اہم خبریں

وائلنٹ ایکسٹریمزم بل 2023: انتہا پسندی کی روک تھام سے متعلق قوانین کی موجودگی میں نئے بل کا مقصد کیا تھا؟

پاکستان میں ہر رخصت ہونے والی حکومت اپنے آخری دنوں میں آئے روز نئے قوانین بناتی ہے، بل پاس کرواتی ہے اور جانے سے پہلے ماضی کے کئی قوانین کو ختم یا تبدیل بھی کر دیتی ہے۔

موجودہ حکومتی اتحاد نے بھی یہی روش برقرار رکھی ہے تاہم گذشتہ چند دنوں کے مقابلے میں اتوار کا دن کچھ مختلف رہا۔

سینیٹ میں انتہا پسندی کی روک تھام کے حوالے سے ’وائلنٹ ایکسٹریمزم بل 2023‘ پیش کیا گیا، جسے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے اراکین کی مخالفت کے بعد ’ڈراپ‘ کر دیا۔

اس سے پہلے سینیٹ اجلاس میں اس بل پر بحث ہوئی اور مختلف سیاسی جماعتوں جن میں خود اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کے اراکین نے بھی اس بل کی مخالفت کی۔

پہلے سمجھ لیتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے پیش کردہ انتہا پسندی کی روک تھام کا یہ بل ہے کیا اور کیا یہ ماضی میں دہشت گردی اور انتہاپسندی میں ملوث اداروں اور افراد اور ان کی معاونت کرنے والوں کے خلاف بنائے گئے قوانین سے مختلف ہے؟

’وائلنٹ ایکسٹریمزم بل 2023‘ کیا ہے؟

یہ بل پرتشدد انتہا پسندی سے متعلق پاکستان کی پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے بنایا گیا مگر اس پر کسی بھی ایوان یا کمیٹی میں بحث نہیں ہوئی۔ اس بل کے متن کا جائزہ لیا جائے تو بیشتر شقیں وہی ہیں جو اس سے قبل ملک میں بنے کئی قوانین، ایکٹس اور بلز کا حصہ رہی ہیں۔

اس سے قبل پاکستان میں نیکٹا ایکٹ، انسداد دہشت گردی ایکٹ، فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ، بینکنگ کمپنیز ایکٹ، اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ وغیرہ جیسے متعدد قوانین پہلے سے لاگو ہیں جو ان ہی تمام معاملات کو دیکھتے ہیں جن کا ذکر اس نئے بل میں کیا گیا۔

پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام سے متعلق اس مجوزہ بل کے مطابق ’پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث تنظیم کو 50 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا جبکہ تنظیم تحلیل کر دی جائے گی۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والی تنظیم کو 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔‘

مجوزہ بل کے مطابق ’جرم ثابت ہونے پر فرد یا تنظیم کی جائیداد اور اثاثے ضبط کر لیے جائیں گے، مجوزہ بل کے مطابق تشدد کی معاونت یا سازش یا اکسانے والے شخص کو بھی 10 سال تک قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔‘

بل کے تحت ’جرم کرنے والے شخص کو پناہ دینے والے کو بھی قید اور جرمانہ ہو گا۔‘

واضح رہے کہ مجوزہ بل کے متن میں کہا گیا تھا کہ ’پرتشدد تنظیم کے لیڈر، عہدیدارن اور ممبران کا اسلحہ لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا جبکہ حکومت کو معلومات یا معاونت دینے والے شخص کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔‘

اس کی زد میں آنے والے افراد اور تنظیمیں یا ادارے انتخابات میں بھی حصہ نہیں لے سکیں گے۔

مجوزہ بل میں کہا گیا کہ ’لسٹ میں شامل شخص یا تنظیم کے لیڈر اور ممبران کو گرفتار کر کے 90 روز تک حراست میں رکھا جاسکے گا تاہم متاثرہ شخص کو ہائیکورٹ میں اپیل کا حق ہو گا۔‘

مجوزہ بل کے مطابق ’پرتشدد تنظیم کے اثاثے، پراپرٹی اور بینک اکاونٹ منجمد کر دیے جائیں گے۔‘

بل کے مطابق کوئی مالیاتی ادارہ پرتشدد تنظیم کے لیڈر، ممبر یا عہدیدار کو مالی معاونت نہیں دے گا۔

اس مجوزہ قانون میں مختلف کیا ہے؟

پرتشدد انتہاپسندی بل 2023 کے مندرجات سامنے آنے کے بعد سیاسی و سماجی حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ اسے پاکستان کی پارلیمنٹ سے منظور کروانے کا مقصد ایک سیاسی جماعت (پاکستان تحریک انصاف)کو نشانہ بنانا ہے۔

اس تاثر کی وجہ اس بل کے متن میں شامل وہ الفاظ ہیں جو دیگر قوانین میں موجود نہیں۔ مثلاً پرتشدد انتہاپسندی کی تعریف کرتے ہوئے لفظ ’پولیٹیکل‘ استعمال کیا گیا۔

مجوزہ بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ ’پرتشدد انتہا پسندی کا مطلب ہے کہ کوئی بھی فرد یا تنظیم کسی نظریاتی عقیدے کے حل کے لیے، یا کوئی بھی سیاسی، فرقہ وارانہ، سماجی، نسلی اور مذہبی مسئلے کے لیے طاقت کا استعمال کرتا ہے، تشدد کو ہوا دیتا ہے یا ایسے کسی بھی فعل کا ارتکاب کرتا ہے یا کسی ایسے (شخص یا تنظیم ) کی حمایت، حوصلہ افزائی کرتا ہے، یا اسے فروغ دیتا، اکساتا، بھڑکاتا، وکالت کرتا یا جواز پیش کرتا ہے، تو اس کی قانون کے تحت اجازت نہیں۔‘

اس بل کے مطابق ایسی تنظیم یا فرد کو جن کے بارے میں ’پرتشدد انتہا پسندی‘ میں ملوث ہونے کی معلومات ہوں، لسٹ ون اور لسٹ ٹو میں شامل کر دیا جائے گا۔

اس بل میں آگے جا کر پتا چلتا ہے کہ ان دونوں لسٹس میں شامل ہونے کے نتیجے میں ایسی ’تنظیم یا فرد کسی بھی سطح پر انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہوں گے۔‘

سینیٹ میں اراکین کی بل پر سخت تنقید

سینیٹ میں بل پیش ہوا تو اس پر پاکستان تحریک انصاف اور جے یو آئی سمیت حکومت کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے بھی مخالفت سامنے آئی۔ اس تنقید کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے مجوزہ بل کو ’ڈراپ‘ کر دیا۔

مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام سے متعلق اس بل کی سینیٹ سے فوری منظوری کی مخالفت کی اور اس کے تفصیلی جائزے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس بل کا اس حالت میں پاس ہونا ایک شکنجہ ہے جو ہمارے گلے پڑے گا۔‘

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ ’منٹوں میں بلز منظور کرنے کی بجائے بہتر نہیں ہو گا کہ یہ کمیٹیوں میں بھیجا جائے تاکہ اس پر بحث ہو سکے‘ جبکہ سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ ’اس بل کا مقصد صرف پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس بل کے بہت دور رس نتائج ہیں، اگر اسی طرح کرنا ہے تو مارشل لا لگا دیں۔‘

ایوان بالا میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ’اتحادی پارٹیوں کو اعتماد میں ضرور لینا چاہیے یہ بل آگے جا کر کل کو ہمارے لیے مصیبت بنے گا۔‘

اسی طرح پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ عجلت میں قانون سازی کسی کے لیے بھی بہتر نہیں۔

کیا واقعی اس بل کا مقصد ایک سیاسی جماعت پر پابندی لگانا ہے؟

بی بی سی نے اسی بارے میں سابق سینیٹر افراسیاب خٹک سے بات کی۔ انھوں نے حالیہ چند دنوں میں عجلت میں بلز منظور کرانے کو ’غیر جمہوری، غیر آئینی اور افسوسناک‘ قرار دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں انتہاپسندی اور دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے مزید قوانین کی نہیں بلکہ ’ریاستی پالیسی میں تبدیلی‘ کی ضرورت ہے

’میرا خیال ہے کہ جب تک طالبان پراجیکٹ جاری رہے گا، اچھے طالبان اور برے طالبان کا نام چلتا رہے گا، تو کوئی بھی قانون لے آئیں، ملک سے دہشتگردی اور انتہاپسندی ختم نہیں ہو گی۔ جس طرح پہلے سخت قوانین بنا کر سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہوئے تو اب کی بار کیا ضمانت ہے کہ یہ نیا قانون (اگر بنتا ہے) تو یہ سیاسی مخالفین یا مخالف نظریہ رکھنے والوں کے خلاف استعمال نہیں ہوگا؟‘

وہ ماضی میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) اور بلوچ نوجوانوں کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں دہشتگردوں کے خلاف بننے والے قوانین مختلف نظریات رکھنے والے شہریوں کے خلاف استعمال ہوئے۔

اس سوال پر کہ نئے بلز اور قانون سازی تو سیاسی جماعتوں کا اتحاد اور سیاستدان کر رہے ہیں، کوئی ریاستی ادارہ نہیں کر رہا؟ افراسیاب خٹک نے کہا کہ ’یہ حکومت ویسی ہی ہے جیسی ایوب خان کی نام نہاد سول حکومت تھی۔ اس حکومت نے اسٹیبلشمنٹ اور فوج کی سیاسی اور اقتصادی ایمپائر کو قانونی شکل دے دی ہے، جیسا کہ ہم نے اس ہفتے پاس ہونے والی ترامیم اور بلز میں دیکھا۔ جب قانون سازی کی جاتی ہے تو آئین کے فریم ورک کو مدنظر رکھا جاتا ہے لیکن اگر آپ کے قوانین آئین سے متصادم ہوں تو ان کی قانونی حیثیت کے بارے میں سوال اٹھے گا۔‘

افراسیاب خٹک ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو ان متنازع قانون سازی کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ’جن حلقوں سے ایسی قانون سازی کی فرمائش آتی ہے، یہ ان کی پبلک ریلیشنگ کا ایک ذریعہ ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد تو نہیں ہوا مگر ان حلقوں کی خوب واہ واہ ہوئی۔‘

اسی بارے میں بات کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار عامر رانا کہتے ہیں کہ اس بل کا رد کیا جانا ایک درست عمل تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس قسم کے قوانین عام طور پر سیاسی مخالفین کے خلاف ہی استعمال ہوتے ہیں۔ مثلا 1997 کا انسداد دہشتگردی ایکٹ کہنے کو تو میاں نواز شریف نے ہی بنایا تھا مگر یہی ایکٹ خود ان ہی کے خلاف استعمال بھی ہوا۔ پیپلز پارٹی نے بھی بہت سی قانون سازی کی جس کا ایک مقصد ایم کیو ایم سے نمٹنا تھا مگر وہی قوانین بعد میں خود پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال ہوئے۔‘

عامر رانا کا کہنا تھا کہ ’دوسری طرف جو انتہا پسند یا دہشتگرد عناصر ہیں، وہ تو آزاد پھر رہے ہیں۔ ان افراد پر کوئی قدغن نہیں۔ الیکشن کمیشن ہو یا نیکٹا اور وزارت داخلہ، یہ تمام ادارے ان افراد اور تنظیموں سے پابندیاں ختم کر دیتے ہیں۔ اب بھی کئی ایسی تنظیمیں ہیں جو نام بدل کر سامنے آگئی ہیں اور خاصی سرگرم بھی ہیں۔‘

عامر رانا بھی افراسیاب خٹک اور سینیٹ میں بولنے والے کئی اراکین سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نئے قوانین کی بجائے پہلے سے بنے قوانین پر من و عن اور بغیر کسی تفریق کے عملدرآمد کی ضرورت ہے۔

عامر رانا کے مطابق ’کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں تھی۔ تمام قوانین پہلے سے موجود ہیں، ان پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ انتہاپسندی ایک پیچیدہ معاملہ ہے مگر یہ بات بالکل واضح ہے کہ ’اتوار کو پیش کیا جانے والا بل انتہاپسندی کی آڑ میں سیاسی جماعت کو نشانہ بنانے کی ایک کوشش تھی۔‘

تاہم وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت یا ’جن حلقوں نے سیاسی افراد یا جماعت کو نشانہ بنانا ہے تو ان کے پاس اس بل کے علاوہ بہت سے طریقے ہیں۔‘

گذشتہ پانچ برس میں کتنی قانونی سازی کی گئی

ماضی میں بھی حکومتیں ایک ہی سیشن حتی کہ ایک ہی دن میں متعدد قوانین تیزی سے منظور کرتی رہی ہیں۔ مثلا 2021 میں اس وقت کی حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے ایک ہی دن قومی اسمبلی سے اکیس بلز منظور کرا لیے۔

اس وقت کی بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ نواز نے ایوان کے اندر اور باہر خاصا ہنگامہ مچایا اور اپوزیشن نے اس وقت کے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان بھی کیا تھا۔

اسی طرح قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اعداد و شمار دیکھیں تو رواں ماہ یعنی جولائی میں حکومتی اتحاد نے مجلس شوری یعنی پارلیمان سے کل چار بل منظور کرائے، اس سے قبل صرف پندرہ مئی کو ہی آٹھ بل منظور ہوئے تھے۔

قومی اسمبلی سے اسی مدت کے دوران چار بلز جبکہ متعدد پرائیویٹ ممبرز بلز پاس ہوئے۔ صرف 27 جولائی کو ہی 31 بلز پاس ہوئے۔

سینیٹ سے اس مہینے میں دس بل پاس ہوئے ہیں جن میں پاکستان آرمی ایکٹ سے متعلق اہم ترمیم بھی شامل ہے۔ یہ تمام بلز نہایت عجلت میں پاس کیے گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان پر سوال بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔

قومی اسمبلی کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ پانچ سال کے دوران قومی اسمبلی سے کل 209 ، سینیٹ سے 164بلز پاس ہوئے جبکہ رواں برس قومی اسمبلی سے 53 اور مشترکہ پارلیمان سے 23 بلز پاس ہوئے ہیں۔

حکومت اتنی عجلت میں قانون سازی کیوں کرتی ہیں؟

تجزیہ کار عامر رانا کے مطابق ماضی میں بھی کئی حکومتیں اپنی مدت پوری ہونے کے اخری ایام میں تیزی سے قانون سازی کرتی ہیں جن میں انتہائی حساس اور بحث طلب قوانین شامل ہوتے ہیں۔

’یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ آخری تین چار ماہ میں ہر حکومت ہی بہت تیزی کے ساتھ قانون سازی شروع کر دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وقت کم ہوتا ہے، بحث ہو نہیں پاتی اور حکومتی جماعت اپنے اتحادیوں کو ساتھ ملا کر نہایت تیزی سے خاصے متنازع قوانین پاس کر دیتی ہے۔‘

’ہماری اسٹیبلشمنٹ سے متعلق قانون سازی عام طور پر ان ہی دنوں میں ہوتی ہے، اسی طرح فنانس وغیرہ سے متعلق ٹیکنیکل قانون سازی بھی اکثر ایسے ہی ہوتی ہے اور اگر دیکھا جائے تو دہشتگردی سے متعلق قوانین بھی اسی طرح تیزی سے منظور کر لیے جاتے ہیں۔ حساس موضوعات پر قوانین پر بحث روکنے کے لیے یہ بلز عام طور پر حکومت کے خاتمے سے چند دن پہلے پیش کیے جاتے ہیں۔‘

اس سے قبل 27 جولائی کو بھی جب آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل سمیت متعدد اہم بل سینیٹ کے سامنے منظوری کے لیے پیش کیے گئے تو ان تمام بلوں کی ’عجلت میں منظوری‘ کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے اعتراضات عائد کیے۔

انھوں نے ایوان سے واک آؤٹ کیا تاہم اس موقع پر ان کی جماعت کے دیگر سینیٹرز اپنی سیٹوں پر براجمان رہے۔

’عجلت میں قانون سازی کنٹرولڈ جمہوریت ہے‘

افراسیاب خٹک اس معاملے پر سخت رائے رکھتے ہوئے حالیہ چند دنوں میں انتہائی عجلت میں کی گئی قانون سازی کو ’کنٹرولڈ جمہوریت‘ کا نام دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جلدبازی اور پارلیمان کا یوں استعمال ہونا کنٹرولڈ جمہوریت کی بدترین شکل ہے۔ پاکستان میں جمہوریت اور آئین کے حامیوں کو گذشتہ ایک دو ہفتوں کی قانون سازی اور اس کے لیے اختیار کیے طریقے پر تشویش ہونی چاہیے۔ یہ ملک میں سیاسی جماعتوں کے خلاف ایک آلہ اور ملک سے باہر بین الاقوامی طاقتوں کے سامنے اپنی پی آر کا ذریعہ ہے کہ ہم دہشتگردی اور انتہاپسندی کے خلاف بہت کام کر رہے ہیں۔‘

افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ ’یہ تشویشناک بات ہے کہ اس سویلین حکومت کو الیکشن سے چند ہفتے قبل اس قسم کی جلد بازی میں اتنے متنازعہ قوانین پاس کرانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ سوال سوسائٹی اور عدلیہ دونوں کو ہی کرنا چاہیے۔‘