نصیر الدین شاہ انڈین فلم انڈسٹری کے اب تک کے سب سے تجربہ کار اداکاروں میں سے ایک ہیں لیکن ان کا تنازعات سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔
وہ اپنے بے لاگ تبصروں کی وجہ سے ماضی میں تنازعات کا مرکز رہے ہیں۔ ان کے تیر سے نہ تو دلیپ کمار بچ سکے اور نہ ہی انڈیا کے پہلے سپر سٹار راجیش کھنہ یا پھر ساتھی اداکار انوپم کھیر۔
نصیر الدین شاہ نے کبھی بھی اپنی بات کہنے سے گریز نہیں کیا، خواہ وہ کسی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور وہ اپنی بات پر قائم رہنے کے لیے بھی جانے جاتے ہیں۔
لیکن حال ہی میں انھوں نے سندھی زبان پر دیے ایک متنازع بیان پر معافی مانگی ہے جس پر کئی پاکستانیوں نے انھیں سراہا ہے۔ دوسری طرف انھیں انڈیا میں مراٹھی زبان کو فارسی سے جوڑنے پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
نصیر الدین شاہ نے کس بات پر معافی؟
دراصل نصیر الدین شاہ کو ایک حالیہ انٹرویو کی وجہ سے کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ پاکستان میں اب سندھی زبان نہیں بولی جاتی۔
اس کے فوراً بعد اداکار نے فیس بک پر معافی نامہ جاری کیا اور اسے اپنی طرف سے ’غلطی‘ اور ’غلط بیان‘ قرار دیا۔
ان کے اس اعتراف کے بعد پاکستانی اداکار عدنان صدیقی نے ٹوئٹر پر یہ پوسٹ شیئر کرتے ہوئے نصیرالدین شاہ کی تعریف کی اور لکھا کہ ’غلطی پر معافی مانگنا کسی انسان کے کردار اور اس کی دانشوری کا عکاس ہے۔ نصیر صاحب کے حالیہ اعتراف نے مجھے ان کا مزید گرویدہ بنا دیا ہے۔
’اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے اور ان کی ذمہ داری لینے کے لیے ہمت اور انکساری کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
نصیر الدین شاہ نے فیس بک پر لکھا: ’میں پاکستان کے تمام سندھی بولنے والوں سے معذرت خواہ ہوں جن کو میں نے اپنی غلط رائے سے شدید دکھ پہنچایا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ میری معلومات غلط تھیں لیکن کیا اس کے لیے مجھے سولی پر چڑھانا ضروری ہے؟‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بہت برسوں تک غلط طور پر ذہین شخص سمجھے جانے کے بعد ’جاہل‘ اور ’فرضی دانشور‘ کہلائے جانے سے کافی لطف اندوز ہو رہا ہوں۔ یہ بڑی تبدیلی ہے!‘
سوشل میڈیا صارفین بھی نصیر الدین شاہ کے بیان اور معافی پر تبصرے کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے کہا کہ وہ ان کے پسندیدہ اداکار ہیں اور وہ اب اس بات کو دل پر نہ لیں۔
تاہم عرفانہ ملاح نامی صارف نے لکھا: ’نصیرالدین شاہ صاحب ہم آپ کو مصلوب نہیں کر رہے ہیں لیکن آپ جیسی شخصیت سے اس طرح کے بیان کی امید نہیں رکھتے۔
’سندھی آپ کو پسند کرتے ہیں اور آپ کی محبت اور آپ کا اعتراف چاہتے ہیں۔ ہم اپنی زبان کے بارے میں بہت حساس ہیں کیونکہ یہ ہماری شناخت ہے۔‘
مراٹھی زبان کو فارسی سے جوڑنے پر تنازع
بہر حال زبان کے بارے میں وہ مراٹھی زبان بولنے والوں کی جانب سے بھی تنقید کی زد میں ہیں۔
حال ہی میں انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مراٹھی میں فارسی زبان کے الفاظ بھی ہیں مگر بہت سے لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا کہ انھوں نے مراٹھی زبان کو کمتر کہا ہے۔ تاہم اس پر بھی انھوں نے وضاحت دی۔
نصیرالدین شاہ نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا: ’ایسا لگتا ہے کہ حال میں میں نے جو کہا ہے اس پر مکمل طور پر دو غیر ضروری تنازعات پھوٹ پڑے ہیں۔‘
’ایک پاکستان میں سندھی زبان کے بارے میں میری غلط بیانی سے متعلق ہے۔ میں غلطی پر تھا۔ دوسرا وہ ہے جو میں نے مراٹھی اور فارسی کے تعلقات کے بارے میں کہا تھا۔‘
’میرے درست الفاظ یہ تھے کہ ’بہت سے مراٹھی الفاظ فارسی کے ہیں‘۔ میرا مقصد مراٹھی زبان کو کم دکھانا نہیں تھا بلکہ یہ بتانا تھا کہ کس طرح تنوع تمام ثقافتوں کو مالا مال کرتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اردو خود ہندی، فارسی، ترکی اور عربی کا مرکب ہے۔ انگریزی نے تمام یورپی زبانوں سے الفاظ مستعار لیے ہیں جن میں ہندوستانی بھی شامل ہے اور مجھے لگتا ہے کہ یہ روئے زمین پر بولی جانے والی ہر زبان کے لیے درست ہے۔‘
کیرالہ سٹوری پر تبصرہ
مسلمانوں کے خلاف انڈیا میں نظر آنے والی منافرت پر انھوں نے کھل کر اظہار خیال کیا ہے جس کے سبب انھیں ایک حلقے نے پاکستان چلے جانے کا مشورہ بھی دے ڈالا ہے۔
حال میں انھوں نے انڈین فلم ’کیرالہ سٹوری‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے انڈین ایکسپریس میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ انھوں نے انٹرویو کے دوران کہا: ’یقیناً، یہ بالکل پریشان کن وقت ہیں۔ اس قسم کی چیزیں جو خالص اور کھلا پروپیگنڈا ہیں انھیں بڑھاوا دیا جا رہا ہے جو کہ عصری روح کی عکاسی ہے۔‘
نصیر الدین شاہ نے مزید کہا کہ ’مسلمانوں سے نفرت ان دنوں فیشن بن چکا ہے، یہاں تک کہ پڑھے لکھے لوگوں میں بھی۔ اسے حکمران جماعت نے بڑی چالاکی سے لوگوں کے اعصاب میں ڈال دیا ہے۔
’آپ ہر چیز میں مذہب کو کیوں لے آتے ہیں؟‘
نصیر الدین شاہ زی فائیو کی آنے والی ویب سیریز ’تاج: ڈیوائیڈڈ بائی بلڈ‘ میں مغل بادشاہ اکبر کا کردار ادا کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’مغل ہندوستان لوٹنے کے لیے نہیں آئے تھے۔ بلکہ وہ اسے اپنا گھر بنانے کے لیے آئے تھے۔ آپ بہت ہو تو انھیں پناہ گزین کہہ سکتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ انڈیا میں ایک حلقے کی جانب سے مغلوں کو لٹیروں کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔
نصیر الدین شاہ نے کہا کہ مغلوں نے بہت ساری وراثت چھوڑی ہیں جن میں موسیقی، رقص اور پینٹنگ کی روایتیں بھی شامل ہیں۔
ان کے اس نظریے کو ایک حلقے کی جانب سے پسند نہیں کیا گیا اور انھیں تنقید کا سامنا رہا۔
ماضی میں دلیپ کمار، راجیش کھنہ اور انوپم کھیر پر تبصرہ
نصیر الدین شاہ کی اداکاری کے بارے میں کسی کو شکوک و شبہات نہیں لیکن ان کے بیانات بعض اوقات تنازعات کا باعث بنے ہیں۔
ایک بار انھوں نے اپنے ساتھی اداکار انوپم کھیر کو ’جوکر‘ کہہ دیا تھا۔
انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ: ’انوپم کھیر بہت بولتا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ وہ ایک مسخرہ ہے۔ این ایس ڈی اور ایف ٹی آئی آئی (دو فلمی ادارے) میں سے ان کا کوئی بھی ہم عصر ان کی خوشامدانہ فطرت کی تصدیق کر سکتا ہے۔ یہ ان کے خون میں ہے، وہ اس سے نکل نہیں سکتے۔‘
اسی طرح انھوں نے دلیپ کمار کے بارے میں کہا تھا کہ انھوں نے انڈین سینیما کے لیے کچھ خاطر خواہ نہیں کیا۔ ’انھوں نے صرف ایک فلم پروڈیوس کی اور کسی فلم کی ہدایتکاری نہیں کی۔ انھوں نے اپنے پیچھے آنے والے اداکاروں کے لیے کوئی خاطر خواہ سبق نہیں چھوڑا۔‘
اسی طرح انھوں نے ایک بار راجیش کھنہ پر فلموں میں اوسط درجے کو لانے کا الزام لگایا اور انھیں خراب اداکار کہا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’یہ 1970 کی دہائی تھی جب ہندی فلموں میں اوسط درجہ کی پذیرائی ہونے لگی۔
’اسی وقت راجیش کھنہ نامی اداکار نے انڈسٹری میں قدم رکھا تھا۔ ان کی تمام کامیابیوں سے قطع نظر، میرے خیال میں مسٹر کھنہ ایک بہت ہی محدود اداکار تھے۔ درحقیقت، وہ ایک خراب اداکار تھے۔‘
نصیر الدین شاہ نے سنہ 2018 میں کہا تھا کہ انڈیا ایک ایسا ملک بنتا جا رہا ہے جہاں ایک پولیس والے سے زیادہ گائے کو اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ ہجوم نے انڈیا کے شہر بلند شہر میں ایک پولیس والے کو پیٹ پیٹ کر مار ڈال تھا۔ ان کی اس بات پر کچھ لوگوں نے انھیں غدار قرار دیا تو ایک نے ان کے لیے کراچی کی ٹکٹ بک کرا دی۔
حکمراں جماعت بی جے پی کے ایک لیڈر نے ان کی فلم ’سرفروش‘ کے حوالے سے کہا تھا کہ وہ اپنے کردار کی طرح ہوتے جا رہے ہیں۔
جبکہ این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق نو نرمان سینا کے صدر امت جانی نے انھیں پاکستان کا ایک طرف کا ٹکٹ بھی بُک کروا دیا تھا۔
امت جانی نے کہا تھا کہ: ’اگر نصیرالدین شاہ انڈیا میں رہنے سے ڈرتے ہیں تو انھیں فوری طور پر پاکستان روانہ ہونا چاہیے۔ میں نے ان کے لیے 14 اگست کی فلائٹ کا ٹکٹ بک کرایا ہے، تاکہ وہ پاکستان کے یوم آزادی پر پہنچ سکیں اور انڈیا چھوڑ دیں کہ یہاں ایک غدار کم ہو۔‘
نصیر الدین شاہ نے نشات فلم سے سنہ 1975 میں فلموں میں قدم رکھا اور سپرش، آکروش اور بازار جیسی یادگار آرٹ فلمیں دیں۔
پھر جانے بھی دو یاروں، معصوم اور منڈی فلموں میں مختلف کرداروں سے اپنی اداکاری کا لوہا منوایا۔ انھوں نے 100 سے زیادہ فلموں میں اداکاری کی ہے اور ٹی وی سیریل ’غالب‘ میں انھوں نے غالب کے کردار کو زندہ کر دیا۔