اہم خبریں

ویسٹ انڈیز: کرکٹ کی دنیا پر راج کرنے والی ’ناقابل تسخیر‘ ٹیم ورلڈ کپ سے باہر کیسے ہوئی؟

ورلڈ کپ کوالیفائرز میں سکاٹ لینڈ کی ٹیم نے حیران کن طور پر ویسٹ انڈیز کو سات وکٹوں سے شکست دی تو اس کے ساتھ ہی ویسٹ انڈیز کی ٹیم ورلڈ کپ 2023 کی دوڑ سے باہر ہو گئی۔

کرکٹ ورلڈ کپ کی پہلی چیمپئن ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی اس حالت پر تجزیہ کار بھی حیران ہیں کیوںکہ ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کی 48 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو گا کہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم ورلڈ کپ مقابلے میں شامل نہیں ہو گی۔

واضح رہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے 27 جون کو 2023 کے ون ڈے ورلڈ کپ کا شیڈول جاری کیا تھا جو 5 اکتوبر 2023 سے انڈیا میں منعقد ہو گا۔

سری لنکن ٹیم نے اتوار کو ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کر لیا تھا جس کے بعد بہت سے شائقین پرامید تھے کہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم کو بھی ورلڈ کپ کھیلنے کا ٹکٹ مل جائے گا۔

ورلڈ کپ کوالیفائر میں ہالینڈ کے خلاف اہم ترین میچ میں ویسٹ انڈیز نے 347 رنز بنائے تھے لیکن پھر بھی وہ میچ نہ بچا سکی۔ سپر سکس مرحلے میں انھوں نے جس طرح کھیلا اس پر میڈیا میں کافی تنقید ہوئی۔

یہ پہلا موقع ہے جب ویسٹ انڈیز کی ٹیم ون ڈے انٹرنیشنل ورلڈ کپ میں نہیں ہو گی۔ اس سے قبل یہ ٹیم گزشتہ سال آسٹریلیا میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے بھی کوالیفائی نہیں کر سکی تھی۔

ایک زمانے میں ناقابل تسخیر ٹیم

ویسٹ انڈیز کی ٹیم وہی ہے جس نے سنہ 1975 اور سنہ 1979 میں لگاتار دو بار ورلڈ کپ جیتا تھا۔ تیسری بار 1983 کے فائنل میں ایک بار پھر فاتح بننے سے انھیں انڈین کرکٹ ٹیم نے روکا۔

لیکن اس کے بعد یہ ٹیم ورلڈ کپ کے کسی بھی فائنل میچ تک نہ پہنچ سکی۔

سال 1996 میں ویسٹ انڈیز سیمی فائنل مرحلے تک پہنچا۔

کھیل کے تقریباً ہر فارمیٹ میں اس ٹیم کو 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ خاص طور پر ایک روزہ میچوں میں ان کے جارحانہ کھیل کی ایک الگ پہچان تھی۔

ہر حال میں ان کا بیٹنگ آرڈر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا تھا۔ ویوین رچرڈز، ڈیسمنڈ ہینز، گورڈن گرینیج، لوگی، رچرڈسن اور برائن لارا جیسے بلے بازوں نے دنیا بھر کے کئی ماہر گیند بازوں کو پچھاڑا۔

1980 اور 1990 کی دہائیوں میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس ٹیم کے لیے کوئی بھی ہدف حاصل کرنا مشکل نہیں ہے۔

تب اس ٹیم کے پاس خطرناک اور تیز رفتار بولرز بھی تھے۔ جوئل گارنر، مائیکل ہولڈنگ، اینڈی رابرٹس، میلکم مارشل، کرٹلی ایمبروز، کورٹنی والش، این بشپ کچھ ایسے تیز گیند باز تھے جنھوں نے بہترین بلے بازوں کو بھی ڈرا کر رکھا۔

ان کے پاس کارل ہوپر اور راجر ہارپر کی شکل میں بہترین آل راؤنڈر بھی تھے۔ جیف ڈوجون ایک عمدہ وکٹ کیپر اور بلے باز تھے، جنھوں نے کئی میچ جیتنے والی اننگز کھیلی۔

کارکردگی میں زوال

1990 کی دہائی کے آخر سے ویسٹ انڈیز کرکٹ کے حالات بدلنا شروع ہو گئے۔ پچھلی دو دہائیوں میں چند فتوحات اور ریکارڈز کے علاوہ خوشی کے لمحات کم ہی ان کے ہاتھ آئے۔

ٹیم نہ صرف ایک روزہ کرکٹ میں بلکہ ٹیسٹ کرکٹ میں بھی اپنی چمک کھو بیٹھی۔ اگرچہ انھوں نے سال 2012 اور 2016 میں دو بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتا لیکن یہاں بھی یہ زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی۔

بعد ازاں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ان کی کارکردگی میں بھی خرابی آتی چلی گئی۔

اگر ہم ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی موجودہ کارکردگی کا جائزہ لیں تو وہ موجودہ آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں آٹھویں، ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ میں 10ویں اور بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ساتویں نمبر پر ہیں۔

سنہ 2002 میں جمیکا ٹیسٹ جیتنے کے بعد اسے انڈیا کے خلاف کوئی بھی ٹیسٹ میچ جیتے ہوئے 21 سال ہو چکے ہیں۔ اس سیریز کے بعد انڈیا نے ویسٹ انڈیز کے خلاف آٹھ ٹیسٹ جیتے ہیں۔

آسٹریلیا کے خلاف بھی ویسٹ انڈیز کی کچھ ایسی ہی کارکردگی رہی ہے۔ سنہ 2003 کی سیریز کے بعد وہ آسٹریلیا کے خلاف ایک بھی میچ نہیں جیت سکے۔

پچھلے چار سالوں میں تین ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سیریز میں انڈیا نے ویسٹ انڈیز کو کلین سویپ کیا ہے۔

حالیہ برسوں میں کئی بار یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا ویسٹ انڈیز واقعی ایک ٹیم کے طور پر بھی کھیل رہی ہے؟

اکثر یہ الزامات لگائے جاتے ہیں کہ ٹیم میں اتحاد کا فقدان ہے اور یہ ایسے کھلاڑیوں کی ٹیم ہے جو انفرادی طور پر اچھا کھیلتے ہیں۔

ویسٹ انڈیز کے زوال کی وجہ کیا ہے؟

ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی کارکردگی میں مسلسل گراوٹ پر سینیئر صحافی آنند وینکٹرامن نے بی بی سی سے بات کی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی کارکردگی میں کمی ایک سال یا ایک دورے میں نہیں آئی، ویسٹ انڈیز کی ٹیم 1990 کی دہائی سے اپنی فارم کے ساتھ جدوجہد کر رہی تھی۔ ویو رچرڈز، ڈیسمنڈ ہینز، گرینیج، مارشل اور ڈوجون کی جگہ لینا آسان نہیں تھا، وہ ایک ایک کر کے ریٹائر ہوئے۔‘

ان کے مطابق ’یہ تمام کھلاڑی اکیلے ہی ایک میچ کو ٹیم کے حق میں بدل سکتے تھے۔ یقینی طور پر لارا اور ایمبروز انفرادی ٹیلنٹ کے ایک ہی زمرے کے کھلاڑی تھے۔‘

’امبروز کو والش نے سپورٹ کیا، جبکہ لارا کو بہت کم سپورٹ حاصل تھی۔ 2000 کی دہائی میں ویسٹ انڈیز کو زیادہ تر بین الاقوامی ون ڈے ٹورنامنٹس میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا، جن میں 2003 اور 2007 کے ورلڈ کپ بھی شامل تھے۔‘

وہ کہتے ہیں ’گیل بہت طاقتور بلے باز تھے۔ سروان اور چندر پال نے بھی کچھ حصہ ڈالا۔ لیکن ایک ٹیم کے طور پر یہ کافی نہیں تھا۔ سب سے زیادہ نقصان بولنگ کے شعبے میں ہوا کیونکہ انھیں اچھے کھلاڑیوں کا متبادل نہیں مل سکا۔‘

اس کی وجہ کے بارے میں، وہ کہتے ہیں کہ ’ایتھلیٹکس اور باسکٹ بال نے کیریبین جزیروں میں نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے. فٹ بال بھی بہت مقبول ہے۔ اس کے علاوہ معاشی پہلو سے بھی بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ اکثر کھلاڑیوں نے بورڈ کے خلاف بغاوت کی کہ انھیں دوسری ٹیموں کی طرح مناسب معاوضہ نہیں دیا جاتا۔‘

’اس کے علاوہ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ دوسرے ممالک کے بورڈز کی طرح کرکٹ پر خرچ کر سکیں۔‘ وینکٹارامن کا کہنا ہے کہ ’ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کو دوسرے ممالک کی طرح اپنے نوجوان کھلاڑیوں کو ترقی دینے اور فروغ دینے کی ضرورت ہے۔‘

’بہت کم نوجوان اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ لیکن وہی کھلاڑی آئی پی ایل اور بگ بیش لیگ جیسے کلبوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس صورتحال کو اپنے بورڈ، کھلاڑیوں اور سابق کھلاڑیوں کو مل کر بدلنا ہوگا۔‘

کئی سالوں تک ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم اپنی جارحیت کے لیے جانی جاتی تھی چاہے وہ بلے سے ہو، بولنگ سے ہو یا فیلڈنگ میں۔ تب دنیا کے کونے کونے میں ان کے چاہنے والے تھے۔

اگر کبھی ویسٹ انڈیز اپنی فارم میں واپس آتا ہے تو یہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ کرکٹ کے لیے بھی بہت اچھا ہو گا۔