12 جولائی کو ریلیز ہونے والی ہالی وڈ فلم ’مشن امپاسیبل: ڈیڈ ریکینینگ‘ میں ٹیکنالوجی کی جدت اور روایت کا غیرمعمولی امتزاج نظر آتا ہے۔
مشن امپاسیبل 7 میں ولن بھی کوئی انسان نہیں بلکہ جذبات رکھنے والی مصنوعی ذہانت ہے جسے ’دی اینٹیٹی‘ کا نام دیا گیا ہے۔
مگر یہ ایسی مصنوعی ذہانت نہیں جو محنتی افراد کی نوکریوں کے لیے خطرہ ہو، جیسا کہ آج کل کہا جا رہا ہے، بلکہ یہ ولن چاہتا ہے کہ دنیا میں موجود تمام تر معلومات پر اس کا غلبہ ہو اور یہ اس کی دسترس میں ہو۔
فلم کے ابتدائی مناظر میں سے ایک منظر میں ایک کمرے میں موجود ٹائپسٹ جلد بازی میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ڈیٹا کو کاغذات پر منتقل کر رہے ہیں تاکہ ولن ’دی اینٹیٹی‘ اِن معلومات کو نہ پڑھ پائے اور یہ خفیہ معلومات اُس کی پہنچ سے دور رہیں۔
فلم میں موجود زبردست سٹنٹس کے علاوہ اس نوعیت کے مناظر خوفناک حد تک قابل فہم لگتے ہیں۔
اس فلم کے ہدایتکار اور شریک مصنف کرسٹوفر میک یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مشن امپاسیبل 7 ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی صنعت یا کمپیوٹر وائرس سے متعلق کہانی نہیں ہے۔
فلم میں آگے بڑھ کر پتا چلتا ہے کہ مصنوعی ذہانت پر مبنی ولن کو شکست دینے کا واحد طریقہ دو ٹکڑوں سے بنی ایک چھوٹی سی دھات کی چابی ہے، جسے لوگ اپنے گلے کے گرد پتلی زنجیروں سے لٹکائے رکھتے ہیں۔
دنیا کو فتح کرنے کی خواہش رکھنے والے ایک الیکٹرانک سپر دماغ (دی اینٹیٹی) کے بارے میں تمام ابتدائی تشویش کے باوجود، اس فلم میں بھی انسانوں کی تقدیر کا فیصلہ جیب تراشی، ہاتھ کی صفائی دکھانے، لڑائی جھگڑوں اور کاروں اور انسانوں کے ایک دوسرے کا پیچھا کرنے کے نتیجے میں ہو گا (یعنی اس میں مشن امپاسیبل کے روایتی سین ہی ہوں گے)۔
اس فلم کے ذریعے ٹام کروز اور کرسٹوفر میک پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں مقبول گلیمرس کرائم فکشنز کو نفیس انداز میں خراج تحسین پیش کر رہے ہیں، جو کہ ایک ایسے وقت میں خوش آئند انتخاب ہے جب ہم سب کے پاس فکرمند ہونے کے لیے اور بہت سی وجوہات اور مسائل ہیں۔
فلم کے ریلیز ہونے والے پوسٹرز اور ٹریلرز میں اُس سٹنٹ کو دکھایا گیا ہے جس میں ٹام کروز ایک پہاڑ کے دہانے سے موٹر سائیکل پر چھلانگ لگاتے ہیں اور پھر اپنا پیراشوٹ کھولنے سے پہلے تھوڑی دیر کے لیے فری فال کرتے ہیں۔
یہ سٹنٹ شاید فلم کی کہانی کے لیے لازمی نہیں تھا لیکن ٹام کروزلا جو ایسے سٹنٹس کی وجہ سے ہی مشہور ہیں، کو لطف اندوز ہوتے دیکھ کر اچھا لگا۔
اس فلم میں ایک پرانے دوست کو بھی دیکھ کر اچھا لگا۔ ہنری زیرنی نے سنہ 1996 میں ریلیز ہونے والی پہلی مشن امپاسیبل فلم میں ’امپاسیبل مشنز فورس آفیسر‘ کے طور پر ’کیٹرج‘ کا کردار ادا کیا تھا۔ اور اب نئی فلم میں وہ اس پورے آپریشن کے سربراہ کے طور پر واپس آئے ہیں۔
فلم میں جب کیٹرج ساری صورتحال کی وضاحت کرتے ہیں تو ایتھن ہنٹ اپنے معمول کے عملے کو جمع کرتا ہے، یعنی ایک پُراعتماد کمپیوٹر ماہر (ونگ ریمز)، ایک گھبرا جانے والا کمپیوٹر ٹیکنیشن (سائمن پیگ) اور خفیہ ایجنسی ایم آئی 6 کو دھوکہ دینے والی ایک ایجنٹ (ریبیکا فرگوسن)۔
اس ٹیم کو جلد ہی پتا چل جاتا ہے کہ ’دی اینٹیٹی‘ کی معاونت ایک شیطان صفت گیبریل (ایسائی موریلز) کر رہا ہے جس کا تعلق ایتھن کے ماضی سے جڑا ہے۔ گیبریل کا اپنا ایک معاون ساتھی ہے، جو کہ ایک ظالم قاتل ہے، اور یہ کردار پوم کلیمینٹیف نے ادا کیا ہے۔
اور ہاں اس کے علاوہ سی آئی ایجنٹس کا ایک جوڑا بھی ہے جن کا کام فقط کام کو خراب کرنا ہے، جب بھی انھیں موقع ملے۔
یہ کرداروں کا ایک دلچسپ گروپ ہے، لیکن فلم کا اصل مزہ اس وقت تک شروع نہیں ہوتا جب تک یہ تمام کردار ابوظہبی ایئرپورٹ کے اردگرد ایک دوسرے کا پیچھا کرنا شروع نہیں کرتے۔
وہ منظر بھی ہے کہ جب ایتھن چابی پکڑنے ہی والا ہوتا ہے، تو ’گریس‘ کا کردار ادا کرنے والی ہیلیے ایٹویل انھیں اس کام میں چالاکی سے مات دے دیتی ہیں اور اس کے بعد وہ ایتھن کو متعدد مواقع پر دھوکہ دینے میں کامیاب رہتی ہیں اور یہ سلسلہ فلم کو شرارتی موڈ فراہم کرنے میں مدد کرتا ہے۔
ایک موقع پر آپ یہ سوچیں گے کہ گریس کا ایتھن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ پر مبنی رومانوی رشتہ تھا، مگر کروز کوئی کیری گرانٹ نہیں ہیں۔
پھر بھی، کروز اور ایٹ ویل میں جاری آنکھ مچولی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ مشن امپاسیبل 7 پسند آنے کے لائق فلم ہے اور آپ کو یہ محسوس نہیں ہو گا کہ یہ پونے تین گھنٹے طویل دورانیے کی فلم ہے۔
پھر بھی یہ ’ٹاپ گن‘ اور ’میورک‘ کے مقابلے کی نہیں۔ اس فلم کے ریلیز ہونے میں تمام تر تاخیر کے باوجود، اور کورونا کی وبا کے دوران اس کی پروڈکشن کے کام کو جاری رکھنے کی اطلاعات کے باوجود، شاید یہ وہ شاہکار نہ ہو جس کی ہم نے امید کی ہو گی۔
کرسٹوفر میک کی پسندیدہ تکنیک یہ ہے کہ وہ متعدد کرداروں کو باری باری ایک جملہ کہنے کے لیے لے جائیں، جس کے باعث اُن کا سپیل تقریباً مکالمے کی طرح لگتا ہے، لیکن یہ کسی کو بیوقوف بنانے کے لیے کافی نہیں ہے۔
ایک اور پریشان کن مسئلہ یہ ہے کہ فلم کا بیشتر حصہ بہت جانا پہچانا سا لگتا ہے۔ گذشتہ دو مشن امپاسیبل فلموں کی طرح، جن کی ہدایتکاری کرسٹوفر نے کی ہے، اس فلم میں بھی اُن سٹنٹس اور مقامات کا استعمال کیا گیا ہے جو ہم نے پہلے ہی جیمز بانڈ فلموں میں دیکھے ہیں۔
اور سب سے بُری بات یہ ہے کہ اس میں ایسے سٹنٹس اور ان مقامات کا استعمال کیا گیا ہے جو ہم نے جیمز بانڈ کے علاوہ پہلے ہی دوسری فلموں میں بھی دیکھ رکھے ہیں۔
ایک منظر میں جب ایتھن گھوڑے کی پیٹھ پر صحرا میں کچھ لوگوں کا پیچھا کر رہے ہوتے ہیں تو یہ سین مارچ میں ریلیز ہونے والی فلم ’جان وِک چیپٹر 4‘ کے ایک منظر کی طرح ہی نظر آتا ہے۔
اور جب وہ منظر آتا ہے جس میں کار روم میں سپینیش سیٹرھیوں سے ٹکراتی ہوئی نیچے آتی ہے تو یہ منظر مئی میں ریلیز ہونے والی فاسٹ ایکس فلم کے منظر جیسا لگتا ہے۔
ان فلموں کو ذہن میں رکھتے ہوئے جنھوں نے کروز اور کرسٹوفر میک کو متاثر کیا، یہ زیادہ مناسب ہوتا اگر ایتھن اور گریس اس کی بجائے فرنچ رویرا کے گرد گھوم رہے ہوتے۔
لیکن ہو سکتا ہے کہ کرسٹوفر میک نے یہ سین ’مشن امپاسیبل: ڈیڈ ریکنینگ پارٹ ٹو‘ کے لیے بچا کر رکھ لیا ہو جو کہ آئندہ ایک سال میں ریلیز ہو گی۔