پاکستان کرکٹ بورڈ کی مینجمینٹ کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی چیئرمین پی سی بی کی دوڑ سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔
گذشتہ رات ٹوئٹر پر اپنے بیان میں نجم سیٹھی نے لکھا کہ ’میں آصف زرداری اور شہباز شریف کے درمیان تنازعے کا سبب نہیں بننا چاہتا۔ ایسا عدم استحکام پی سی بی کے لیے ٹھیک نہیں۔ میں موجودہ صورتحال میں چیئرمین شپ کا امیدوار نہیں ہوں۔ تمام سٹیک ہولڈرز کے لیے نیک تمنائیں۔۔۔‘
واضح رہے کہ گذشتہ چند روز سے یہ قیاس آرائیاں عام ہیں کہ چیئرمین پی سی بی کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان تنازع چل رہا ہے اور اس دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے یہ دعوے کیے گئے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ذکا اشرف کو چیئرمین بنانا چاہتی ہے جبکہ مسلم لیگ نون نجم سیٹھی کو چیئرمین پی سی بی رکھنا چاہتی ہے۔
یاد رہے کہ ماضی میں اسی معاملے پر نجم سیٹھی کو ذکا اشرف کے مقابلے میں عدالتی کارروائی کا سامنا رہا ہے۔
یاد رہے کہ دو روز قبل وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ احسان الرحمان مزاری نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ چیئرمین پی سی بی زکا اشرف ہوں گے۔ یاد رہے کہ یہ وزارت کھیلوں کے معاملات بھی دیکھتی ہے۔
نجم سیٹھی اور ذکا اشرف کے درمیان عدالتی جنگ
پاکستان کرکٹ بورڈ کے آئین کے تحت 10 رکنی بورڈ آف گورنرز میں ریجن اور اداروں کے چار چار اراکین شامل ہوتے ہیں جبکہ دو کا تقرر وزیراعظم کی جانب سے ہوتا ہے۔
مئی 2013 میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے ذکا اشرف کی معطلی کے بعد جون میں نجم سیٹھی کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا عبوری چیئرمین مقرر کیا گیا تھا لیکن اسی سال اکتوبر میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے نجم سیٹھی کو کام کرنے سے روک دیا تھا۔
جنوری 2014 میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ذکا اشرف کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا لیکن فروری میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے ذکا اشرف کو ان کے عہدے سے ہٹا کر پاکستان کرکٹ بورڈ کی باگ ڈور گیارہ رکنی کمیٹی کے سپرد کر دی جس کے سربراہ نجم سیٹھی تھے۔
مئی 2014 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ذکا اشرف کو ایک بار پھر بحال کر دیا لیکن سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے نجم سیٹھی کی بحالی کا حکم سنا دیا۔
عدالتی جنگ کے اس طویل سلسلے کا ڈراپ سین اس طرح ہوا کہ نجم سیٹھی نے سپریم کورٹ کے سامنے اپنے بیان میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے اگلے انتخاب میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا اور اگست 2014 میں شہریار خان پاکستان کرکٹ بورڈ کے بلامقابلہ چیئرمین منتخب ہو گئے جبکہ نجم سیٹھی نے ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین کی ذمہ داری سنبھال لی۔
گذشتہ ایک دہائی کے دوران نجم سیٹھی پاکستان کرکٹ بورڈ کی طاقتور ترین شخصیت کے طور پر سامنے آئے اور کرکٹ بورڈ کے ہر اہم فیصلوں میں ان کی مرضی شامل رہی۔
نجم سیٹھی کا شمار ملک کے سینئر ترین صحافیوں اور تجزیہ کاروں میں ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا پر ردعمل: ’ہم کھیلوں میں سیاست نہیں چاہتے‘
نجم سیٹھی کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر نجم سیٹھی کے ساتھ ساتھ ذکا اشرف کا نام بھی ٹرینڈ کر رہا ہے اور صارفین اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔
سپورٹس جرنلسٹ فیضان لکھانی نے لکھا کہ ’دسمبر 2022 میں رمیز راجہ، جنوری 2023 میں نجم سیٹھی، جولائی 2023 میں ایک نیا چیئرمین (ممکنہ طور پر ذکا اشرف)۔۔۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’اور مجھے یقین ہے کہ اگر پاکستان پیپلز پارٹی آئندہ عام انتخابات نہیں جیتتی تو ہم ایک اور چیئرمین پی سی بی دیکھیں گے۔‘
کچھ ایسے ہی خیال کا اظہار سپورٹس جرنلسٹ شاہزیب علی نے بھی کیا۔ انھوں نے لکھا کہ دسمبر رمیز راجہ، جنوری نجم سیٹھی اور جون ذکا اشرف۔۔۔ تین ماہ میں عام انتخابات ہیں تو 12 ماہ میں ہم چار چیئرمین دیکھیں گے۔‘
صارف اسرار احمد ہاشمی نے لکھا کہ ’رمیز راجہ، نجم سیٹھی اور ممکنہ طور پر اب ذکا اشرف۔۔۔ آٹھ ماہ میں پی سی بی کا تیسرا چیئرمین۔۔۔ اور پانچ چھہ ماہ میں الیکشن نہیں ہوتے تو چوتھا چیئرمین بھی آ سکتا ہے۔ یہ مسئلہ تب تک ختم نہیں ہو گا جب تک کرکٹ بورڈ کو سیاست سے آزاد نہیں کیا جاتا۔‘
صحافی نسیم زہرہ نے لکھا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ نجم سیٹھی نے پی سی بی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت کو ثابت کر دیا۔ پیپلز پارٹی اب اپنا چیئرپرسن لائے گی۔‘
کچھ صارفین اس موقع پر میمز شیئر کرتے بھی نظر آئے۔ ایک صارف نے لکھا کہ نجم سیٹھی اب دوبارہ سے صحافی بننے کی تیاری کر رہے ہیں۔
نومی شاہ نے لکھا کہ ’نجم سیٹھی نے استعفی دے دیا، لازمی رمیز راجہ کی بددعا لگی ہے۔‘