سامنے آئے تھے۔
ان کے ساتھ پشاور ہائی کورٹ میں جج کی حیثیت سے کام کرنے والے سابق جسٹس یونس تھیم کا کہنا ہے کہ جسٹس مسرت ہلالی ایک انتہائی قابل اور پروفیشنل شخصیت ہیں۔
سابق جسٹس یونس تھیم کے مطابق جسٹس ہلالی نے انصاف کی فراہمی کے لیے اہم فیصلے کیے اور ان میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں اور ایف سی آر کے بارے میں فیصلے قابلِ ذکر ہیں۔
اسحاق قاضی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ جسٹس مسرت ہلالی نے ’کبھی اپنے فیصلے روکے نہیں اورانصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلے کیے۔ انھیں جو صحیح لگا وہ انھوں نے کیا اور یہ نہیں سوچا کہ اس کے کیا اثرات یا مضمرات ہو سکتے ہیں۔‘