اٹلانٹک سمندر کی گہرائیوں میں کھو جانے والی ایک تفریحی آبدوز کی تلاش کا کام جاری ہے جس میں سوار پانچ مسافر ٹائٹینک جہاز کا ملبہ دیکھنے جا رہے تھے۔ ان پانچ مسافروں میں سے دو پاکستانی شہری ہیں۔
امریکی کوسٹ گارڈ کے مطابق اتوار کے دن اس چھوٹی سی آبدوز کے سفر کے آغاز کے ایک گھنٹہ 45 منٹ بعد ہی رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ واضح رہے کہ اس آٹھ دن کے سفر کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر کا ٹکٹ خریدا جاتا ہے اور سمندری کی تہہ میں 3800 میٹر تک اتر کر ٹائٹینک جہاز کے ملبے کا نظارہ کیا جاتا ہے۔
اس تفریحی سفر کی منتظم کمپنی اوشیئن گیٹ کا کہنا ہے کہ آبدوز میں سوار افراد کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے جس میں حکام کے مطابق امریکی اور کینیڈین نیوی سمیت نجی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔
اس آبدوز میں سوار پاکستانی شہریوں میں شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان بھی شامل ہیں۔
داؤد فیملی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہمارے بیٹے شہزادہ داؤد اور اُن کے بیٹے سلیمان نے بحر اوقیانوس میں ٹائیٹینک کی باقیات کو دیکھنے کے لیے سفر کا آغاز کیا تھا۔ فی الحال، اُن کی سب میرین کرافٹ (چھوٹی آبدوز) سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے اور اس کے بارے میں دستیاب معلومات محدود ہیں۔ متعدد سرکاری ایجنسیوں اور گہرے سمندر میں کام کرنے والی کمپنیوں کی قیادت میں ایک مشترکہ کوشش کی جا رہی ہے تاکہ آبدوز سے رابطہ بحال کیا جا سکے اور انھیں بحفاظت واپس لایا جا سکے۔‘
داؤد فیملی نے مزید کہا کہ ’ہم اپنے ساتھیوں اور دوستوں کی طرف سے موصول ہونے والے پیغامات پر بہت مشکور ہیں اور ہر ایک سے درخواست کرنا چاہیں گے کہ اس وقت خاندان کی رازداری کا خیال کرتے ہوئے اُن کی حفاظت کے لیے دعا کریں۔‘
شہزادہ داؤد اینگرو پاکستان کے نائب چیئرمین ہیں۔
یاد رہے کہ آبدوز میں موجود تیسرے مسافر 58 سالہ برطانوی ارب پتی ہمیش ہارڈنگ بھی شامل ہیں جبکہ دیگر دو عملے کے افراد ہیں۔ واضح رہے کہ اس آبدوز میں چار دن کی ایمرجنسی آکسیجن سپلائی موجود ہوتی ہے۔
سوموار کو امریکی کوسٹ گارڈ کے ریئر ایڈمرل جان ماگر نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ ’ہمارے اندازے کے مطابق اس وقت 70 سے 96 گھنٹے دستیاب ہیں۔‘
تاہم انھوں نے بتایا کہ جس علاقے میں سرچ آپریشن کیا جا رہا ہے وہ کافی دور دراز ہے جس کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ اس سرچ آپریشن میں ایک آبدوز، دو ہوائی جہاز حصہ لے رہے ہیں۔
اس سفر کے آغاز سے قبل برطانوی ارب پتی ہمیش ہارڈنگ نے سوشل میڈیا پر لکھا تھا کہ انھیں یہ اعلان کرتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ٹائٹینک کے ملبے تک جانے والے مشن کا حصہ بن رہے ہیں۔
انھوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’نیو فاؤنڈ لینڈ میں 40 سال کے بدترین موسم سرما کی وجہ سے اس سال کا یہ پہلا اور آخری مشن ہو گا۔‘
دوسری جانب اوشیئن گیٹ کمپنی نے کہا ہے کہ ان کی پوری توجہ اس وقت آبدوز میں سوار افراد اور ان کے اہلخانہ پر ہے۔
اس کمپنی کی اشتہاری مہم کے مطابق آٹھ دن کا یہ سفر عام زندگی سے نکل کر کچھ غیر معمولی دریافت کرنے کا موقع ہے۔
کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق 2024 میں بھی دو مہمات بھیجنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
اس چھوٹی سی آبدوز میں ایک پائلٹ کے علاوہ تین مہمان مسافر ہوتے ہیں جو ٹکٹ کی ادائیگی کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ کمپنی کے مطابق ایک ماہر بھی آبدوز میں سوار ہوتا ہے۔
اس مہم کا آغاز نیو فاؤنڈ لینڈ میں سینٹ جونز سے ہوتا ہے۔
کمپنی کی وی سائٹ کے مطابق اس کے پاس تین آبدوزیں ہیں جن میں سے صرف ٹائٹن نامی آبدوز، جو لاپتہ ہے، اتنی گہرائی تک جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اس آبدوز کا وزن 10432 کلو ہے اور ویب سائٹ کے مطابق یہ 13100 فٹ کی گہرائی تک جا سکتی ہے۔ اس آبدوز میں 96 گھنٹے تک کے لیے لائف سپورٹ موجود ہوتی ہے۔
ڈیوڈ پوگ نامی رپورٹر، جن کا تعلق سی بی ایس سے ہے، گزشتہ سال اسی آبدوز پر سفر کر چکے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ممکنہ طور پر اس آبدوز سے رابطہ کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں کیوں کہ پانی کے نیچے ریڈیو یا جی پی ایس کام نہیں کرتا۔‘
’جب کوئی جہاز اس آبدوز کے بلکل اوپر پہنچ جائے تو پھر پیغامات کا تبادلہ ہو سکتا ہے لیکن بظاہر ابھی تک ایسی کوششوں کا کوئی جواب نہیں مل رہا۔‘
انھوں نے بتایا کہ آبدوز سے نکلنے کا کوئی طریقہ نہیں کیوں کہ ’آبدوز میں موجود لوگوں کو صرف باہر سے ہی کوئی نکال سکتا ہے۔‘
واضح رہے کہ ٹائٹینک اپنے وقت کا سب سے بڑا بحری جہاز تھا جو 1912 میں نیو یارک جاتے ہوئے اپنے پہلے ہی سفر پر ایک برفانی تودے سے ٹکرا کر ڈوب گیا تھا۔ اس جہاز پر سوار 2200 مسافروں اور عملے کے اراکین میں سے 1500 سے زیادہ ہلاک ہو گئے تھے۔
اس جہاز کا ملبہ 1985 میں پہلی بار دریافت ہوا تھا۔