اہم خبریں

ٹوئٹر پر مواد تک رسائی محدود: اب آپ ایک دن میں کتنے ٹویٹ دیکھ سکتے ہیں؟

ایلون مسک نے کہا ہے کہ ٹوئٹر پر صارفین دن میں کتنے ٹویٹ پڑھ سکتے ہیں، اس کی ایک عارضی حد مقرر کی گئی ہے۔

انھوں نے اپنے ہی ٹویٹ میں بتایا کہ غیر مصدقہ اکاؤنٹ اب سے دن میں صرف ایک ہزار پوسٹیں پڑھ سکیں گے۔ جبکہ نئے غیر مصدقہ اکاؤنٹس کے لیے یہ حد 500 ہوگی۔

البتہ فیس دے کر بلیو ٹک حاصل کرنے والے مصدقہ اکاؤنٹس دن میں 10 ہزار ٹویٹ پڑھ سکیں گے۔

ٹوئٹر کے مالک نے ابتدائی طور پر ان حدود کو سخت رکھا مگر اعلان کے کچھ دیر بعد ان میں رد و بدل کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ عارضی حد بندی کا مقصد ’ڈیٹا سکریپنگ (کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے ویب سائٹ سے معلومات لینا) اور سسٹم مینی پولیشن (نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ) کی انتہائی بلند سطح‘ کا مقابلہ کرنا ہے۔‘

انھوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ انھوں نے کس سیاق و سباق میں سسٹم مینی پولیشن کا ذکر کیا ہے۔

ایلون مسک نے جمعے کو کہا کہ ’ڈیٹا کی چوری اس قدر بڑھ گئی تھی کہ عام صارفین کے لیے بھی سروس خراب ہونے لگی تھی۔‘ اس دوران صارفین سے ٹوئٹر کا مواد دیکھنے کے لیے دوبارہ لاگ ان کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔

اس اقدام کو ’عارضی ہنگامی اقدام‘ کہا گیا ہے۔

یہ واضح نہیں کہ ڈیٹا سکریپنگ سے مسک کا کیا مطلب ہے تاہم بظاہر ایسا لگتا ہے جیسے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی کمپنیاں اپنے نظام یا لینگویج ماڈل کو بہتر کرنے کے لیے معلومات جمع کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر اسی معلومات کے ذریعے اوپن اے آئی کا چیٹ جی پی ٹی اور گوگل بارڈ جیسے چیٹ باٹ کام کر پاتے ہیں۔

عام الفاظ میں ڈیٹا سکریپنگ سے مراد ہے کہ انٹرنیٹ سے معلومات جمع کرنا۔ بڑے لینگویج ماڈل کو مصنوعی ذہانت کے نظام کے ذریعے اصل انسانوں کی گفتگو سے سیکھنا پڑتا ہے۔

لیکن کسی چیٹ باٹ کی کامیابی کا راز اس کے معیار میں ہے۔ ریڈ اِٹ اور ٹوئٹر کے مواد کو مصنوعی ذہانت کی تربیت کے لیے بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ انھی وسائل سے اے آئی کمپنیاں اپنی سروسز کو بہتر بناتی ہیں

مگر ٹوئٹر اور ریڈ اِٹ جیسے پلیٹ فارم چاہتے ہیں کہ انھیں اس ڈیٹا کے بدلے ادائیگی کی جائے۔

اپریل میں ریڈ اِٹ کے سربراہ سٹیو ہفمین نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ وہ اے آئی کمپنیوں کے اقدام سے ناخوش ہیں۔ ’ریڈ اِٹ کا ڈیٹا بہت قیمتی ہے۔ لیکن ہم یہ قیمتی ڈیٹا دنیا کی بڑی کمپنیوں کو مفت میں نہیں دینا چاہتے۔‘

اپنی سروس اپلیکیشن پروگرامنگ انٹرفیس (اے پی آئی) تک رسائی کے لیے ٹوئٹر نے پہلے ہی صارفین سے رقم وصول کرنا شروع کر دی ہے۔ اس ایپ کے ذریعے کوئی ایپ، محقق یا اے آئی کمپنی ٹوئٹر کے مواد سے متعلق معلومات لے سکتی ہے۔

اس اقدام کی دیگر وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔

مسک لوگوں کو ٹوئٹر بلیو میں شمولیت کا کہہ رہے ہیں جو کہ ٹوئٹر کی وہ سروس ہے جس میں پیسے دے کر ایک شخص بلیو ٹک اور مصدقہ اکاؤنٹ حاصل کرسکتا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ایسا ماڈل لا رہے ہوں جس میں ٹوئٹر کی مکمل سروس کے لیے صارفین کو پیسے دینا پڑیں اور اسی صورت انھیں لامحدود پوسٹوں تک رسائی مل سکے۔

مسک کے آنے سے قبل ٹوئٹر کا بلیو ٹک صرف معروف شخصیات کو مل پاتا تھا۔ اب محض آٹھ ڈالر ماہانہ کے عوض مصدقہ اکاؤنٹ حاصل کیا جاسکتا ہے اور اس کا صارف کی پروفائل سے کوئی لینا دینا نہیں۔

ویب سائٹس کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے ٹول ڈاؤن ڈیٹیکٹر کے مطابق برطانیہ اور امریکہ میں سنیچر کو ٹوئٹر تک رسائی میں ہزاروں صارفین کو دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔

اس سے قبل مسک نے اعلان کیا تھا کہ مصدقہ اکاؤنٹ دن میں چھ ہزار، غیر مصدقہ 600 جبکہ نئے غیر مصدقہ اکاؤنٹ دن کی 300 پوسٹیں ہی دیکھ سکیں گے۔ مگر پھر مسک نے یہ حدیں بڑھا دیں۔

مسک کا خیال ہے کہ سینکڑوں ادارے ٹوئٹر کا ڈیٹا انتہائی تیزی سے حاصل کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ٹوئٹر کی ویب سائٹ پر اس کا بوجھ ہے اور ہنگامی بنیادوں پر اچانک بہت زیادہ سرورز کا بندوبست کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ سرور اس بڑے کمپیوٹر کو کہا جاتا ہے جہاں صارفین کی فائل اور ویب پیج محفوظ ہوتے ہیں۔

برطانوی ماہر ایڈم لیون سمتھ نے کہا کہ یہ اقدام ’کافی غیر معمولی‘ ہے کیونکہ صارفین کی مواد تک رسائی محدود ہونے سے کمپنی کی اشتہاروں سے ہونے والی آمدن متاثر ہوسکتی ہے۔

مسک نے گذشتہ سال 44 ارب ڈالر کے عوض ٹوئٹر کو خرید لیا تھا۔ وہ سابقہ انتظامیہ پر تنقید کرتے ہیں۔

انھوں نے آتے ہی قریب آٹھ ہزار کے عملے کو کم کر کے 1500 کر دیا تھا۔ بی بی سی کو دیے انٹرویو میں انھوں نے تسلیم کیا کہ عملے کو نوکریوں سے نکالنا آسان نہیں تھا۔

ٹوئٹر کے کئی انجینیئروں کو فارغ کیا گیا جس نے پلیٹ فارم کے موجودہ استحکام پر سوال اٹھائے ہوئے ہیں۔

اگرچہ مسک نے اس کے نظام میں خامیوں کو تسلیم کیا مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ ٹوئٹر کی بندشیں زیادہ دیر تک جاری نہیں رہیں اور اب ویب سائٹ صحیح کام کر رہی ہے۔