اہم خبریں

وائرل مواد کی تلاش اور ریپڈ فائر راؤنڈ: ’بغیر سوچے جواب دیا اور بات غلط طریقے سے وائرل ہو گئی‘

انٹرنیٹ کی دنیا میں اب کسی کو اندازہ نہیں کہ کیا چیز دیکھنے والوں کو بھا جائے گی اور وائرل ہو جائے گی۔ لیکن ٹی وی پر انٹرٹینمنٹ شوز کے منتظمین کو شاید کچھ اندازہ ہے کہ طنز و مزاح اور معنی خیز ’ریپڈ فائرز‘ وہ فارمولا ہے جس سے پروگرام کی ریٹنگ اور ویوز کی ضمانت مل سکتی ہے۔

اس کی ایک حالیہ مثال ماڈل نتاشا حُیسن کا وہ کلپ ہے جس میں انھوں نے ایک پروگرام کے ریپڈ فائر راؤنڈ کے دوران اداکار شہروز سبزواری کے بارے میں کہا کہ ’وہ اُنھیں اداکار نہیں سمجھتیں، البتہ اُن کے والد ایک عظیم اداکار ہیں۔‘

پروگرام کے دوران نتاشا حُسین سے سوال کیا گیا تھا کہ وہ ایسے اداکار کا نام لیں جن کے بارے میں اُن کا خیال ہے کہ وہ اقربا پروری کی وجہ سے انڈسٹری میں ہیں؟

شو کے دوران نتاشا کی جانب سے دیے گئے جواب کا یہ کلپ وائرل ہوا اور انڈسٹری سے اِس کی مذمت کی گئی اور بالآخر نتاشا نے انسٹا گرام پر شہروز سبزواری سے معذرت کی اور اس ضمن میں ایک بیان جاری کیا۔

نتاشا کا بیان کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی قریب میں کئی مشہور شخصیات ان ہی ریپڈ فائر راؤنڈز میں انڈسٹری کے دیگر فنکاروں کے بارے میں ایسے بیانات دے چکے ہیں، جس کی وجہ سے یہ ریپڈ فائر راؤنڈز زیرِ بحث ہیں۔

اس شعبے کے ماہرین کا خیال ہے اس سے فنکاروں کے درمیان ایک دوسرے کےلیے تلخیاں بڑھ رہی ہے۔

’بوکھلاہٹ اور نیچرل ہونا شائقین زیادہ پسند کرتے ہیں‘

ٹی وی شوز میں رکھے جانے والے ریپڈ فائر راونڈز پر یہ تنقید ہوتی ہے کہ یہ صرف وائرل ہو جانے والے مواد کے حصول کی غرض سے ترتیب دیے جاتے ہیں تاکہ شوز کی ریٹنگز آ سکیں۔

سپر ماڈل نتاشا حسین نے کہا کہ ’مہمان نے سوچے سمجھے بغیر جواب دینا ہے کیونکہ یہ ریپڈ فائر راؤنڈ ہے۔ جو بھی جواب منھ میں یا دل میں آتا ہے اُس وقت نکل جاتا ہے اور بعد میں یہ بات غلط طریقے سے وائرل ہو جاتی ہے۔‘

ڈان سے منسلک صحافی ملیحہ رحمان کہتی ہیں کہ ’ان میں کوئی سنجیدہ سوال تو ہوتا نہیں۔ یہ تو ایک آپشن والا تفریحی کھیل ہے۔ تو کبھی کبھی اس سے تنازع نکلے گا، کبھی اس سے خالی جواب نکلے گا لیکن عمومی طور پر ایسا مواد نکلے گا اور ممکنہ طور پر یہ وائرل ہو گا جو کہ توجہ حاصل کرے گا۔‘

یہی سوال جب ’اے ٹی وی‘ پر تفریحی پروگرام ’چاکلیٹ ٹائمز‘ کی میزبان عائشہ جہانزیب سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’یہ انٹرٹینمنٹ ہے اور جب آپ ایک بندے کو ریپڈ فائر میں سوال کرتے ہیں تو اُس کی بوکھلاہٹ، اُس کا نیچرل ہونا شائقین زیادہ پسند کرتے ہیں۔ نیوز اور میڈیا ایسے مواد کی تلاش میں ہوتا ہے جو وائرل ہو سکے، جو ایسا ہو کہ تیزی سے جنگل کی آگ کی طرح پھیل جائے۔‘

عائشہ نے مزید کہا کہ ’سیدھے سادھے پروگرامز، مارننگ شوز حتیٰ کہ مذہبی پروگرامز سے بھی وائرل ہو جانے والا مواد نکالا جا سکتا ہے۔ تو بنیادی طور پر اگر ہم منفی پہلو ڈھونڈنے نکلیں گے تو ہمیں مل ہی جائے گا۔ یہ سوچ کی بات ہے۔‘

’کچھ وقت کے لیے تلخی آ جاتی ہے‘

یکے بعد دیگرے شوبز سیلیبریٹیز کے وائرل ہونے والے ان بیانات اور وضاحتوں کے بعد ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی چھوٹی سی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں کام کرنے والے فنکاروں کے درمیان تلخیاں بڑھ جائیں گی اور اُن کی آپس میں دوستیاں ختم ہو جائیں گی۔

ملیحہ رحمان کے بقول ’ایک تلخی آ جاتی ہے۔ شاید مختصر وقت کے لیے آتی ہے۔ شاید بعد میں وضاحت ہو جاتی ہے اور سب ٹھیک ہو جاتا ہے لیکن کچھ وقت کے لیے تلخی آ جاتی ہے اور دوستیاں ختم بھی ہوتی ہوں گی۔‘

دوسری جانب نتاشا حسین کا خیال ہے کہ ’اِن بیانات سے انڈسٹری میں دوستیاں خراب نہیں ہوتیں، جلد یا بدیر لوگ آپس میں ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں۔‘

’مطلب بندوق کی نوک پر آپ نے مجھ سے سوال کیا اور جواب غلط نکل آیا یا تفریح کے انداز میں نکل آیا تو وہ کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے برابر ہے۔ دوستی خراب ہو یا نہ ہو لیکن بندے کے دل میں بات رہ جاتی ہے جو میں سمجھتی ہوں کہ بالکل غلط ہے۔‘

عائشہ جہانزیب کا کہنا ہے کہ فارمیٹ سب کو پتا ہے۔ ’میرے کیس میں، میں کہنا چاہوں گی کہ سب کو پتا ہے کہ سامنے مرچ پڑی ہے۔ یہ آپ کی چوائس ہے کہ آپ ایسا کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔‘

واضح رہے کہ حالیہ مہینوں میں عائشہ جہانزیب کے شو ’چاکلیٹ ٹائمز‘ میں سیلیبریٹیز کے کافی بیانات سامنے آ چکے ہیں جو وائرل ہوئے اور بعدازاں اُنھیں معذرتی بیان جاری کرنا پڑا۔

عائشہ کہتی ہیں کہ ’مجھے پتا ہے کہ سوشل میڈیا پر بہت باتیں ہو رہی ہیں کہ یہ ریپڈ فائر کیوں ہے؟ نہیں ہونا چاہیے، اس کو کینسل کلچر میں ڈالیں لیکن میرا بنیادی سوال ہے کہ اتنا گھبرانا کس بات کا۔ دیکھیں جو بات اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر، اپنے دوستوں میں بیٹھ کر کی جا سکتی ہے، اُنھیں کھل کے قبول کیوں نہیں کیا جا سکتا، اُس میں مسئلہ کیا ہے۔‘

’سیلیبریٹیز تھوڑے محتاط ہو جائیں‘

دنیا بھر کے ٹی وی شوز میں سیلیبریٹیز سے کیے جانے والے ریپڈ فائر راؤنڈز عام ہیں لیکن ملیحہ رحمان کا خیال ہے کہ پاکستانی ٹی وی شوز میں بھی ریپڈ فائر کا رجحان انڈیا کے مقبول شو ’کافی ود کرن‘ کے بعد آیا۔

نتاشا کہتی ہیں کہ ’پوری دنیا میں ٹیلی وژن ہے اور کام ہوتا ہے اور ایسے شوز بھی ہوتے ہیں لیکن میں نے ایسا کہیں نہیں دیکھا کہ ریپڈ فائر کے لبادے میں اس طرح اپنے کام کرنے والے ساتھیوں کے بارے میں آپ سے توہین آمیز سوال کیے جا رہے ہوں۔‘

سوال یہ بھی ہے کہ ریپڈ فائر سوالوں کے جواب دینے والے سلیبریٹرز کی ساکھ کتنی متاثر ہوتی ہے اور کیا ضروری ہے کہ شو میں شریک سلیبرٹی میزبان کے ہر سوال کا لازمی اور واضح انداز میں جواب دے۔

ملیحہ رحمان کے خیال میں ’یہ سلیبریٹی پر منحصر ہوتا ہے۔ مستقل یا ہر دوسرے مہینے ایسا ہو تو ظاہر ہے اُس کے بارے میں عوام اور حتی کے انڈسٹری کی رائے ہو گی کہ وہ سنجیدہ نہیں۔‘

’اُس کی ساکھ متاثر ہو گی اور اُنھیں سنجیدہ اداکار یا اداکارہ نہیں سمجھا جائے گا لیکن ضروری نہیں کہ نقصان ہی ہو اگر اُن کا کام اچھا ہے تو پھر بھی وہ اِن ڈیمانڈ رہیں گے۔ اُن کی بات ہو گی اُن کے حق میں بات ہو گی۔‘

انڈین شو ’کافی ود کرن‘ میں دیکھا گیا کہ کچھ سلیبریٹیز نے گفٹ ہیمپر کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایسے سوالات کو پاس کر کے نظر انداز کر دیا جن سے اُن کے تشخص پر فرق پڑے یا انڈسٹری میں ان کی دوستیاں متاثر ہونے کا خطرہ ہو۔

کیا کوئی طریقہ ہے جس سے ریپڈ فائر شو کا حصہ بھی رہیں اور فنکار ایک دوسرے کو اپنے جوابات سے تکلیف بھی نہ پہنچائیں؟

ملیحہ رحمان کہتی ہیں کہ ’یہ شو کا بہت ہی دلچسپ حصہ ہوتے ہیں اسی لیے آپ اپنے ریپڈ فائر کے سوالات کو تھوڑا اور ذہانت سے تیار کر لیں اور سلیبریٹی کو بھی انھیں ذہانت سے ڈیل کرنا چاہیے۔ میں نے بعض بہت ذہین سلیبریٹیز کو دیکھا ہے جو بڑا اچھا ڈیل کرتے ہیں۔‘

’ظاہر ہے انسان ہیں کبھی کبھی غلطی ہو جاتی ہے اور وہ ایسا نام لے لیں گے کہ تنازع ہو جائے گا لیکن بہت بار بات ادھر ادھر کی جا سکتی ہے، مذاق ہو سکتا ہے، پاس کہا جا سکتا ہے، کوئی حرج نہیں پاس کہنے میں۔‘

نتاشا نے بھی ریپڈ فائر راؤنڈز کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ صرف اپنی ریٹنگز کو بڑھانے کےلیے ایسے سوالات نہ کریں جن کا اچانک جواب غلط نکل آتا ہے۔

’اسے سو فیصد شو کا حصہ بنائیں لیکن کوشش کریں کہ سوال اس طرح سے نہ ہوں جس میں ذاتی حملے بن کر لوگوں تک آئے۔ اگر یہ سیگمنٹ رکھنا ہے تو یہ ایک تفریحی سیگمنٹ ہونا چاہیے۔۔۔ سوالات ایسے ہوں کہ کسی کے بھی احساسات محروج نہ ہوں۔‘