اہم خبریں

نازی جرمنی کے ہولوکاسٹ میں بچنے والی یہودی لڑکیوں کا معمہ 84 سال بعد سلجھ گیا

نازی جرمنی سے زندہ بچ نکلنے والی تین یہودی لڑکیوں کی تصویر اتنی مقبول ہو گئی تھی کہ اسے میوزیمز، نمائشوں اور اخباروں میں شائع کیا گیا۔

یہ تصویر لندن کے لیورپول سٹریٹ سٹیشن پر بنائی گئی تھی لیکن 80 سال سے زیادہ عرصے تک لڑکیوں کی شناخت کو ایک راز رکھا گیا مگر اب اس راز سے بھی پردہ اُٹھ چکا ہے۔

اینگ کو یاد نہیں کہ یہ تصویر کب بنائی گئی اور دہائیوں تک انھیں اس کے وجود کا بھی علم نہ تھا۔

وہ پانچ سال کی عمر میں اپنی 10 سال کی بہن روتھ کے ساتھ جرمنی کے شہر بریسلاؤ (جو اب پولینڈ کا شہر وروسلاؤ ہے) سے جان بچا کر بھاگی تھیں۔


ان کی والدہ اور چھوٹی بہن آؤشوِٹس میں ہی رہے، جنھیں قتل کر دیا گیا۔

اینگ کی بہن روتھ کی سنہ 2015 میں وفات ہوئی۔ وہ ایک ریٹائرڈ ملازمہ تھیں اور بہن کی وفات پر انھیں معلوم ہوا کہ وہ ہولوکاسٹ اور کنڈر ٹرانسپورٹ کے لیے ایک جانا مانا چہرہ ہیں۔ کنڈر ٹرانسپورٹ سے مراد 1939 کے دوران نازی جرمنی سے یہودی بچوں کا بڑے پیمانے پر انخلا ہے۔

انھوں نے یہ تصویر تاریخ دان مارٹن گلبرٹ کی کتاب ’نیور اگین‘ میں دیکھی۔ ’مجھے اس پر بڑی حیرانی ہوئی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’انھوں نے اس کتاب میں تصویر پر لکھا تھا کہ یہ ’تین چھوٹی بچیاں ہیں‘۔ تو میں نے انھیں لکھا اور بتایا کہ ہم زندہ ہیں۔ لوگ کہتے ہیں میں شرلی ٹیمپل جیسی لگ رہی ہوں۔ میں کیوں مسکرا رہی ہوں؟‘

وہ کہتی ہیں کہ ’روتھ کو دیکھیں، اسے کتنا اثر پڑا ہے۔ مجھے یہ معلوم نہیں کہ گڑیا پکڑے یہ بچی کون ہے۔ مجھے کبھی پتا نہیں چل سکا وہ کون ہیں۔‘

گڑیا اٹھائے یہ بچی درحقیقت 10 سال کی ہینا کوہن ہیں جو اسی ٹرین سے اپنے جڑواں بھائیوں کے ساتھ جرمنی سے آئی تھیں۔

اینگ اور روتھ کی طرح ہینا کو یاد نہیں کہ کب یہ تصویر بنائی گئی مگر انھیں اپنا سفر اور وہ گڑیا ضرور یاد ہے۔

ان کی موت 2018 میں ہوئی مگر انھوں نے یونیورسٹی آف لندن کو ایک انٹرویو میں اپنے تجربے کے بارے میں بتایا تھا۔ ’مجھے یاد ہے جب ہالینڈ سے گزر رہے تھے اور ہمدرد خواتین نے ہمیں کھانے کے لیے بن اور لیمو پانی دیا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم ہاروچ سے ٹرین پر لیورپول سٹریٹ سٹیشن پہنچے۔ سیٹیں صوفے والی تھیں، وہاں لکڑی کی سیٹیں نہیں تھیں تو میں پریشان تھی کہ ہم شاید غلطی سے فرسٹ کلاس میں آ گئے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں پریشان تھی کہ ہم لیورپول سٹریٹ جا رہے ہیں۔ مجھے لگا تھا کہ ہم لندن جا رہے تھے اور لیورپول تو کچھ اور ہو گا۔‘

’تاہم میں ایک بڑے کمرے میں داخل ہوئی۔ میں نے اس گڑیا کو کس کر پکڑ لیا جس کا نام میں نے ایولین رکھا تھا۔‘

ہینا کو پہلی بار اس تصویر کا تب پتا چلا جب ان کے بھائی نے اسے لندن کی کیمڈن لائبریری میں کنڈر ٹرانسپورٹ کی 50ویں سالگرہ کے موقع پر دیکھا۔

ان کی جڑواں بہن ڈیبی اور ہیلن سنگر نے کہا کہ وہ باقی دونوں بچیوں کے لیے کافی پریشان تھے۔

ڈیبی نے کہا کہ ’جب میں نے تصویر دیکھی تو وہ گڑیا لیے بیٹھی تھی۔ میں نے سوچا باقی دونوں لڑکیاں کون ہیں۔‘

پھر جنوری میں تصویر کو شائع ہوئے 80 سال بعد ان کی بیٹیوں نے بی بی سی کی ایک آڈیو سیریز کے بعد یہ معلوم کر لیا کہ وہ دونوں کون تھیں۔

یہ سیریز ’دی گرلز: اے ہولوکاسٹ سیف ہاؤس‘ نے اس گھر کی کہانی بیان کی جہاں اینگ (جن کا شادی کے بعد نام ہیملٹن ہے) اور روتھ نے جنگ کا عرصہ گزارا تھا۔

ہیلن نے کہا کہ ’ہولوکاسٹ میموریل ڈے کے موقع پر ایک دوست نے بی بی سی کی ویب سائٹ کا لنک بھیجا۔ میں نے سوچھا مجھے یہ لنک کیوں بھیجا گیا۔ میں نے اپنی ماں کی تصویر دیکھی اور معلوم ہوا کہ باقی دونوں بچیوں کے نام روتھ اور اینگ ہیں۔‘

’ہم بڑے خوش ہوئے۔ ہم نے ڈیبی کو میسج کیا اور کہا ’ہمیں وہ لڑکیاں مل گئی ہیں‘۔‘

اس کے ریکارڈ کے مطابق 5 جولائی 1939 کو یہ تصویر بنائی گئی جس کا عنوان تھا ’تین چھوٹی بچیاں لیورپول سٹریٹ سٹیشن پر انتظار کر رہی ہیں۔‘ تصویر پر فوٹوگرافر کا نام ’سٹیفنسن‘ درج ہے۔

ہم یقینی طور پر نہیں جان سکتے لیکن یہ ممکن ہے کہ ان کا تعلق سکاٹ لینڈ سے تھا اور اصل نام جان ایف سٹیونسن تھا۔ اس نام کو گانا ’ڈیئر اولڈ گلاسگو ٹون‘ لکھنے پر شہرت ملی۔

1930 کی دہائی میں ٹاپیکل پریس ایجنسی نے گلاسگو میں ان کے لیے ایک خطاب کیا۔

سکاٹش پبلک ریکارڈ آفس کی مدد سے، پیدائش اور موت کے سرٹیفیکیٹس پر پتوں کے ذریعے، ہم نے ان کے خاندان کا سراغ لگایا۔

ان کے صحافی پوتے گورڈن سٹیونسن اپنے دادا کے سنہ 1930 کی دہائی کے دوران فری لانس پریس فوٹوگرافر کے کیریئر سے متاثر ہوئے تھے۔

گورڈن نے کہا کہ ’ہمیں معلوم تھا کہ انھوں نے ساری زندگی تصویریں کھینچی ہیں اور ہمارے پاس ان کی بہت سی تصاویر ہیں۔ ہم جانتے تھے کہ یہ ان کی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ ہے۔‘

فرینک سٹیونسن 1930 کی دہائی میں فوٹوگرافر تھے۔

’ہم ان کے فوٹو گرافی کے کیریئر کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک حقیقی انکشاف تھا اور ہم اب بھی اس امکان کو سمجھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں کہ کیا یہ وہی تھے۔‘

یہ تصویر قومی اخبار دی نیوز کرونیکل میں اگلے دن شائع ہوئی لیکن پھر اسے ڈیجیٹل دور تک کبھی کبھار استعمال کیا جاتا تھا جب یہ اخبارات اور نمائشوں میں زیادہ سے زیادہ شائع ہوتی۔

ڈیبی اور ہیلن سنگر کے دورے کے دوران گیٹی آرکائیوز نے اپنے ریکارڈ کو اپ ڈیٹ کیا تاکہ تصویر کے ساتھ کیپشن میں تینوں لڑکیوں کے نام لکھے ہوں۔

ڈیبی نے کہا کہ ’میرے آنسو نکل آئے کیونکہ اب وہاں ہماری ماں کا نام لکھا گیا اور یہ بھی کہ وہ کہاں سے آئی ہیں۔ اس تصویر کے ساتھ اب اینگ اور روتھ کے نام لکھے گئے ہیں۔ ورنہ یہ صرف بے نام بچیاں تھیں۔‘

ہیلن نے اتفاق کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’یہ صرف ’تین چھوٹی لڑکیاں‘ نہیں تھیں، یہ وہ لوگ تھے جن کے نام اور زندگیاں اہمیت رکھتی تھیں۔‘

’وہ نام رکھنے کے مستحق تھے اور ہمیں لگتا ہے کہ ہماری والدہ اس سے خوش ہوئی ہوں گی۔‘

اینگ، جو اب 89 سال کی ہیں اور جنوبی لندن میں مقیم ہیں، نے اس مہربان لڑکی کا نام جاننے کے لیے 80 سال سے زیادہ انتظار کیا، جس نے اس کے ساتھ اپنی گڑیا شیئر کی تھی۔

وہ اب اس تصویر کے بارے میں بہت کچھ جانتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یہ تصویر ایک طویل سفر کو بیان کرتی ہیں۔ ’اس تصویر سے لوگ متوجہ ہوتے ہیں۔‘