اہم خبریں

نورین گلوانی: ’ڈرامہ پیاری مونا میں چیزیں توڑنے میں بڑا مزہ آیا‘

پاکستانی اداکارہ نورین گلوانی بلاشبہ اُن چند کامیاب فنکاروں میں شامل ہیں جو ڈراموں کی دنیا میں سائیڈ اور سپورٹنگ کردار ملنے کے باوجود اپنے کام کے ذریعے ایک منفرد پہچان بنانے میں کامیاب رہی ہیں۔

صحافت کی تعلیم کے بعد آئی ٹی کے شعبے میں نوکری چھوڑ کر اداکارہ بننے والی نورین گلوانی کے اِس وقت تین ڈرامے آن ایئر ہیں۔

ڈرامہ سیریل ’پیاری مونا‘ میں وہ کنزہ، ’محبت گمشدہ میری‘ میں وہ رُشنا، اور ’جھوم‘ میں ڈاکٹر مہلب کے روپ میں نظر آ رہی ہیں مگر ان کا خواب ہے کہ ایک دن وہ کسی ڈرگ لارڈ یعنی منشیات کے کاروبار میں کسی ماسٹر مائنڈ کا کردار ادا کریں۔

فی الحال ٹی وی سکرین پر ان کے تینوں سپورٹنگ کردار ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں اور شائقین اُن کے سب ہی کرداروں میں دلچسپی لے رہے ہیں۔

انھیں کنزہ کے روپ میں ’چیزیں توڑنے میں بڑا مزہ آیا‘

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ نورین گلوانی اپنے سکرپٹس کا انتخاب بہت ذہانت سے اور سوچ بچار کے بعد کرتی ہیں۔

ڈرامہ سیریل ’پیاری مونا‘ کی کنزہ کا کردار اُنھی میں سے ایک ہے۔ کنزہ ایک مزاحیہ کردار لگتا ہے جو چلتے پھرتے چیزیں گراتا اور توڑتا رہتا ہے اور والدہ کنزہ کی شادی کے لیے فکرمند رہتی ہیں۔

لیکن شادی کے بعد شوہر کو اِن حرکات و سکنات میں ایک بے ضرر اور جھلی سے لڑکی نظر آتی ہے۔

بی بی سی اردو کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں نورین گلوانی نے بتایا کہ کنزہ کے کردار کو قابلِ یقین بنانا اُن کے لیے بھی مشکل تھا کیونکہ انھوں نے ایسی لڑکیاں نہیں دیکھی تھیں۔

’جب وہ کچھ غلط کرتی ہے یعنی چائے گرا دیتی ہے یا اس قسم کی چیزیں تو وہ اُسے مانتی ہے کہ ہاں میں ہوں ایسی اور بتا بھی دیتی ہے۔ وہ پُراعتماد بھی ہے۔ وہ یہ نہیں کرتی کہ اب میں نے کر دیا اور اب لوگ مجھے پسند نہیں کریں گے۔

’اسے کسی کی ویلیڈیشن (دوسروں کا پسند کرنا) نہیں چاہیے۔ مجھے یہی بات پسند آئی کہ یہ مست ملنگ ہے۔‘

نورین کہتی ہیں کہ کنزہ اُن کے پسندیدہ کرداروں میں سے ایک ہے جسے کرتے ہوئے اُنھیں بہت مزہ آیا۔

’چیزوں کو توڑنے میں اتنا مزہ آیا۔ میں نے کئی چیزیں توڑی ہیں۔ گلاسز توڑے ہیں، گلدان توڑے ہیں، جگ توڑے ہیں۔ میں نے خود بھی اپنے آپ کو گرایا اور کافی زخمی ہوگئی تھی۔ جب میں سیڑھیوں سے گرتی ہوں تو میرے سر پر گومڑ نکل آیا تھا۔‘

’روزانہ اُس کی مونچھیں تھوڑی بہت ٹیڑھی ہو جاتی تھیں‘

کنزہ کے برعکس ڈرامہ سیریل ’محبت گمشدہ میری‘ کی رُشنا ایک انتہائی سنجیدہ بڑی بہن کا کردار ہے جو اپنی چھوٹی بہن زوبیہ کا ساتھ دیتے اور انھیں سمجھاتے نظر آتی ہے۔

میں نے نورین سے جاننا چاہا کہ کیا وجہ ہے کہ رشنا ایک عام سا سپورٹنگ کردار ہونے کے باوجود شائقین کو بے حد پسند آ رہا ہے۔

ان کا جواب تھا کہ ’جتنے لوگوں سے میں نے بات کی ہے اُنھوں نے کہا کہ ہم نے سکرین پر بہنوں میں اس طرح کا تعلق بہت وقت کے بعد دیکھا ہے۔‘

’کچھ لوگوں نے مجھے باقاعدہ مثالیں دیں کہ ایک میں دکھایا تھا کہ وہ اُس کے شوہر کو چھیننے کی کوشش کر رہی ہے یا ایک دِکھا رہے ہیں کہ وہ سازش کر رہی ہے۔‘

محبت گمشدہ میری‘ میں دونوں بہنوں رُشنا اور زوبیہ کا خاندان بظاہر کافی متوازی اور سمجھدار خاندان نظر آتا ہے۔

ماں کا سخت رویہ، مڈل کلاس اقدار، جذباتی تشدد اور گھٹن سب اِس کا حصہ ہے جس میں ڈری ڈری رُشنا نام نہاد اچھی بچیوں کی طرح سب کا کہنا مانتی نظر آتی ہے۔

’جذباتی پہلو کے لحاظ سے بھی یہ سمجھنا مشکل تھا کہ وہ خود کے لیے اور اپنی بہن کے لیے کیوں نہیں کھڑی ہوسکتی اور اپنے والدین کو بتا سکی کہ وہ تھوڑا سمجھنے کی کوشش کریں اور ہمدردانہ رویہ اختیار کریں۔‘

نورین نے مزید کہا کہ ’وہ ڈر بھی میرے لیے سمجھنا مشکل تھا کیونکہ میں ایسی نہیں ہوں۔ میری فیملی میں جب بھی کوئی تنازع ہوا میں نے اُس پر آواز اٹھائی۔‘

’لیکن تجربے اور پرورش کی وجہ سے رُشنا کی صورتحال کافی مختلف بھی ہے۔ اُس کو یہ ممکن نہیں لگتا کہ وہ اپنے سچ کو سامنے رکھ سکے، اُس کے لیے لڑے اور پھر اُس کے نتائج بھی بھگت سکے۔ اس لحاظ سے وہ تھوڑی سی مسکین طبیعت رکھتی ہے۔‘

’اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹرز کرشمے دِکھا سکتے ہیں‘

جیو انٹرٹینمنٹ پر نشر ہونے والے ڈرامہ سیریل ’جھوم‘ میں نورین گلوانی ڈاکٹر مہلب کا کردار نبھا رہی ہیں۔ پہلی ہی قسط میں گن شاٹ سے زخمی ہونے والی ایک لڑکی کو ہسپتال لایا جاتا ہے جبکہ اُس کا دوست ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر مہلب اور ہسپتال کے عملے پر جارحانہ انداز سے چیختا چلاتا ہے۔

گو نورین کا کردار ڈاکٹر مہلب مرکزی کردار ڈاکٹر مریم کی دوست کا ہے جو زارا نور عباس نبھا رہی ہیں لیکن نورین کا کام وہاں بھی نوٹس کیے بغیر نہیں رہا۔

انھوں نے بتایا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹرز کرشماتی کام کر سکتے ہیں اور وہ ہمیشہ ایسی صورتحال کو بھرپور انداز سے سنبھال لیں گے اور اگر وہ اُن کی توقعات پہ پورا نہ اُتر پائیں تو لوگ اُن پر کافی برس پڑتے ہیں۔ ڈاکٹرز کو بھی انسان سمجھنے ضروری ہے۔‘

’جھوم‘ میں زارا نور عباس کے ساتھ کام کے تجربے پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ’ زارا بہت تفریح کرنے والی اور تھوڑی فلمی سی ہیں۔ وہ مجھ سے ہمیشہ فون پر بالی وڈ گانے لگواتی تھیں اور پھر وہ اپنے سین میں اور ویسے بھی ساتھ میں انجوائے کرتی تھیں۔ تو ساتھ بہت مزہ آتا تھا۔‘

’پیئنگ گیسٹ کے بعد مجھے دو بُری لڑکیوں کے کردار ملے‘

اداکارہ نورین گلوانی کے کام کو ڈرامہ سیریل ’بختاور‘ میں حوریہ کے کردار کی وجہ سے بے حد پذیرائی ملی۔

اُس ڈرامہ میں اُن کے ساتھ زاویار نعمان اعجاز، یُمنی زیدی اور بابر علی وغیرہ نے کام کیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ حُوریہ اور کنزہ اُن کے اب تک کے سب سے پسندیدہ کردار ہیں۔

’حُوریہ تھوڑا منفی کردار تھا۔ اُس کی پاور میرے لیے ایک نئی چیز تھی کیونکہ اُس کا سیاسی پس منظر تھا۔ تو وہ کہیں کہیں دوپٹہ رکھتی ہے، کہیں وہ جینز پہنتی ہے، کہیں وہ گلیمر ہوجاتی ہے اور کہیں وہ بالکل سادہ بن کر آتی ہے کہ عوام کے لیے مجھے کتنا درد ہے۔ مجھے اُس تضاد میں بڑا مزہ آیا تھا۔‘

نورین نے بتایا کہ اُن کا پہلا پروجیکٹ مختصر دورانیے کی ڈراؤنی فلم ’پیئنگ گیسٹ‘ تھی جو تکنیکی لحاظ سے اُن کے لیے مشکل تھی۔ اس فلم میں اُن کے ساتھ منیب بٹ اور سیفِ حسن نے کام کیا۔

’وہ کردار تکنیکی طور پر مشکل تھا۔ کس طرح سے اُس کو بناؤں کہ وہ تھوڑا کلاسی لگے یعنی جنسی طور پر پرکشش اور بے ہودہ نہ لگے۔

انھوں نے بتایا کہ وہ یہ کردار کرتے ہوئے ڈری ہوئی بھی تھیں کہ اس کا کوئی نقصان ہو سکتا ہے لیکن اُس کے بعد مجھے دو بُری لڑکیوں کے کردار ملے اور میں سوچ رہی تھی کہ میں یہ کرسکتی ہوں لیکن میں بہتر بھی کرسکتی ہوں۔‘

نورین کہتی ہیں کہ ڈراموں میں خواتین کے کرداروں کی درست نمائندگی ہو، اس سلسلہ میں اداکار کی کچھ حد ذمہ داری ہوتی ہے۔

ڈرگ لارڈ کا کردار کرنے کی خواہش

ملائیشیا سے جرنلزم میں گریجویشن کی ڈگری، آئی ٹی کی فیلڈ میں بہترین جاب کے بعد کراچی میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) سے ایکٹنگ میں ڈگری لینے والی نورین گلوانی نے لیجنڈری فنکار ضیا محی الدین کے ساتھ تھیٹر اور ڈرامے کیے اور اب وہ شعیب ہاشمی جیسے ڈائریکٹر کے ساتھ فلم کر رہی ہیں۔

میں نے پوچھا کہ وہ کون سا کردار کرنے کی خواہش رکھتی ہیں تو وہ قہقہہ مار کر بولیں ایک ڈرگ لارڈ کا۔

’میں نے مختلف کرداروں کی ایک فہرست بنا رکھی تھی جن میں سے کچھ ہو بھی گئے۔ جو ڈرگ لارڈز ہوتے ہیں وہ بڑے دلچسپ ہوتے ہیں۔ پیکی بلائنڈرز ہے نا اُس طرح کا کچھ کرنے کا دل ہے۔‘