اہم خبریں

وہ ملک جہاں نوکری سے ’تنگ‘ نوجوان ’فل ٹائم اولاد‘ بننے کو ترجیح دے رہے ہیں

زیادہ کام کرنے اور تھکاوٹ کی وجہ سے جولی نے اپنی ملازمت چھوڑ دی۔ جولی بیجنگ میں بطور گیم ڈیویلپر کام کرتی تھیں لیکن اپریل سے وہ ’فل ٹائم بیٹی‘ کا کام کر رہی ہیں۔

 جولی اب اپنے والدین کے لیے برتن دھوتی ہیں، کھانا بناتی ہیں اور گھر کے دیگر کام کرتی ہیں۔

جولی کے والدین ان کے روزمرہ کے خرچے پورے کرتے ہیں لیکن جولی نے ان کی ماہانہ 280 ڈالر کی پیشکش قبول نہیں کی۔ ان کی موجودہ ترجیح 16 گھنٹے کی پچھلی نوکری سے وقفہ لینا ہے۔

وہ کہتی ہیں ’میں ایک چلتی ہوئی لاش تھی۔‘

سخت کام کے اوقات اور مایوس کن جاب مارکیٹ چینی نوجوانوں کو غیر معمولی فیصلے کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔

جولی ان نوجوانوں میں سے ہیں جو اپنے آپ کو ’فل ٹائم اولاد‘ کہتے ہیں۔ یہ اپنے گھر کے پر سکون ماحول کی طرف لوٹ رہے ہیں کیونکہ وہ اپنی مصروف ملازمت سے وقفہ لینا چاہتے ہیں یا انھیں ملازمت نہیں مل رہی۔

نوجوان چینی شہریوں کو بتایا گیا تھا کہ اگر وہ پڑھائی میں محنت کریں گے اور ڈگریاں حاصل کریں گے تو انھیں اس کا فائدہ ہو گا۔ اب یہ نوجوان شکست خوردہ اور پھنسا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔

چین میں 16 سے 24 سال کے عمر کے درمیان ہر پانچ میں سے ایک شخص بے روزگار ہیں۔

نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ پیر کو جاری کیے گئے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شرح بے روز گاری 21.3 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔

بہت سے نام نہاد ’فل ٹائم اولاد‘ نوجوانوں کا کہنا ہے کہ وہ گھر عارضی طور پر آئے ہیں۔ وہ اسے سکون کرنے اور بہتر ملازمت ڈھونڈنے کا وقت کہہ رہے ہیں لیکن یہ اتنا آسان نہیں۔

جولی نے آخری دو ہفتوں میں 40 ملازمتوں کے لیے اپلائی کیا لیکن انھیں صرف دو جگہوں سے انٹرویو کی کال آئی۔

وہ کہتی ہیں ’استعفیٰ دینے سے پہلے بھی نوکری ملنا مشکل تھا۔ نوکری چھوڑنے کے بعد یہ مزید مشکل ہو گیا۔‘

کام اور زندگی کے درمیان اعتدال نہ ہونا

یہ تھکاوٹ جو چینی نوجوانوں کو ’فل ٹائم اولاد‘ بننے پر مجبور کر رہی ہے، حیران کن نہیں۔ چین، کام اور زندگی کے درمیان اعتدال نہ رکھنے کی وجہ سے مشہور ہے۔

چین میں کام کرنے کے کلچر کو ’996‘ کہا جاتا ہے یعنی ہفتے کے چھ دن صبح کے 9 بجے سے لے کر رات 9 بجے کام کرنے کو معمول سمجھا جاتا ہے۔

چن دودو بھی ’فل ٹائم بیٹی‘ ہیں۔ وہ ریئل اسٹیٹ میں کام کرتی تھیں لیکن اس سال انھوں نے اپنی نوکری چھوڑ دی کیونکہ وہ کافی تھکاوٹ محسوس کر رہی تھیں اور انھیں یہ بھی محسوس ہو رہا تھا کہ ان کی قدر نہیں کی جا رہی تھی۔

جب وہ اپنے والدین کے گھر واپس آئیں تو چن کہتی ہیں کہ وہ ایک ریٹائرڈ شخص کی طرح زندگی گزار رہی تھیں لیکن اب ان پر بے چنی طاری ہونا شروع ہو گئی۔

وہ کہتی ہیں ان کو دوقسم کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔

’ایک کہہ رہی تھی کہ ’ایسی فرصت کم ہی ملتی ہے لہذا اس لمحے کا لطف لو۔ دوسری مجھے سوچنے پر مجبور کر رہی تھی کہ اب آگے کیا کرنا ہے۔‘

چن دودو اب اپنا کاروبار چلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں اگر وہ صورتحال زیادہ دیر تک چلتی تو وہ اپنے گھر والوں کے لیے واقعی ایک بوجھ بن جاتی۔

’لوگ تھک چکے ہیں اور نوکری چھوڑنا چاہ رہے ہیں‘

زیک زینگ نے حال ہی میں چین کی ٹیک کمپنی ٹینسینٹ کو چھوڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر روز کام کے اوقات کے بعد بھی انھیں کام سے متعلق تقریباً سات ہزار میسیجز کا جواب دینا ہوتا تھا۔

وہ ان میسیجز کو ’پوشیدہ اوور ٹائم‘ کہتے ہیں کیونکہ یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ جواب دیں گے لیکن اس کا معاوضہ نہیں ملتا تھا۔

کام کے تناؤ کی وجہ سے انھیں ’فولیکلٹس‘ ہو گیا (جلد کی ایسی بیماری جس میں جلد پر بالوں کی افزائش کے غدود سوج جاتے ہیں) جس کے بعد انھوں نے ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

زیک زینگ کو اس کے بعد بہتر نوکری مل گئی لیکن ان کا کہنا ہے ان کے ارد گرد لوگ اتنے خوش قسمت نہیں۔

بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ چین میں کمپنیاں 35 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو ملازمت دینے سے ہچکچاتی ہیں اور نوجوانوں کو ترجیح دیتی ہیں جو ان کے لیے ’کم مہنگے ہوتے ہیں۔‘

جو لوگ 30 سے 40 برس کے درمیان ہیں، انھیں گھر کی قسط دینی ہے یا اپنا خاندان شروع کرنے کا سوچ رہے ہیں، عمر کی بنیاد پر امتیازی سلوک اور ملازمت کے کم مواقع ان کے لیے دو دھاری تلوار کا کام کر رہے ہیں۔

یہ مایوسی یونیورسٹی کے طلبہ میں بھی پائی جاتی ہے۔ کچھ تو اپنی گریجوئیشن کو ملتوی کروانے کے لیے جان بوجھ کر امتحانات میں فیل ہو رہے ہیں۔

گذشتہ ہفتے چین کے سوشل میڈیا میں معمول کے برعکس گریجوئیشن تصاویر شیئر ہو رہی ہیں جس سے نئے گریجویٹس کی مایوسی نظر آتی ہے۔

کچھ تصویروں میں نوجوانوں کو اپنے گاؤن میں زمین پر لیٹا دیکھا جا سکتا ہے جبکہ کچھ میں نظر آ رہا ہے کہ وہ اپنی ڈگری ردی کی ٹوکری میں ڈالنے والے ہیں۔

چین میں یونیورسٹی میں جانا کسی زمانے میں امیر لوگوں کا کام تھا لیکن 2012 سے 2022 کے درمیان یونیورسٹی داخلوں میں 30 فیصد سے 50 فیصد کا اضافہ ہوا۔

نوجوانوں نے زیادہ مقابلے والی جاب مارکیٹ میں مواقع حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی کی ڈگری کو اہم ماننا شروع کر دیا لیکن اچھی نوکری کے امیدواروں کو گرتی ہوئی مارکیٹ نے مایوس کر دیا۔

توقع کی جا رہی ہے کہ نوجوانوں میں بے روزگاری مزید بدتر ہونے والی ہے کیوںکہ مارکٹ میں ایک کروڑ 16 لاکھ نئے گریجویٹس داخل ہونے والے ہیں۔

جونز لینگ لاسل میں گریٹر چائنا کے چیف اکانومسٹ بروس پینگ کا کہنا ہے کہ کورونا کے بعد چین کی توقع سے زیادہ سست معاشی بحالی اس بے روزگاری کی وجہ ہے۔

بروس پینگ کا یہ بھی کہنا ہے کمپنیاں کم تجربہ کار نئے گریجویٹس کو بھی رکھنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہی ہیں۔

انھوں نے مزید بتایا کہ نوجوانوں میں مقبول صنعتوں کے خلاف چین کی کارروائی نے بھی جاب مارکیٹ کا گلہ دبا دیا ہے۔

بڑی ٹیک کمپنیوں کے خلاف قواعد و ضوابط، ٹیوشن کی صنعت پر پابندیاں اور نجی تعلیم میں بیرون ملک سے آنے والی سرمایہ کاری پر مکمل پابندی کی وجہ سے ملازمتوں میں کمی آئی ہے۔

’سست روزگار‘

چین کی حکومت کو ان سب مسائل کا علم ہے لیکن انھوں نے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

مئی میں چینی صدر شی جن پنگ نے چاینی کمیونسٹ پارٹی کے اخبار میں نوجوانوں کو مشکلات برداشت کرنے کی ہدایت کی تھی۔

سرکاری نشریاتی ادارے نے بے روزگاری کی نئی تعریف متعارف کرائی ہے جیسے کے ’سست روزگار۔‘

سرکاری اخبار ایکانامک ڈیلی کے اداریے میں لکھا گیا کہ چین میں کچھ نوجوان یقیناً بے روزگار ہیں لیکن دیگر خود ہی روزگار ڈھونڈنے میں سست روی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

اس میں وہ لوگ شامل ہیں جن کو نوکری نہیں ملی، جو مزید تعلیم حاصل کرنا چاہ رہے ہیں، نئی صلاحیت سیکھ رہے ہیں۔

اداریے میں بتایا گیا کہ حالات جتنے بھی مشکل ہوں نوجوانوں کو محنت کرنا ہو گی،’اگر وہ یہ کرتے ہیں تو انھیں بے روزگاری سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘