اہم خبریں

ورلڈ جونیئر سکواش چیمپیئن حمزہ خان: ’برتری ملی تو خیال آیا کہ اب جیت گیا ہوں، لیکن اسے سر پر سوار نہیں کیا‘

آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں کھیلے جانے والے ورلڈ جونیئر سکواش چیمپیئن شپ کے فائنل میں حمزہ خان نے مصر کے محمد زکریا کو شکست دے کر 37 برس بعد یہ ٹرافی پاکستان کو جتوا دی ہے۔

حمزہ خان نے پہلے سیٹ میں شکست کے بعد میچ میں بہترین واپسی کرتے ہوئے محمد زکریا کو تین ایک سے شکست دی۔ اس دوران کمنٹیٹر حمزہ خان کے ٹیلنٹ کو سراہتے رہے اور ان کی جیت پر ایک کمنٹیٹر نے کہا کہ ’حمزہ خان شو میں خوش آمدید۔۔۔ آج پاکستانی سکواش کی واپسی ہوئی ہے۔‘

اس سے قبل، سنہ 1986 میں آخری بار جان شیر خان پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے جونیئر سکواش چیمپیئن بنے تھے۔ اسی سال انھوں نے آسٹریلیا کے کریس ڈٹمر اور پاکستان کے جہانگیر خان کو شکست دے کر سینیئر ورلڈ اوپن بھی جیتا تھا۔

حمزہ خان نے اس تاریخی فتح کے بعد بی بی سی اردو سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب میں 7-3 کی برتری میں تھا تو دل میں بار بار خیال آ رہا تھا کہ میں جیت گیا ہوں لیکن میں نے اس بات کو سر پر سوار نہیں کیا اور اپنا مکمل فوکس کھیل پر رکھا۔‘

حمزہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے اس جیت کے لیے رات کو تین، تین بجے اٹھ کر ٹریننگ کی ہے اور اس کے لیے میرے بابا نے میرا بھرپور ساتھ دیا اور سردی ہو یا گرمی مجھے ٹریننگ کروائی۔

’میں جب رات کوتین بجے اٹھ کر دوڑنے جاتا اور ٹریننگ کرتا تھا تو مجھے بابا مجھے ملک شیک کا گلاس بنا کے دیتے تھے۔ پھر دو گھنٹے فزیکل ٹریننگ کرتا تھا پھر ایک گھنٹہ آرام کے بعد پریکٹس کے لیے جاتا تھا۔ چھ گھنٹے میں سکواش کورٹ میں ہوتا تھا۔‘

خیال رہے کہ پاکستان 15 سال بعد سکواش کے کھیل میں کسی عالمی ٹرافی کے فائنل میں پہنچا تھا، اس سے قبل سنہ 2008 میں عامر اطلس خان نے ورلڈ جونیئر چیمپیئن شپ کا فائنل کھیلا تھا جس میں انھیں شکست ہوئی تھی۔

حمزہ نے بتایا کہ ’میری والدہ ہر نماز میں میری جیت کی دعا کر رہی تھیں اور یہی حال میرے بابا کا تھا جنھوں نے ہر لمحہ میرا حوصلہ بڑھایا۔

’مجھے بہت خوشی ہے کہ پاکستان کے لیے 37 سال بعد یہ اعزاز جیتا اور ریکارڈ توڑا۔‘

’میرے پاس ٹورنامنٹ میں آنے کے لیے ٹکٹ کے پیسے تک نہیں ہوتے‘

حمزہ نے اپنے آئندہ کے عزائم کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ابھی تو جونیئر کا چیمپیئن بنا ہوں اور اب سینیئر چیمپین شپ جیتنا چاہتا ہوں، مگر مجھے اس کے لیے سپورٹ کی ضرورت ہے۔

حمزہ بتاتے ہیں کہ ’یہ خواب میرے دادا اور نانا کا تھا کہ میں پہلے جونیئر چیمپیئن بنوں اور پھر سینیئر، ان میں سے ایک خواب آج پورا ہوا اور دوسرے کی تکمیل کے لیے اب میں بھرپور محنت کروں گا۔‘

حمزہ کے والد نیاز اللہ خان سول ایوی ایشن اتھارٹی میں بطور ایئر ٹریفک کنٹرول سپرانٹینڈینٹ کام کرتے ہیں۔ اپنے بیٹے کا فائنل میچ انھوں نے اپنے گھر سے دور علاقے چراٹ میں دیکھا جہاں وہ ان دنوں تعینات ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حمزہ کی جیت پر میں خوشی سے رو رہا تھا اور میری ہچکیاں بندھ گئیں۔ میں زمین پر سجدہ شکر میں گر گیا۔

’میں نے حمزہ کی والدہ سے بات کی تو وہ بھی خوشی سے روئے جا رہی تھیں اور زبان سے صرف شکر کے کلمات ادا ہو رہے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’حمزہ سے فون پر بات ہوئی تو میں نے اس کو کہا کہ میرے لیے فخر کی بات ہے کہ تم نے پاکستان کا جھنڈا پوری دنیا میں اونچا کیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’حمزہ کی آواز بیٹھی ہوئی تھی اور وہ جذبات پر قابو نہ پا کر رو رہے تھے لیکن میں نے اس کو تسلی دی کہ اب آگے تمھیں ورلڈ سینیئر چیمپیئن بننا ہے اس کے لیے تیاری کرو۔‘

خیال رہے کہ اس میچ سے قبل حمزہ خان نے 81 منٹ تک جاری رہنے والے سیمی فائنل میں فرانسیسی کھلاڑی میلول سیانیمینیکو کو شکست دے کر فائنل میں جگہ بنائی تھی۔

حمزہ کی ابتدائی دو صفر کی برتری کے بعد ملوان نے میچ میں واپسی کی اور مقابلہ دو دو سے برابر ہوا۔ تاہم پاکستانی سکواش کھلاڑی جم کر کھیلے اور بالآخر تین دو سے فاتح قرار پائے۔

پاکستان سکواش فیڈریشن کے سیکریٹری ظفریاب اقبال نے حمزہ کی فتح پر ردِ عمل دیتے ہوئے بتایا کہ اس بار ہم نے اپنی پرفارمنس پر بہت فوکس کیا۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بجائے اس کے کہ ہم بہت سارے لڑکے کھیلنے بھیجتے ہم نے اس بار صرف ایک کھلاڑی حمزہ خان کو کھیلنے بھیجا۔

’جہاں انڈیا اپنے آٹھ کھلاڑیوں اور مصر اپنے 14 کھلاڑیوں کے ساتھ شرکت کر رہا تھا ہم نے اپنا ایک کھلاڑی بھیجا۔ اس کا سارا کریڈٹ پاکستان سکواش فیڈریشن کے صدر کو جاتا ہے کہ انھی کی یہ پلاننگ تھی کہ ہم نے اس چیمپیئن شپ میں کس حکمت عملی سے شریک ہونا ہے۔‘

’آج حمزہ کے دادا کا ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ہر شخص کا خواب پورا ہوا ہے‘

ظفریاب اقبال نے حمزہ کے بارے میں بتایا کہ ’بچپن سے ہی وہ اپنے گھر کی دیواروں کے ساتھ پریکٹس کرتا تھا۔ سکواش بہت مہنگا کھیل ہے جس کے لیے کورٹ، سکواش کی گیند، ریکٹ اور شوز چاہیے ہوتے ہیں۔ تاہم ان کے والدین نے بچپن سے ہی ان کی حوصلہ افزائی کی۔‘

ظفریاب اقبال کا کہنا تھا کہ ’ہم حمزہ حان کے والدین کے شکر گزار ہیں اور اس جیت میں ان کے والدین کی بھی محنت شامل ہے۔

’حمزہ کے ابتدائی کوچ ان کے والد نیاز تھے۔ دور دراز پوسٹنگ ہونے کے باوجود انھوں نے اپنے بچے پر فوکس رکھا۔‘

’اس سارے عرصے میں حمزہ کی والدہ ان کی ایک طرح سے مینٹور رہی ہیں اور اسی طرح تمام کوچز کی محنت بھی اس جیت میں شامل ہے۔‘

حمزہ کی والدہ کی خواہش تھی کہ بیٹا پڑھ لکھ کر چیمپیئن بنے اور اس کے لیے ابھی حمزہ نے میٹرک کے پریکٹیکلز دیے ہیں۔

’حمزہ کے دادا نے اپنی وفات سے پہلے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ میں تمھیں ورلڈ چیمپیئن دیکھنا چاہتا ہوں اور آج ان کے دادا کی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے تمام نوجوانوں اور پاکستان کے ہر باشندے کا خواب پورا ہوا ہے۔‘

ظفریاب اقبال کے مطابق ’سنہ 1986 میں جان شیر خان نے چیمپیئن شپ جیتی تھی جس کے بعد آج ہم جیتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پی آئی اے سمیت مختلف ڈپارٹمنٹ سپورٹ کرتے تھے۔ آج کے میچ میں پوری دنیا سے 128 کھلاڑیوں نے حصہ لیا تھا جن سب کو ہرا کر اس نے پاکستان کا پرچم بلند کیا۔‘

’مستقبل کا ہدف ورلڈ چیمپیئن بننا ہے‘

کئی سال سے حمزہ اس پختہ ارادے سے سکواش کھیل رہے ہیں کہ انھوں نے پاکستان کو دوبارہ عالمی چیمپیئن بنانا ہے۔

انھوں نے قریب دو سال قبل ہی اپنے اس ارادے کا اظہار کر دیا تھا کہ وہ پاکستان کو ایک بار پھر سکواش کا عالمی چیمپیئن بنائیں گے۔

انھوں نے امریکی شہر فلاڈیلفیا میں 2021 کے دوران یو ایس جونیئر اوپن جیتا تھا۔ حمزہ خان کے مطابق یہ مقابلہ کھیلنے کے لیے انھیں ان کے والد نے ٹکٹ خرید کر دیا تھا جو کہ سول ایوی ایشن میں ملازمت کرتے ہیں۔

فروری 2023 کے دوران نور زمان اور حمزہ خان نے چنائی میں پاکستان کو انڈیا کے خلاف ایشین جونیئر سکواش چیمپیئن شپ 2023 میں فتح دلائی تھی۔

اس موقع پر انھوں نے کہا تھا کہ ’ہم پر دباؤ تھا، یہ ان (انڈیا) کا ہوم گراؤنڈ تھا اور ریفری بھی انھی کا تھا۔ لیکن ہم نے اس دباؤ کو سر پر سوار نہیں کیا بلکہ سکواش کی طرف توجہ رکھی اور فائنل جیت گئے۔‘

حمزہ خان نے بتایا تھا کہ انھیں امریکہ میں بہتر ٹریننگ مل رہی تھی۔ ’میں نے (وہیں رہنے کے لیے) فیڈریشن سے کئی بار درخواست کی مگر وہ نہیں مانے۔‘

انھوں نے کہا کہ امریکہ میں ریکٹ اور جوتوں کی فکر نہیں ہوتی مگر پاکستان میں ’ریکٹ مانگنے کے لیے تین جگہ دستخط کرنے پڑتے ہیں۔‘

وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’ادھر میرا دل تنگ ہوگیا تھا کیونکہ یہاں سپورٹ نہیں ملتی تھی۔‘ ایک موقع ایسا بھی آیا تھا کہ مستقبل بنیادوں پر بیرون ملک منتقل ہونے کا سوچ رہے تھے۔

’مجھے کافی جگہوں سے پیشکش ہوئی کہ یہاں سے کھیلیں مگر بابا نے کہا آپ پاکستان کے کھلاڑی ہو اور پاکستان میں کھیلو گے۔‘

عالمی اعزازات ملنے کے بعد بھی انھیں پاکستان میں ’کہیں سے کوئی انعام نہیں ملا۔‘