نائٹ ٹیررز: ’میرا بچہ کچھ اور بن گیا تھا، وہ ناقابل فہم باتیں کر رہا تھا‘

’پہلی بار مجھے لگا وہ دیوانہ ہو گیا ہے۔ میں نے اسے اٹھانے کی کوشش کی، اسے کہا وہ پرسکون ہو جائے۔ لیکن وہ جیسے کسی اور دنیا میں تھا، کسی اور ہی کیفیت میں، مجھ سے بہت دور۔‘

اولیویا گارسیا نے ان الفاظ میں اس لمحے کو یاد کیا جب ان کے بیٹے ہوان، جو اس وقت چار سال کے تھے، میں 2020 کے آغاز میں ’نائٹ ٹیررز‘ نامی بیماری کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوئیں۔

یہ نیند کی ایک ایسی بیماری ہے جس میں بچہ خوفزدہ کیفیت میں نیند سے بیدار ہو جاتا ہے۔ اس بیماری سے متاثرہ افراد چلاتے ہیں، ان کو پسینہ آتا ہے، اور کبھی کبھار نیند کی حالت میں بھی پرتشدد ہو سکتے ہیں۔

سانٹیاگو ڈی چلی کی رہائشی اولیویا بتاتی ہیں کہ ’میرا بیٹا کسی اور شخص میں تبدیل ہو گیا، وہ ایسی باتیں کہ رہا تھا جن کی سمجھ نہیں آتی تھی، وہ چلا رہا تھا، رو رہا تھا۔ میں نے اسے گلے لگایا اور اسے پیار کرنے کی کوشش کی لیکن ایسا لگ رہا تھا جیسے اس پر کچھ طاری ہے، اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، یہ سب بہت ڈراؤنا تھا۔‘

اس کیفیت کا سامنا کرنے والے ہوان اکیلے نہیں ہیں۔

امریکی اکیڈمی آف سلیپ میڈیسن کے مطابق ایک سے چھ سال کی عمر کے پانچ فیصد بچے اس بیماری سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ تنظیم کے مطابق پانچ سال کی عمر کے 25 فیصد بچے کسی نہ کسی وقت میں ایسی علامات ظاہر کر سکتے ہیں۔

اس بیماری کے اعداد و شمار ہر ملک میں الگ ہو سکتے ہیں لیکن ایک بات جس پر ماہرین کا اتفاق ہے کہ بچے اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جبکہ بڑوں میں ایسی کیفیت کم ہی سامنے آتی ہے۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق بڑی عمر کے صرف دو فیصد افراد اس بیماری سے متاثر ہوتے ہیں جن میں سے ایک فیصد 65 سال سے زیادہ عمر کے ہوتے ہیں۔

یہ بیماری کیوں ہوتی ہے اور اس کی علامات کیا ہیں؟

نائٹ ٹیررز عام طور پر رات کے پہلے پہر میں ہوتے ہیں جسے ’این تھری‘ کہا جاتا ہے یعنی گہری نیند کے دوران۔ ان کا دورانیہ پانچ سے 15 منٹ تک کا ہو سکتا ہے لیکن چند کیسز میں یہ دورانیہ بڑھ بھی سکتا ہے۔

اس بیماری کی وجہ مکمل طور پر معلوم نہیں ہو سکی۔ تاہم تھکاوٹ، نیند میں خلل اور شدید بخار اس بیماری کی شدت کو بڑھا دیتے ہیں۔

اس بیماری کی ایک وجہ جینیاتی بھی ہے۔ مایو کلینک کے مطابق اگر کسی بچے کے رشتہ داروں میں یہ بیماری رہی ہے تو وہ بھی نائٹ ٹیررز سے متاثر ہو سکتا ہے۔

ٹاٹانیا منوز چائلڈ نیورالوجسٹ ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’جب کوئی بچہ اس بیماری سے متاثر ہوتا ہے تو وہ اچانک نیند سے بیدار ہوتا ہے، بستر میں اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے یا چھلانگ مار دیتا ہے، خوف سے چلاتا ہے اور ڈر محسوس کرتا ہے۔‘

’کبھی کبھار متاثرہ بچہ ان دیکھے خطرے سے بچنے کی کوشش میں دیوار یا فرنیچر سے جا کر ٹکرا سکتا ہے۔ بچہ کنفیوز ہوتا ہے، اس کی بات چیت کی بھی سمجھ نہیں آتی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ جسمانی اعتبار سے جو علامات نظر آتی ہیں ان میں ’دل کا تیز تیز دھڑکنا، پسینہ آنا، آنکھوں کی پتلیاں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں، جسم میں جھٹکے محسوس ہو سکتے ہیں اور بے چینی ہوتی ہے۔‘

عام طور پر اس کیفیت سے گزرنے والے بچوں کو صبح اٹھ کر کچھ یاد نہیں ہوتا کیوں کہ ان علامات سے گزرنے کے بعد وہ پرسکون طریقے سے سو جاتے ہیں۔

ہوان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ان کی والدہ بتاتی ہیں کہ ’اگر کوئی اسے بتاتا کہ رات کو کیا ہوا تھا تو اسے کچھ سمجھ نہیں آتی تھی۔‘

پابلو بروک مین کرسٹس کیتھولک یونیورسٹی ہیلتھ نیٹ ورک سے تعلق رکھتے ہیں اور نیند کے ماہر ڈاکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایسا ہے جیسے دماغ میں شارٹ سرکٹ ہو جائے۔‘

’زیادہ تر اس کی کوئی بنیادی وجہ نہیں ہوتی اور یہ بچے میں کسی بیماری کی وجہ سے نہیں ہوتے، 90 فیصد کیسز میں یہ خود ہی دور ہو جاتی ہے اور یہ ہماری سوچ سے زیادہ عام ہے۔‘

یہ ڈراؤنے خواب نہیں ہوتے

واضح رہے کہ یہ بیماری ڈراؤنے خواب دیکھنے یا نیند میں چلنے سے الگ ہے۔

پابلو بروک مین کا کہنا ہے کہ یہ بیماری ’کسی تجربے کی وجہ سے یا کسی ایسے واقعے کی وجہ سے نہیں ہوتی جو ہم پر دن میں بیت چکا ہوتا ہے جیسے ڈراؤنے خواب۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ڈراؤنے خواب ’آر ای ایم‘ نیند کے دوران آتے ہیں جبکہ ’ٹیررز‘ گہری نیند میں پیش آتے ہیں۔

دوسری جانب ان کا کہنا ہے کہ ’نیند میں چلنے والے چل سکتے ہیں، بات کر سکتے ہیں، بیٹھ سکتے ہیں اور بنا خوف گھر میں گھوم سکتے ہیں۔ نائٹ ٹیرر میں ایسا نہیں ہوتا۔ اس سے متاثرہ فرد بہت پریشان ہوتا ہے اور مکمل طور پر کھویا ہوا ہوتا ہے۔‘

تاہم ان دونوں میں ایک تعلق ضرور ہے۔ پابلو بروک مین کا کہنا ہے کہ ایسے افراد جن کو نائٹ ٹیررز کا سامنا ہوتا ہے، ان میں سے چند وقت کے ساتھ ساتھ نیند میں چلنا شروع کر دیتے ہیں۔

اس بیماری کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟

ایسی کیفیت کا سامنا کرنے والے بچے کے لیے اس وقت کچھ کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ لیکن اسے اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے۔

اولیویا بتاتی ہیں کہ ’میں اسے قریب رکھنے کی کوشش کرتی تھی، میں اسے بتاتی امی تمھارے ساتھ ہیں، سب ٹھیک ہے۔ لیکن وہ مجھ سے ایسا برتاؤ کرتا جیسے میں کوئی اجنبی ہوں۔‘

ٹاٹانیا منوز کا کہنا ہے کہ ایسی کیفیت میں بچے کو جگانا مشکل ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ایسی کوششیں بچے کے خوف میں اضافہ کر سکتی ہیں اور دورانیے کو بڑھا سکتی ہیں۔‘

تاہم بروک مین کے مطابق چند تکنیکوں کا استعمال مدد کر سکتا ہے۔

ان کے مطابق کوشش کرنی چاہیے کہ رات کے پہلے پہر میں نیند میں خلل نہ ڈالا جائے اور سونے سے پہلے ٹی وی نہ دیکھا جائے،

لیکن اگرعلامات میں شدت آئے تو بہتر ہوتا ہے کہ کسی ماہر سے رجوع کیا جائے۔ اولیویا نے بھی ایسا ہی کیا۔

ہوان کا الیکٹرو اینکیفالو گرام کیا گیا جس میں دماغ کی الیکٹریکل حرکات کو جانچا جاتا ہے۔ ٹیسٹ کے نتائج سے معلوم ہوا کہ ہوان کو کوئی دماغی بیماری نہیں تھی۔

ہوان میں یہ علامات کورونا وبا کے دوران ظاہر ہونا شروع ہوئیں۔ اولیویا کا ماننا ہے کہ ’وبا کا کوئی اثر ضرور تھا۔ ہوان سارا دن گھر پر ہوتا، آن لائن کلاسز لیتا۔ یہ کافی مشکل وقت تھا۔‘

دنیا بھر میں دیگر تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کورونا وبا کے دوران نیند کی بیماریوں میں اضافہ ہوا۔ برطانیہ میں ایک تحقیق کے مطابق وبا کے بعد ’انسومنیا‘ بیماری سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا اور بچے بھی متاثر ہوئے۔

پابلو بروک مین کا کہنا ہے کہ کورونا وبا نے نیند کو متاثر کیا جس سے بیماریاں بچوں میں بھی عام ہوئیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’نائٹ ٹیررز میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی چھان بین ہو رہی ہے کہ ایسا کیوں ہے۔‘