اہم خبریں

ٹک ٹاک پر امریکہ پہنچنے کا خواب دکھانے والی ویڈیوز: ’انسانی سمگلرز کی تو جیسے عید ہو چکی ہے‘

ریو گرانڈے میں قدم رکھنے والے تارکین وطن کے چھوٹے سے گروہ میں شامل افراد کے چہرے پر مسکراہٹ نمایاں تھی۔ ان کا امریکہ تک پہنچنے کا طویل اور پرخطر سفر اب چند ہی فٹ بعد ختم ہونے والا تھا۔

ایک ویڈیو پر پیغام لکھا ہوا تھا کہ ’دریا کو باحفاظت پار کریں۔‘ اس ویڈیو پر ہسپانوی زبان میں لکھا ہوا تھا ’امریکی خواب‘۔ ساتھ ہی یہ عبارت درج تھی، ’مجھے پیغام بھیجیں، میں مذید معلومات دوں گا۔‘

سوشل میڈیا پر ایسی سینکڑوں ویڈیوز موجود ہیں جن میں تارکین وطن کو امریکہ میں محفوظ اور سستے طریقے سے ایک نئی زندگی کے آغاز کا وعدہ کیا جاتا ہے۔

اگرچہ یہ ویڈیوز بظاہر دوستانہ لگتی ہیں، ماہرین کہتے ہیں کہ ’یہ پرفریب ہوتی ہیں۔‘ ایڈ کالڈرون میکسیکو کے سابق پولیس افسر ہیں جو سرحد پر کام کرنے والی انڈر ورلڈ کے امور پر ماہر مانے جاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ سمگلنگ کی ایڈورٹائزنگ ہے۔ اور یہ کھلے عام ہو رہی ہے۔‘

ماہرین کے مطابق ٹک ٹاک، یو ٹیوب اور واٹس ایپ پر موجود ایسی ویڈیوز ایک انتہائی منظم، اربوں ڈالر مالیت کی غیر قانونی انڈسٹری کا عوامی چہرہ ہیں جو امریکی قوانین میں تبدیلیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غلط معلومات کے ذریعے اپنی خدمات کا پرچار کرتی ہے۔

11 مئی کو ٹائٹل 42 نامی قانون ختم ہونے کے بعد، جو ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں کورونا کی وبا کو جواز بنا کر لوگوں کو ڈی پورٹ کرنے کی اجازت دیتا تھا، یہ غیر قانونی کاروبار ایک بار پھر سے چمک رہا ہے۔

تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس قانون کی مدت ختم ہو جانے کے بعد تارکین وطن کی گرفتاریوں میں 70 فیصد کمی آئی ہے کیوں کہ زیادہ لوگ اب قانونی طریقے سے ملک میں آ رہے ہیں۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مجرمانہ تنظیمیں جو تارکین وطن کو سرحد پار کروانے میں مدد دیتی ہیں اب پہلے سے کم منافع کما رہی ہیں۔

ایڈ کالڈرون کہتے ہیں کہ ’ان سمگلرز کی تو جیسے عید ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ تارکین وطن میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ گرفتاری کے امکان کے بغیر کامیابی سے سرحد پار کرنا مشکل ہے۔

’یہ ان کے پروپیگینڈا کی وجہ سے ہے اور اس کی مدد سے وہ اپنا معاوضہ بڑھاتے ہیں۔‘

ایڈ کالڈرون کے تجزیے سے ایڈم اساکسون اتفاق کرتے ہیں۔ لاطینی امریکہ کے واشنگٹن آفس کے ماہر اعتراف کرتے ہیں کہ سمگلرز کی خدمات کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔

سوشل میڈیا پر جو ویڈیوز موجود ہیں وہ بھی اس کا ثبوت ہیں جن میں سمگلرز کی خدمات سے مطمئن افراد امریکہ کی گلیوں سے پیغامات ریکارڈ کرواتے ہیں۔

ایک ایسی ہی ویڈیو میں ایک شخص کہتا ہے ’ہم یہاں نیو یارک شہر میں موجود ہیں۔ میں اپنی کمپنی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنھوں نے مجھے باحفاظت یہاں تک پہنچایا۔‘

بظاہر ایک ٹریول ایجنسی ہونے کا دعوی کرتی ویڈیو دیکھنے والوں کو بنا ویزا امریکہ پہنچنے کے لیے ان کو پیغام بھجوانے کی ترغیب دیتی ہے۔

دیگر ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سمگلرز کیسے تارکین وطن کو مشکل مقامات سے گزار رہے ہیں یا سیڑھیوں کے ذریعے سرحد پر لگی باڑ پار کرنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سی ویڈیوز میں لاطینی امریکہ میں گھر سے امریکہ میں حتمی منزل تک پہنچانے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔

تقریبا تمام ویڈیوز میں ہی ایک نمبر موجود ہے جس پر پپیغام بھیج کر معاوضہ سمیت مذید تفصیلات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

تاہم یہ انڈسٹری ڈھکے چھپے انداز میں کام کرتی ہے جس کی وجہ سے ایسے اعداد و شمار موجود نہیں کہ کتنے تارکین وطن سوشل میڈیا کے ذریعے سمگلرز سے رابطہ کرتے ہیں اور ان میں سے کون اصلی ہیں اور کون جعلی۔

جارج میسن یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر گواڈالوپے کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے سمگلرز تارکین وطن میں بے چینی پیدا کرتے ہیں اور یوں ایسے افراد سمگلرز کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سمگلنگ نیٹ ورک غلط معلومات کے ذریعے خوف کو پروان چڑھاتے ہیں تاکہ تارکین وطن کسی بھی طریقے سے ان کی مدد حاصل کریں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے سمگلرز کا معاوضہ یکساں نہیں ہوتا اور اس کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ان سمگلرز کی نظر میں تارکین وطن یا ان کا خاندان کتنا پیسہ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بعض اوقات ادائیگی اقساط میں کی جاتی ہے۔

امریکی حکام کے مطابق ایسے تارکین وطن جو پیسے ادا نہیں کر پاتے، کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ گینگ کے لیے کام کریں۔ ان سے ڈرائیونگ، منشیات لے جانے یا پھر جسم فروشی کروائی جاتی ہے۔

ان میں سے کچھ کو سیف ہاؤسز میں یرغمال بنا لیا جاتا ہے جب تک وہ مکمل رقم ادا نہیں کر دیتے یا پھر ان کے خاندان کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

ایڈ کالڈرون کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک بہت بڑی انڈسٹری ہے اور سرحد پار کروانا کافی منافع بخش ہے۔‘

ان کا اندازہ ہے کہ بنیادی پیکج پانچ ہزار سے آٹھ ہزار ڈالر تک ہوتا ہے جس میں چار افراد کے خاندان کو میکسیکو سے سرحد پار کروائی جاتی ہے۔

امریکی اور میکسیکو کے حکام کے اندازوں کے مطابق عام طور پر معاوضہ 15 ہزار ڈالر تک ہوتا ہے لیکن یہ قیمت لاطینی امریکہ سے باہر سے آنے والے افراد کے لیے بڑھ کر 50 سے 60 ہزار ڈالر تک بھی جا سکتی ہے۔

بی بی سی ان تخمینوں کی تصدیق نہیں کر سکتا۔

دوسری جانب سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی معلومات اب امریکی حکام کی نظر میں بھی آ چکی ہیں۔

ہوم لینڈ سکیورٹی سیکرٹری الیہاندرو مایورکاس نے خبردار کیا ہے کہ ممکنہ تارکین وطن سرحد پار کروانے کا لالچ دینے والوں کے فریب میں مت آئیں۔

ان کے محکمے نے سوشل میڈیا پر ایک مہم کا آغاز بھی کیا ہے جس میں ایسے اشتہارات دیے جاتے ہیں جن کے ذریعے امریکی پالیسی اور غیر قانونی طریقے سے سرحد پار کرنے کے خطرات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر موجود مواد ہٹانے کی مہم بھی جاری ہے۔ اس خبر میں جن ویڈیوز کا حوالہ دیا گیا ہے ان کو پہلے ہی ہٹایا جا چکا ہے۔ لیکن سمگلرز کی جانب سے ایسی ہی اور ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جا چکی ہیں۔

الیکس پیچیو سابق کسٹمز اور بارڈر پیٹرول سپروائزر ہیں جن کے پاس 20 سال کا تجربہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز آتی رہیں گی۔

’وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو فوری سرحد پار کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ اگر ابھی سرحد پار نہیں کی تو قیمت بڑھ سکتی ہے۔‘

’کچھ کو کہا جائے گا کہ اب نئی امریکی انتظامیہ آنے والی ہے اور جو بائیڈن صدر نہیں رہیں گے، اور سرحد کا نظام پہلے جیسا ہو جائے گا، یہ سب ان کے فائدے کے لیے ہوتا ہے۔‘