چین اور امریکہ کے درمیان مائیکرو چپ کی جنگ میں وقت کے ساتھ شدت پیدا ہو رہی ہے اور اب چین سیمی کنڈکٹربنانے کی صنعت میں استعمال ہونے والی دو کلیدی معدنیات کی برآمدات پر پابندی لگانے کا فیصلہ کر رہا ہے۔
چینی حکومت کی جانب سے کیے گئے نئے فیصلے کے بعد اب چین سے ’گیلیم‘ اور ’جرمینیم‘ برآمد کرنے کے لیے خصوصی لائسنس کی ضرورت ہو گی۔ یہ وہ مواد ہے جس کا استعمال چِپ اور دیگر عسکری آلات بنانے میں ہوتا ہے۔
یہ پابندی ایک ایسے وقت میں لگائی جا رہی ہے جب واشنگٹن اپنی جدید مائیکرو پروسیسر ٹیکنالوجی تک بیجنگ کی رسائی کو محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
عالمی سطح پر چین گیلیم اور جرمینیم کی پیداوار کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ ’کریٹیکل را میٹریل الائنس‘ (سی آر ایم اے) کی صنعت کے مطابق چین دنیا بھر کی پیداوار کے حساب سے 80 فیصد گیلیم اور 60 فیصد جرمینیم پیدا کرتا ہے۔
یہ معدنیات دراصل ’مائنر دھاتیں‘ ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ قدرتی طور پر کان کنی کے ذریعے نہیں نکالی جا سکتیں بلکہ یہ کچھ کیمیائی مراحل کے بعد بنتی ہیں۔
ماضی میں امریکہ کے علاوہ جاپان اور نیدرلینڈز نے بھی چین سے چِِپ ٹیکنالوجی کی برآمد پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ چپ کا سامان بنانے والی بڑی کمپنی ’اے ایس ایم ایل‘ کا مرکز بھی یہی ممالک ہیں
سرمایہ کاری فرم ’بی ایم او کیپٹل مارکیٹس‘ سے تعلق رکھنے والے کولن ہیملٹن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’چین کی جانب سے یہ اعلان اتفاقی نہیں ہے کیونکہ نیدرلینڈز نے تو دیگر چیزوں کے ساتھ چپ کی برآمد پر بھی پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ سادہ سی بات ہے کہ اگر آپ (دیگر ممالک) ہمیں (چین کو) چپ نہیں دیں گے، تو ہم آپ کو چپ بنانے کے لیے ضروری مواد نہیں دیں گے۔‘
دنیا کی دو بڑی معیشتوں، امریکہ اور چین، کے درمیان مسلسل نوک جھوک اور کشیدگی نے ’وسائل میں قوم پرستی‘ کے نظریے کو فروغ دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومتیں دوسرے ممالک پر اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے اہم مواد کی ذخیرہ اندوزی کرنے لگتی ہیں۔
برمنگھم یونیورسٹی میں اس موضوع پر کی جانے والی تحقیق میں فیلو ڈاکٹر گیون ہارپر کہتے ہیں کہ ’ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومتیں تیزی سے گلوبلائزیشن کے بیانیے سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔‘
‘یہ تصور وقت کے ساتھ ختم ہو گیا ہے کہ بین الاقوامی منڈیاں دنیا بھر میں مواد فراہم کرنے کا ذریعہ ہوں گی۔ اگر آپ اسے وسیع تر زاویے میں دیکھیں تو مغربی صنعت کو بقا کے حوالے سے خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔‘
گیلیم آرسنائڈ دراصل گیلیم اور آرسینک کا ایک مرکب ہے اور اسے تیز رفتار کمپیوٹر چپس کے ساتھ ساتھ روشنی خارج کرنے والے ڈائوڈز (ایل ای ڈی) اور شمسی پینل کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔
سی آر ایم اے کے مطابق دنیا بھر میں بہت کم کمپنیاں ہیں جو گیلیم آرسنائیڈ کو الیکٹرانکس میں استعمال کے لیے درکار شفافیت کے اصولوں پر تیار کرتے ہیں۔
دوسری جانب جرمینیم کا استعمال مائیکرو پروسیسرز اور سولر سیلز بنانے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔ مسٹر ہیملٹن نے کہا کہ یہ ایسے وژن گوگلز یعنی مخصوص چشموں میں بھی استعمال ہوتا ہے جو ’فوج کے لیے کلیدی‘ حیثیت رکھتے ہیں۔
تاہم مسٹر ہیملٹن نے مزید کہا کہ ’علاقائی سپلائی میں اس کا متبادل فراہم کرنے کے لیے بنیادی دھات سمیولیٹرز کے ہاں کافی مواد ہونا چاہیے۔ اعلیٰ معیار کے سیمی کنڈکٹرز کا متبادل تلاش کرنا قدرے مشکل ہے، کیونکہ چین واقعی اس شعبے میں فوقیت رکھتا ہے۔ ایسے میں ری سائیکلنگ پر شاید کچھ دباؤ دیا جا سکتا ہے۔‘
گذشتہ ماہ پینٹاگون کے ترجمان نے کہا تھا کہ امریکہ کے پاس جرمینیم کے ذخائر ہیں لیکن گیلیم کا کوئی ذخیرہ نہیں ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ‘محکمہ دفاع گیلیم اور جرمینیم کے ساتھ ساتھ مائیکرو الیکٹرانکس اور خلائی سپلائی چین کے لیے اہم مواد کی کان کنی اور پروسیسنگ کو بڑھانے کے لیے تیزی سے اقدامات کر رہا ہے۔‘
پھر بھی خدشہ ہے کہ چینی برآمدات کی پابندیوں کا طویل مدت میں محدود اثر تو پڑے گا ہی۔
’یوریشیا گروپ‘ نے کہا کہ اگرچہ چین گیلیم اور جرمینیم کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے، لیکن کمپیوٹر چپس جیسی چیزوں کی تیاری میں اس مواد کے متبادل بھی موجود ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چین سے باہر کان کنی اور پروسیسنگ کی فعال سہولیات بھی موجود ہیں۔
کنسلٹنسی نے اسی سے ملتی جلتی چیز کو اجاگر کیا جب چین نے ایک دہائی قبل نایاب زمینی معدنیات کی برآمدات پر پابندی عائد کی تھی۔
یوریشیا کے تخمینوں کے مطابق اس کے بعد زیادہ برآمد کنندگان ممالک ابھرے اور ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں نایاب زمینی معدنیات کی سپلائی نظام پر چین کا غلبہ 98 فیصد سے کم ہو کر 63 فیصد رہ گیا۔
امریکہ چین کے امور کی یوریشیا کی ڈائریکٹر برائے چین کارپوریٹ امور اینا ایشٹن نے بی بی سی بتایا: ‘ہم امید کرتے ہیں کہ گیلیم اور جرمینیئم کے متبادل ذرائع کی ترقی اور استحصال کے ساتھ ساتھ ان اشیا کو دوبارہ استعمال کرنے اور آسانی سے دستیاب متبادل کی تلاش تیز ہو جائے۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’یہ صرف چین کی حال ہی میں اعلان کردہ برآمدی پابندیوں کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی مانگ، جغرافیائی تزویراتی مسابقت اور عدم اعتماد میں اضافے کے ساتھ چین کی درآمدات اور برآمدات کو سیاسی اور سٹریٹجک مقاصد کے لیے محدود کرنے کی دستاویزی رضامندی کا نتیجہ ہے۔‘
واشنگٹن نے اکتوبر میں اعلان کیا تھا کہ امریکی ٹولز یا سافٹ ویئر استعمال کرنے والی کمپنیوں کو چین کو چپس برآمد کرنے کے لیے لائسنس درکار ہوں گے، چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی بنے ہوں۔
چین واشنگٹن کی طرف سے عائد کردہ برآمدی کنٹرول کے جواب میں امریکہ پر ‘تیکنی بالادستی’ کا الزام لگاتا رہا ہے۔
حالیہ مہینوں میں بیجنگ نے بھی امریکی فوج سے منسلک ایرو اسپیس کمپنی لاک ہیڈ مارٹن جیسی امریکی کمپنیون پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں۔
دریں اثنا مغربی حکومتوں نے چین کے متعلق ’ڈی رسک‘ کی ضرورت پر زور دیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ خام مال اور تیار شدہ مصنوعات دونوں معاملوں میں چین پر کم انحصار کرنا ہے۔
تاہم سپلائی چینز کو متنوع بنانے اور کان کنی کی صلاحیت کو بڑھانے اور اس سب سے اہم بات یہ ہے کہ گیلیم اور جرمینیم جیسی دھاتوں کو پراسیس کرنے میں برسوں لگیں گے۔
مستقبل بعید میں آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے معدنیات سے مالا مال ممالک ان مواد کے بحران کو ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ وسائل اور تکنیکی صلاحیتوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا، جیسا کہ امریکہ اور چین دونوں نے کیا ہے، ان کے ماحولیات کے معاملے میں عالمی نتائج بھی مرتب ہوں گے۔
ان کی اہمیت اس لیے بھی ہے نئی ماحول دوست ٹیکنالوجیز اس قسم کے مواد پر انحصار کرتی ہیں۔
ڈاکٹر ہارپر نے کہا: ’یہ کوئی قومی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا ہمیں نسل انسانی کے طور پر سامنا ہے۔ امید ہے کہ پالیسی ساز اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان اہم مواد تک محفوظ رسائی حاصل کریں گے جو توانائی کی منتقلی کے لیے واقعی ضروری ہیں اور ہم کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے اس کے گرد موجود چیلنجز سے نمٹنا شروع کر سکتے ہیں۔‘
ہرچند کہ تازہ ترین برآمدی کنٹرول کے اثرات صنعت یا صارفین کے لیے تباہ کن نہیں ہوں گے لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس بات پر توجہ دینا ضروری ہے کہ یہ رجحان کس طرف جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر ہارپر کا کہنا ہے کہ ‘گلی محلے کے مرد اور عورت گیلیم اور جرمینیم سے اپنے تعلق کو (براہ راست) نہیں بتا سکتے لیکن انھیں اس بات کی پروا ضرور ہوگی کہ ان کی کار کی قیمت کتنی ہے یا گرین ٹیکنالوجی میں جانا کتنا مہنگا ہو سکتا ہے۔
’بعض اوقات بہت سی خیالی دقیق پالیسیاں جو دور دراز کے علاقوں میں اپنائی جاتی ہیں وہ در حقیقت کسی ایسی چیز میں ظاہر ہوتی ہیں جس کا ان کی زندگیوں پر بڑا اثر پڑتا ہے۔‘