امید کی جا رہی ہے کہ سکیننگ کا ایک نیا طریقہ جس میں چوہے کو دیکھا جا سکتا ہے، کینسر کی دوائیوں کے ٹیسٹ کرنے کے طریقہ کار کو بہتر بنا سکتا ہے جس سے ان ٹیومرز کا پتہ لگانے میں مدد ملے گی جو سائز میں بہت چھوٹے ہونے کی وجہ سے سکین میں نظر نہیں آتے تھے۔
ہیلم ہولٹز میونخ کے تحقیقی مرکز کے پروفیسر علی ارترک نے 2018 میں مردہ چوہے کو ٹرانسپیرنٹ (جس کے آر پار دیکھا جا سکے) بنانے کے طریقے پر کام کیا۔
ان کی ٹیم نے اب مخصوص ٹشوز کو نمایاں کرنے کے لیے کیمیکلز کا استعمال کیا ہے تاکہ انھیں زیادہ تفصیل سے سکین کیا جا سکے۔
اس سے قبل اکثر منشیات کا چوہوں پر تجربہ کیا جاتا رہا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سکیننگ کا یہ نیا طریقہ طبی تحقیق میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔
کینسر ریسرچ یوکے نے کہا ہے کہ سکیننگ کی نئی تکنیک میں ’بہت زیادہ صلاحیت‘ ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ موجودہ سکیننگ تکنیکوں سے کہیں زیادہ تفصیلات ظاہر کرتا ہے۔ اس پر تجربات کرنے والی ٹیم نے کینسر والے ٹیومر کا اس کے بننے کے ابتدائی مراحل میں ہی پتہ لگا لیا ہے۔
پروفیسر ارترک کا کہنا ہے کہ یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ کینسر کی دوائیوں کو انسانوں پر آزمانے سے پہلے چوہوں میں ٹیومر کو ختم کرنے کے لیے دکھایا جاتا ہے۔
’ایم آر آئی اور پی ای ٹی سکین آپ کو صرف بڑے ٹیومر دکھاتے ہیں۔ ہمارے سکین میں آپ کو ٹیومر اس حالت میں بھی نظر آ جاتا ہے جب وہ صرف ایک سنگل سیل ہو، جو ایم آر آئی اور پی ای ٹی میں ممکن نہیں ہے۔‘
ابھی جو ادویات موجود ہیں وہ مریض کی زندگی کو چند سال تک بڑھا دیتی ہیں اور پھر کینسر واپس آجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نظر نہ آنے والے چھوٹے ٹیومر کو ختم نہیں کیا جا رہا تھا۔‘
عام طور پر لیب کے چوہوں کو کینسر دیا جاتا ہے اور روایتی سکینوں کے ساتھ سکین کیا جاتا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ ٹیومر کیسے بڑھ رہا ہے۔ اس کے بعد ان کا علاج کینسر کی اس دوا سے کیا جاتا ہے جو تجربات کے مراحل میں ہو اور پھر دوبارہ سکین کیا جاتا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ علاج سے کیا فرق پڑا ہے۔
پروفیسر ارترک کا سکیننگ کا طریقہ صرف مردہ چوہوں پر ہی استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ ان میں کینسر کتنا بڑھا ہے، یا ممکنہ طور پر یہ کہ آیا ادوایات سے فرق پڑا ہے یا نہیں۔
انھوں نے چوہوں کو کینسر ہونے کے بعد ٹرانسپیرنٹ بنایا اور پھر اپنی نئی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے انھیں سکین کیا۔ دوا کی تاثیر جانچنے کے لیے صرف چند چوہوں کو ٹرانسپیرنٹ بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر روپل مستری، کینسر ریسرچ یو کے میں ریسرچ انفارمیشن مینیجر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس دلچسپ اور انوکھی سکیننگ تکنیک میں ہمارے اس علم کو بڑھانے کی صلاحیت ہے کہ ہمارے جسم کیسے کام کرتے ہیں اور کینسر جیسی بیماریوں میں کیا ہوتا ہے۔‘
’اگرچہ محققین صرف مردہ چوہوں کا معائنہ کرنے کے لیے اس تکنیک کا استعمال کر سکیں گے، لیکن اس سے ہمیں بہت سی معلومات مل سکتی ہیں جیسا کہ بیماری کے ابتدائی مراحل میں کینسر کیسے پیدا ہوتا ہے۔ اس سے محققین کو مختلف ادویات اور علاج کی تاثیر کے بارے میں بھی زیادہ سے زیادہ سمجھ معلومات ملے گی۔‘
’اس طرح کی ٹیکنالوجی میں پیشرفت آگے بڑھنے کے لیے بہت اہم ہے اور امید ہے کہ یہ کینسر کا پتہ لگانے، علاج کرنے اور روکنے کے نئے طریقوں کے بارے میں مزید جاننے میں مددگار ہو گی‘۔
نیچر بائیوٹیکنالوجی نامی میگزین میں شائع ہونے والی کینسر کی ایپلی کیشن ہزاروں نہیں تو سینکڑوں میں سے صرف ایک ہے جس میں سکیننگ کی نئی تکنیک کو طبی علوم کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ محققین کو ان چیزوں کو دیکھنے کے قابل بنا سکتا ہے جو انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔
چوہے ہر کی جانے والی تحقیقات اکثر انسانی جسم میں ہونے والے عمل کے بارے میں سیکھنے کا نقطہ آغاز ہوتی ہیں۔ لیکن نئی تکنیک کسی بھی جانور پر استعمال کی جا سکتی ہے۔ اسے انسانی ٹشوز اور اعضا کو ٹرانسپیرنٹ بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
چوہے کو ٹرانسپیرنٹ بنانے کے لیے کیمیائی عمل کا استعمال کرتے ہوئے اس کی لاش سے تمام چربی اور روغن نکالا جاتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں چوہا ایک شفاف پلاسٹک کے کھلونے کی طرح نظر آتا ہے جو تھوڑا سا موڑا بھی جا سکتا ہے۔ اس کے اعضا اور اعصاب سب ابھی تک اس کے اندر ہیں لیکن تقریباً پوشیدہ ہیں۔
پروفیسر ارترک نے چوہے کو ٹرانسپیرنٹ بنانے کا عمل پانچ سال پہلے تیار کر لیا تھا اب سکیننگ تکنیک کے ذریعے اس کا زیادہ فائدہ سامنے آ رہا ہے۔
انھوں نے چوہے کے چند خاص حصوں کو (جن کا وہ ایک خوردبین کے نیچے مطالعہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں) اجاگر کرنے کے لیے دوسرے کیمیکلز کو شامل کرنے کا ایک طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔ مختلف اینٹی باڈیز مختلف قسم کے ٹشوز سے چپکی ہوتی ہیں لہذا جس چیز کو محققین دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اسے نمایاں کر لیں۔
کینسر والے حصوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ پروفیسر ارترک کی ٹیم نے ایسی ویڈیوز بھی تیار کی ہیں جو محققین کو چوہے کے اعصابی نظام یا آنتوں وغیرہ کے نظام کے متعلق مزید جاننے کے قابل بناتا ہے۔
ان سکینز کے کئی فائدے ہیں۔
محققین پورے جسم میں بیماریوں پر تحقیق کر سکتے ہیں جس سے انھیں مختلف ادویات اور علاج کی تاثیر کی زیادہ معلومات ملتی ہے۔
تھری ڈی تصاویر آن لائن محفوظ جاتی ہیں لہذا ایسے محققین جو جانور کے مختلف حصوں پر تحقیق کر رہے ہیں یا ویسا ہی تجربہ کرنا چاہتے ہیں، وہ کسی دوسرے چوہے کو استعمال کرنے کے بجائے لائبریری سے تصویر استعمال کر ہیں۔ پروفیسر ارترک کا خیال ہے کہ اس تکنیک سے لیبارٹری جانوروں کے استعمال میں دس گنا کمی ہو سکتی ہے۔
کیمبرج میں ویلکم سینجر انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر نانا جین چپمپے، انسانی جسم میں خلیوں کی نشوونما پر تحقیق کرنے کے لیے اس نئی سکیننگ تکنیک کو لے کر خاصی پرجوش ہیں۔ فی الحال انھیں خوردبین کے نیچے ان کا مطالعہ کرنے کے لیے ٹشوز کو بہت پتلے حصوں میں کاٹنا پڑتا ہے مگر جلد ہی وہ تھری ڈی میں بھی تفصیلی جائزہ لے سکیں گی۔
انھوں نے بہت پرجوش انداز میں مجھے بتایا کہ ’میں اس پر تجربہ کرنے کے لیے بہت بے چین ہوں۔‘
’اس میں نئے ٹشوز، خلیات اور بیماریوں کو شناخت کرنے کی صلاحیت ہے جس سے ہمیں بیماریوں کی نشوونما کو سمجھنے میں واقعی مدد ملے گی۔‘
ان کی ٹیم لیڈر پروفیسر مزلفہ حنیفہ، انسانی جسم کے ہر خلیے کا ایک آن لائن میپ یا اٹلس تیار کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سکیننگ کی نئی تکنیک ہر قسم کی طبی تحقیق کے لیے کارآمد ثابت ہو گی۔
انھوں نے کہا ’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ طبی تحقیق کی رفتار کو تیز کرے گا۔ ان جدید ترین ٹیکنالوجیز کی مدد سے انسانی خلیے کا میپ تیرا کرنا طب میں مکمل انقلاب برپا کر دے گا۔‘