اہم خبریں

نیپرا کی بجلی کی قیمت میں اضافے کی تجویز، کیا ’پیک آورز‘ بھی بڑھیں گے؟

پاکستان کے مقامی ذرائع ابلاغ میں گذشتہ چند روز کے دوران بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے متعدد خبریں رپورٹ کی گئی ہیں جس کے بعد سے اکثر افراد کو فکر لاحق ہے کہ اب بل کتنے بڑھیں گے۔

سنیچر کو نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے وفاقی حکومت کو بیس ٹیرف میں چار روپے 96 پیسے اضافے کی تجویز دی تھی جس کے بعد سے تاحال اس بارے میں حکومت کی جانب سے حتمی منظوری نہیں دی گئی ہے۔

خیال رہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں میں کمی بھی معاہدے کی شرائط میں سے ایک تھی، تاہم نیپرا کی جانب سے جاری اعلامیے میں دیگر عوامل بھی درج ہیں۔

نیپرا کی تجویز کے بعد مختلف اخبارات میں ایسی خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ حکومت کی جانب سے پیک آورز میں، یعنی دن کا وہ دورانیہ جس میں بجلی کے نرخ سب سے زیادہ ہوتے ہیں، دو گھنٹوں کا اضافہ کیا جانے کا امکان ہے۔

اس کے علاوہ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ان تبدیلیوں کا اطلاق پہلی جولائی سے کیے جانے کا امکان ہے۔

تاہم سوشل میڈیا پر اکثر افراد کی جانب سے اس بارے میں بھی تنقید کی جا رہی ہے اور لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان مجوزہ تبدیلیوں کا ان کے بلوں پر کیا اثر پڑے گا۔

بجلی کی قیمت میں اضافہ کیوں کیا جا رہا ہے؟

نیپرا کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافے سے فی یونٹ بنیادی ٹیرف 29 روپے 78 پیسے ہو جائے گا۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بجلی کے بنیادی ٹیرف کا تعین مالی سال 24-2023 کے لیے کیا گیا ہے، اس سے پہلے بجلی کا بنیادی ٹیرف 24 روپے 82 پیسے تھا۔

نیپرا کے مطابق بجلی کا بنیادی ٹیرف بڑھنے کی وجہ روپے کی قدر میں کمی، بجلی کی فروخت میں کمی اور ’کپیسٹی ادائیگیاں‘ ہیں۔

اگر بنیادی ٹیرف میں یہ اضافہ ہو جاتا ہے تو اس کے بعد بجلی کا ایک یونٹ اوسطاً پچاس روپے سے تجاوز کرنے کا خدشہ ہے۔ اس وقت ملک میں بجلی کا ایک یونٹ اوسطاً تقریباً 45 روپے کا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نیپرا کے ڈی جی ٹیرف ساجد اکرم نے بجلی کی فروخت میں کمی اور ادائیگیوں کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت جب پاور کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کرتی ہے تو ان میں انھیں مخصوص رقم کی ادائیگی ہر صورت کرنی ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ایسے میں جب بجلی کی کھپت میں کمی آئے گی تو ریوینو کم ہو گا لیکن مخصوص رقم کی ادائیگی وہی رہے گی، اس لیے ایسا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

’اس کے علاوہ ان کمپنیوں کو ادائیگیاں ڈالرز میں کی جاتی ہیں، اس لیے اگر روپے کی قدر میں کمی آئے گی تو اس کے اثرات ہوں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح پیداواری صلاحیت میں اضافہ بھی اس کی ایک وجہ ہے کہ اگر آپ کے سسٹم میں مزید بجلی شامل ہو رہی ہے تو ظاہر ہے آپ کو اس حوالے سے ادائیگیاں کرنی پڑیں گی۔

کیا اس بیس ٹیرف میں اضافے کا اطلاق یکم جولائی سے ہو گا؟

تو اب سوال یہ ہے کہ اگر حکومت کی جانب سے اس اضافے کی منظوری کر دی جاتی ہے تو کیا اس کا اطلاق یکم جولائی سے ہو گا؟

نیپرا کے ڈی جی ٹیرف ساجد اکرم کا کہنا تھا کہ اس بات کا حتمی فیصلہ تو حکومت کی جانب سے ہی کیا جائے گا کہ آیا اضافے کا اطلاق یکم جولائی سے کیا جاتا ہے، یکم اگست سے یا نوٹیفیکیشن کے دن سے۔

تاہم انھوں نے کہا کہ امکان یہی ہے کہ یہ اطلاق یکم جولائی سے ہی ہو گا کیونکہ منطقی اعتبار سے بھی یہی سمجھ آتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ اضافہ ہوتا ہے تو یہ صارفین کے اگست کے بجلی کے بلوں میں لگ کر آئے گا۔

کیا پیک آورز میں اضافہ کیا جا رہا ہے اور اس کا اطلاق کب سے ہو گا؟

آپ کے گھر بھیجے جانے والے بجلی کے بل پر لکھا ہوتا ہے کہ ملک میں بجلی کے پیک آورز شام چھ سے رات 10 بجے تک ہوتے ہیں۔

اس دورانیے میں بجلی کی فی یونٹ قیمت بڑھ جاتی ہے، اس لیے عموماً اس دوران صارفین کی جانب سے بجلی کم سے کم استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

تاہم سوشل میڈیا پر ایسی افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ حکومت کی جانب سے پیک آورز میں دو گھنٹے اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

تاہم ڈی جی ٹیرف ساجد اکرم کا کہنا تھا کہ یہ خبریں کہاں سے پھیلی ہیں اس کا ہمیں علم نہیں ہے اور اگر حکومت کی جانب سے ایسا کوئی فیصلہ کرنے کا ارادہ ہوتا تو وہ ہمارے ساتھ کی گئی میٹنگ میں اس کا ذکر ضرور کرتے۔

حکومت کی جانب سے تاحال اس حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

’صرف ایک پنکھے کے ساتھ بھی 20 ہزار تک بل آ رہا ہے‘

اس حوالے سے اکثر افراد کی جانب سے ابھی سے ہی حکومت کے اس ممکنہ اقدام پر تنقید کی جا رہی ہے اور مہنگائی سے گھری عوام کو مزید بوجھ تلے دبانے کی بات کی جا رہی ہے۔

اس حوالے سے ٹویٹ کرتے ہوئے سیاسی رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا کہنا تھا کہ ’مہنگائی کے طوفان نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔

’جس سے ملک میں غربت اور بیروزگاری کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بجلی کے بل میں پانچ روپے فی یونٹ اضافے کے بعد اب بجلی اوسطاً 50 روپے فی یونٹ تک پہنچ گئی ہے۔

’یہ نااہل حکومت عوام کو ریلیف دینے کے بجائے الیکشن میں سیاسی انجنئیرنگ کے ذریعے دھاندلی کے منصوبے تیار کرنے میں مصروف ہے۔‘

ایک صارف نے لکھا کہ ’جب ساری فیملی 16 ڈگری پر اے سی چلا کر سو جاتی ہے تو ایک آدمی اس وقت بھی جاگ رہا ہوتا ہے اور سوچ رہا ہوتا ہے کہ بجلی کا بل کیسے دوں گا؟‘

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ ’بجلی کا بنیادی نرخ 25 سے بڑھا کر 29 کر دیا گیا ہے۔ بیشک ہر گھر میں لیپ ٹاپ دے دیں، جس کے گھر بجلی کا بل جا رہا ہے، آٹا خرید کر کھا رہا ہے وہ انھیں الیکشن پر 440 وولٹ کا کرنٹ لگائے گا۔‘

ایک صارف نے لکھا کہ ’بجلی اتنی مہنگی کر دی گئی ہے کہ ملک کی اکثریتی آبادی بل ادا کرنے کے قابل نہیں رہی ہے۔ صرف ایک پنکھے کے ساتھ بھی 20 ہزار تک بل آ رہا ہے۔‘