نیلسن منڈیلا نے ایک بار مذاق میں کہا تھا کہ ’اگر خواتین مجھے دیکھتی ہیں اور مجھ میں دلچسپی لیتی ہیں تو یہ میرا قصور نہیں ہے۔ سچ کہوں تو میں اس پر کبھی اعتراض نہیں کروں گا۔‘
تین بار شادی کرنے والے نیلسن منڈیلا بڑھاپے میں بھی دنیا بھر کی خواتین کو اپنی طرف متوجہ کرتے رہے۔
لیکن ایک خاتون ایسی بھی تھیں جنھوں نے نیلسن منڈیلا کی جانب سے شادی کی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ اس انڈین نژاد خاتون کا نام امینہ چچالیہ تھا۔
امینہ نے پیشکش کیوں ٹھکرا دی؟
جب وہ صرف 21 سال کی تھیں، تو امینہ ایک بار نیلسن منڈیلا سے ملنے جیل بھی گئی تھیں۔
امینہ کی شادی یوسف چچالیا سے ہوئی تھی جن کا انتقال 1995 میں ہوا۔ اس وقت نیلسن منڈیلا اپنی دوسری بیوی سے طلاق لینے کا عمل شروع کر چکے تھے۔
امینہ کے بیٹے غالب چچالیہ کا کہنا ہے کہ ’ہمیں معلوم تھا کہ منڈیلا اور میرے والدین بہت اچھے دوست تھے۔ وہ اکثر ہمارے گھر آیا کرتے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ایک بار 90 کی دہائی میں میری والدہ مجھے اور میری بہن کو ایک کونے میں لے گئیں اور انھوں نے ہمیں بتایا کہ نیلسن منڈیلا نے انھیں شادی کی پیشکش کی تھی جسے وہ ٹھکرانے والی تھیں۔‘
اس وقت نیلسن منڈیلا کی عمر 80 سال اور امینہ کی عمر 68 سال تھی۔
میں نے غالب سے پوچھا کہ ان کی والدہ نے اتنے مشہور آدمی کی شادی کی پیشکش کیوں ٹھکرا دی؟
غالب کا جواب تھا کہ ’میری والدہ کو نیلسن منڈیلا بہت پسند تھے، لیکن وہ میرے والد کو بھولنے کے لیے بھی تیار نہیں تھیں۔ میرے والد ان سے 15 سال بڑے تھے۔ شاید ان کی موت کے بعد وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کی زندگی میں کوئی اور آئے۔‘
خوبصورت اور دلکش چال
معروف صحافی سعید نقوی کا کہنا ہے کہ انھیں پہلی بار امینہ سے ملاقات کا موقع اس وقت ملا جب نیلسن منڈیلا جیل سے رہا ہوئے۔ اس وقت امینہ کے شوہر یوسف زندہ تھے۔ جیل سے رہائی کے بعد جب وہ نیلسن منڈیلا سے ملنے گئے تو انھوں نے امینہ کو منڈیلا کے پاس بیٹھے دیکھا۔
سعید نقوی کہتے ہیں کہ ’امینہ کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ وہ کسی زمانے میں بہت خوبصورت، پرکشش، اور چنچل رہی ہوں گی۔ ان کی شخصیت میں وہ سب کچھ تھا جو کسی ہیروئن میں نظر آتا ہے۔‘
’انھوں نے افریقن نیشنل کانگریس میں کام کیا تھا۔ وہ نیلسن منڈیلا کی دوست تھیں اور ان کی فکری سطح بھی نیلسن منڈیلا کے برابر تھی۔‘
کیتھ ملر بھی امینہ کو پسند کرتے تھے
دلچسپ بات یہ ہے کہ 1948 میں جنوبی افریقہ کا دورہ کرنے والی آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کے رکن کیتھ ملر بھی امینہ کو پسند کرتے تھے۔
اس وقت ان کی شادی نہیں ہوئی تھی اور کیتھ ملر اس وقت دنیا کے مشہور آل راؤنڈر تھے۔
سعید نقوی کا کہنا ہے کہ ’دونوں کی ملاقات ایک پارٹی میں ہوئی جس کے بعد کیتھ ملر نے امینہ کو دن رات فون کرنا شروع کر دیا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ وہ فون تو کر سکتا تھا لیکن ملنے نہیں آ سکتا تھا۔‘
ایک مسئلہ یہ تھا کہ امینہ انڈینز کے علاقے میں رہتی تھیں۔ ’امینہ کے شوہر یوسف بھائی بہت ہنستے اور یہ کہانی سناتے کہ نسل پرستی نے ہماری بہت مدد کی، ورنہ یہ کیتھ ملر آکر امینہ سے مل جاتا۔‘
امینہ اور نیلسن منڈیلا کی سعید نقوی کے سامنے کئی ملاقاتیں ہوئیں لیکن جب وہ 1995 میں جنوبی افریقہ گئے تو اس وقت امینہ کے شوہر یوسف کا انتقال ہو چکا تھا۔
کئی بار ایسا ہوا کہ جب سعید نقوی امینہ سے ملنے گئے تو انھیں معلوم ہوا کہ وہ نیلسن منڈیلا کے پاس ہیں۔
سعید نقوی کہتے ہیں کہ ’پھر مجھے ان سے معلوم ہوا کہ نیلسن منڈیلا نے وہ کیا جو کیتھ ملر نہیں کر سکا تھا۔ پھر
امینہ نے منڈیلا کے لیے سموسے تلے
آہستہ آہستہ سب کو معلوم ہو گیا کہ نیلسن منڈیلا نے ان سے شادی کرنے کا ذہن بنانا شروع کر دیا ہے۔‘
امینہ نے بعد میں ایک انٹرویو دیا جس میں انھوں نے بتایا کہ نیلسن منڈیلا کی سب سے پیاری یاد ان کے دل میں یہ ہے کہ وہ ایک بار صدر بنننے کے بعد ان کے گھر آئے تھے۔
امینہ نے انٹرویو میں کہا ’وہ میرے کچن میں ایک سٹول پر بیٹھا ہوا تھا جب میں اس کے لیے سموسے تل رہی تھی۔‘
امینہ اپنی سوانح عمری ’وین ہوپ اینڈ ہسٹری رائم‘ میں لکھتی ہیں کہ ’ایک بار گریس مچل سے تیسری شادی کے بعد نیلسن منڈیلا میرے جوہانسبرگ کے فلیٹ پر آئے اور مجھ سے اپنی محبت کا واضح اظہار کیا۔‘
’میں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ تم نے ابھی شادی کی ہے۔ میں آزاد ہوں لیکن تم آزاد نہیں ہو۔ اس پر نیلسن منڈیلا ناراض ہو گئے اور بار بار یہ کہنے کے باوجود کہ میں نے تمہارے لیے مچھلی پکائی ہے، وہ دروازہ بند کر کے باہر نکل گئے۔‘
امینہ اپنی سوانح عمری میں مزید لکھتی ہیں کہ ’نیلسن منڈیلا میں رومان کا کوئی لمس نہیں تھا۔ شاید وہ یہ احساس اپنی برسوں کی قید کی وجہ سے کھو چکے تھے۔ میں ان کو پسند کرتی تھی لیکن اس طرح نہیں جس طرح میں اپنے مرحوم شوہر کو بڑھاپے میں بھی پسند کرتی تھی۔‘
سعید نقوی کہتے ہیں کہ ’یہ سمجھا گیا تھا کہ نیلسن منڈیلا اگر ایک انڈین خاتون کے بجائے موزمبیق کے صدر کی بیوہ گریس مچل سے شادی کریں تو بہتر رہے گا، اور وہ آہستہ آہستہ اس سمت میں گامزن ہو گئے تھے۔‘
ان کے مطابق ان دعوؤں کی کبھی تصدیق نہیں ہو سکی۔ ’کس نے ہاں کہا اور کس نے انکار کیا لیکن ان کے درمیان کچھ نہ کچھ ضرور تھا۔ انھیں قریب سے دیکھنے کے بعد، میں کہہ سکتا ہوں کہ آگ دونوں طرف برابر تھی۔‘