اہم خبریں

’میکڈونلڈ کے مرد مینیجر یہ شرط لگاتے کہ نئی ملازمہ کے ساتھ کون سو سکتا ہے‘

برطانیہ میں فاسٹ فوڈ چین میکڈونلڈ کے آؤٹ لیٹس پر 100 سے زیادہ موجودہ اور سابقہ ملازمین نے یہ الزامات عائد کیے ہیں کہ انھیں انتہائی زہر آلود ماحول میں جنسی زیادتی، ہراسانی، نسل پرستی اور بلیئنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

بی بی سی نے پتا چلایا ہے کہ ان ملازمین میں کچھ 17 سال سے کم عمر کے ملازمین بھی ہیں، جنھیں معمول میں ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

برطانیہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے کہا کہ اسے بی بی سی کے نتائج سے ’تشویش‘ لاحق ہوئی ہے اور اب وہ ایک نئی ای میل ہاٹ لائن شروع کرنے جا رہے ہیں۔

میکڈونلڈ نے اپنے مؤقف میں اعلیٰ معیار برقرار نہ رکھنے کا اعتراف کرتے ہوئے ’دل کی اتھاہ گہرائی سے معذرت‘ کی ہے اور ان واقعات کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔

میکڈونلڈ نے مزید کہا کہ تمام ملازمین ایک محفوظ، باعزت اور کام پر سب کے لیے مساوی مواقع کی جگہ پر ملازمت کرنے کے مستحق ہیں۔

بی بی سی نے میکڈونلڈ میں کام کرنے کے حالات کی تحقیقات فروری میں شروع کیں، جب کمپنی نے ایکولِٹی اینڈ ہیومن رائٹس کمیشن (ای ایچ آر سی) کے ساتھ قانونی معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے میں میکڈونلڈ کمپنی نے اپنے عملے کو جنسی طور پر ہراسانی سے بچانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

اس وقت میکڈونلڈ نے اصرار کیا تھا کہ ’ہم اس حوالے سے پہلے ہی بہت اچھی شہرت کے حامل ہیں۔‘ تاہم بی بی سی کی تحقیقات میں اس دعوے کے بالکل برعکس تصویر سامنے آئی ہے۔

پانچ ماہ کے عرصے میں بی بی سی میکڈونلڈز کے ملازمین سے ان کے وہاں کام کرنے کے تجربات کے بارے میں بات کی ہے۔ جن ملازمین سے بی بی سی نے بات کی تو انھوں نے 100 سے زیادہ سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے ہیں، جن میں 31 جنسی زیادتی اور 78 الزامات ہراسانی سے متعلق ہیں۔

بی بی سی کو نسل پرستی سے متعلق 18 الزامات سننے کو ملے جبکہ چھ لوگوں نے ’ہومو فوبیا‘ یعنی ہم جنس پرستوں کے خلاف تعصب جیسے الزامات لگائے۔

انتباہ: یہاں ان الزامات کی تفصیلات شیئر کی جا رہی ہیں جو کہ قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔

ملازمین کے دعوؤں کی تفصیلات

چیشائر میں ایک 17 برس کی ملازمہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان سے 20 سال بڑے ان کے ایک ساتھی نے انھیں ان کی نسل پرستی کا طعنہ دیا اور انھیں اپنی اندام نہانی دکھانے کو کہا اور کہا کہ وہ ان کے ساتھ ایک ’بلیک اینڈ وائٹ‘ بچہ پیدا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

اسی طرح ایک سابق ملازمہ جو 17 سال کی تھیں تو اس وقت پلائی ماؤتھ ریسٹورنٹ پر ایک سینیئر مینیجر نے ان کا گلا دبا کر ان کا نچلا حصہ دبوچ لیا۔ ایک شفٹ مینیجر نے انھیں سیکشوئل تصاویر بھیجیں۔

ہیمپشائر میں ایک مینیجر نے ایک 16 برس کے ملازم کو ’ویپس‘ (تمباکو نوشی کے لیے استعمال ہونے والے ویپس) کے بدلے سیکس کا مشورہ دیا۔

ایک مینیجر نے چیشائر کے ایک ریستوران میں 16 سالہ نئی ملازمہ پر جنسی تعلقات کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔

ایک خاتون نے بتایا کہ انھیں ایک خاص گالی دی جاتی ہے اور انھیں میکڈونلڈ کی ابردین برانچ میں نسل پرستانہ مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اسی طرح ایسیکس میں ایک ملازمہ نے بتایا کہ انھیں یہود مخالف جملے سننے کو ملے۔

آکسفورڈ شائر میں ایک انڈین نژاد ملازمہ کا کہنا ہے کہ عملے کے ارکان نے انھیں نامناسب الفاظ سے پکارا اور ایک پاکستانی ساتھی کو دہشت گرد قرار دیا۔

ویلز کی ایک برانچ میں مرد مینیجر اور عملے کے ارکان مذاق ہی مذاق میں یہ شرط لگاتے کہ نئی بھرتی ہونے والی ملازمہ کو اپنے دام میں پھنسا کر ان کے ساتھ پہلے کون سو سکتا ہے۔

شمالی آئرلینڈ کی ایک شاخ میں جنسی تعلقات کے قصے عام ہیں، جہاں جنسی تعلقات کی وجہ سے پھیلنے والی بیماری سوزاک پھوٹ پڑی۔ اس بیماری میں خواتین کی اندام نہانی اور مردوں کے نازک حصوں میں سوزش ہو جاتی ہے۔

متعدد ملازمین نے بی بی سی کو بتایا کہ برطانیہ بھر میں میکڈونلڈز کے مینیجرز ہراساں کرنے اور جنسی حملوں کے ذمہ دار تھے۔

اکثر سینیئر مینیجرز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شکایات پر کسی بھی قسم کی کارروائی عمل میں لانے میں ناکام رہے۔

عملے نے بی بی سی کو مینیجرز اور عملے کے زیادہ جونیئر ملازمین کے درمیان جنسی تعلقات کے بارے میں بھی بتایا ہے، جو خود میکڈونلڈ کمپنی کی پالیسی کے خلاف ہے۔

نوجوان خواتین نے اس احساس کو بیان کیا ہے کہ ان کی شکل و صورت اور شخصیت سے متعلق تبصرے کیے جاتے ہیں۔

ایک ملازمہ نے بتایا کہ جب انھوں نے ناٹنگھم میں اپنی برانچ میں اپنی ملازمت کی شروعات کی تو انھیں ان کے مرد ساتھیوں نے ’تازہ گوشت‘ کہہ کر پکارنا شروع کر دیا۔

دیگر خواتین ملازمین نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں مینیجرز نے انھیں بہت تنگ یونیفارم پہننے پر مجبور کیا۔

22 برس کی لوسی جو نورویچ میں کام کرتی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میکڈونلڈ میں ایک کہاوت مشہور ہے ’ٹِٹس آن ٹِلز‘ یعنی لڑکے کچن میں جبکہ لڑکیاں کاؤنٹر پر ہوں گی۔ اس کا مقصد پُرکشش ملازمین کو صارفین کی نظروں کے سامنے رکھنا ہے۔

20 برس کی ایملی نے بتایا کہ ’یہ توقع کی جاتی ہے کہ اگر آپ میکڈونلڈ میں کام کریں گے تو آپ کو ہراساں کیا جائے گا۔‘ انھوں نے گزشتہ سال برائٹن میں اپنی برانچ اس وقت چھوڑ دی تھی جب 60 برس سے زائد کے ان کے ایک مرد ساتھی نے ان کے بالوں کو جنسی طور پر اشتعال انگیز انداز میں پکڑا، جو انھیں سخت ناگوار گزرا۔

خیال رہے کہ برطانیہ میں میکڈونلڈ نجی شعبے کے سب سے بڑے آجروں میں سے ایک ہے۔ فاسٹ فوڈ کے اس بڑے چین کے 1,450 ریستورانوں پر 170,000 سے زیادہ لوگ کام کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ میکڈونلڈ کا عملہ بھی ملک کی سب سے کم عمر افرادی قوت میں سے ایک ہے۔ اس کمپنی کے تین چوتھائی ملازمین کی عمریں 16 سے 25 سال کے درمیان ہیں۔ بہت سے ملازمین کے لیے ان کی یہ پہلی پہلی ملازمت ہے۔

زیادہ تر ملازمین کمپنی کے ذریعے براہ راست ملازمت اختیار نہیں کرتے کیونکہ میکڈونلڈز فرنچائز سسٹم استعمال کرتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ انفرادی آپریٹرز کو آؤٹ لیٹس چلانے اور عملے کو ملازمت دینے کا لائسنس دیا جاتا ہے۔

’میں خوف میں ملازمت کرنے پر مجبور ہوئی‘

شیلبی صرف 16 سال کی تھیں جب انھوں نے گذشتہ سال برک شائر میں میکڈونلڈز کے ایک ریستوران میں کام کرنا شروع کیا۔

انھوں نے کہا کہ بڑی عمر کے مرد ساتھی تنگ کچن کے بہانے جونیئر خاتون عملے کو نامناسب طریقے سے چھوتے تھے۔

شیلبی نے مزید بتایا کہ ’وہ پیٹ، کمر اور جسم کے دیگر اعضا جیسے کولہوں کو پکڑتے۔‘ ان کے مطابق ’میں نے جس بھی شفٹ میں کام کیا، کم از کم ایک تبصرہ ضرور سننے کو ملا یا میرے جسم پر ہاتھ پھیرا گیا یا اس سے بھی زیادہ سنگین چیز جو تھی وہ یہ کہ وہ میرے جسم کے مخصوص اعضا کو پکڑ لیتے۔‘

شیلبی نے کہا کہ مینیجرز نے عملے کے نوجوان ملازمین کو خبردار کر رکھا تھا کہ وہ زیادہ عمر کے ملازمین سے دور رہیں۔ انھوں نے 50 برس سے زائد عمر کے ایک ملازم کا قصہ سنایا۔

ان کے مطابق گزشتہ موسم گرما میں ایک دن وہ سامنے کاؤنٹر پر کھڑی تھیں، جب وہ شخص ان کے پیچھے آیا اور انھیں زور سے پکڑ کر اپنی کمر پر کھینچ لیا۔

ان کے مطابق ’میں جیسے ساکت ہو کر رہ گئی، مجھے یہ سب ناگوار محسوس ہوا۔‘

شیلبی کا کہنا ہے کہ انھوں نے سینیئر انتظامیہ کو بتایا کہ سٹور میں کیا ہو رہا ہے، لیکن اس بارے میں کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ انھوں نے اپنا استعفیٰ ای میل کیا اور اس میں خاص طور پر اس ماحول کا ذکر کرتے ہوئے اسے کام کے لیے ایک زہریلا ماحول قرار دیا۔

میکڈونلڈ نے کہا کہ شیلبی کے ساتھ جو ہوا اس کے بارے میں سن کر ’بہت افسوس‘ ہوا۔ کمپنی نے مزید کہا کہ وہ اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ شیلبی نے جن مسائل کو اجاگر کیا ہے انھوں نے ان مسائل کو اس وقت باضابطہ طور پر کیوں نہیں سامنے لایا۔

مینیجرز چشم پوشی کر رہے تھے

چیشائر میں 17 برس کی چنیری کو ان کی عمر سے ایک بہت بڑے ملازم نے جنسی اور نسلی طور پر ہراساں کیا۔ انھوں نے ابتدائی طور پر اس معاملے کا ذکر ایک خاتون ساتھی سے کیا، جو عملے کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کی ذمہ دار بھی تھیں۔

انھوں نے چنیری کو مشورہ دیا کہ وہ اس ملازم کے رویے کو نظر انداز کر دیں اور اپنا کام جاری رکھیں۔

مہینوں کی ہراسانی کا شکار رہنے کے بعد چنیری نے اپنے سوتیلے والد سے اس متعلق بات کی جنھوں نے فرنچائز، میکڈونلڈ کے ہیڈ کوارٹرز اور پولیس کو اس بارے میں تحریری شکایت بھیجی۔ اس کے بعد اس ملازم کو نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔

چنیری کا خیال ہے کہ اگر ان کے سوتیلے والد اس معاملے میں مداخلت نہ کرتے تو کچھ بھی نہ ہوتا۔

میکڈونلڈ نے اپنے تجربات کو ’قابل نفرت اور ناقابل قبول‘ قرار دیا اور اس پر معذرت بھی کی۔ کمپنی کے مطابق ’جیسے ہی یہ مسئلہ ہمارے علم میں آیا تو ہم نے فوری کارروائی کی اور اس شخص کو تین دن کے اندر برخاست کر دیا گیا۔‘

میکڈونلڈ نے اپنی وضاحت میں مزید بتایا کہ ’بات کرنے کے لیے بہت ہمت کی ضرورت ہوتی ہے اور جیسے ہی ہمیں صورتحال سے آگاہ کیا گیا تو ہم نے چنیری کو ہر طرح کی مدد کی پیشکش کی۔‘

برمنگھم میں ایک اور ملازمہ کا کہنا ہے کہ جب وہ 19 برس کی تھیں تو ایک مرد ساتھی نے ان کے جسم کے نچلے حصے پر نامناسب انداز میں زور سے مارا۔ انھوں نے فوری طور پر اپنے مینیجر کو اس کی اطلاع دی۔ لیکن اس کے باوجود کہ یہ سب کیمرے میں محفوظ ہو گیا اور ان کے جسم پر زخموں کے نشان واضح نظر آنے کے باوجود انھیں اس ملازم کے ساتھ کام جاری رکھنے پر مجبور کیا گیا، جس کی وجہ سے وہ اس قدر بے چین ہوگئیں کہ آخر کار انھوں نے ملازمت کو ہی خیرباد کہہ دیا۔

کئی ملازمین نے یہ بھی کہا کہ جب مینیجرز کے بارے میں شکایات کی گئیں تو انھیں نوکری سے نکالنے کے بجائے فرنچائز کے اندر موجود ایک میکڈونلڈ ریسٹورنٹ سے دوسرے میں منتقل کر دیا گیا۔

دیگر ملازمین نے کہا کہ انھوں نے شکایت نہیں کی کیونکہ وہ ملازمت کھو جانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ میکڈونلڈز کا نوجوان عملہ اکثر اوقات ’زیرو آورز‘ کے معاہدوں پر ملازمت کرتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے اوقات کار لچکدار ہوتے ہیں، لیکن یہ بھی کہ وہ شفٹ مینیجرز کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جو ان کی ملازمت کے اوقات طے کرتے ہیں۔

فروری میں کیے گئے معاہدے میں میکڈونلڈ نے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے پر زیرو ٹالرینس کی پالیسی کے اطلاق کا عہد کیا اور ملازمین کے لیے خاص تربیتی پروگرام شروع کرنے کا بھی اعلان کیا۔

لیکن عملے نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ مینیجرز ٹریننگ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔

ای ایچ آر سی کی چیئر وومن بیرونس کشور فالکنر نے کہا ہے کہ ہر فرم کو جنسی ہراسانی سے متعلق زیرو ٹالرینس کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے اپنی افرادی قوت کی حفاظت یقینی بنانا چاہیے۔

میکڈونلڈ کے اس ماحول پر عالمی سطح پر تحقیقات ہوئی ہیں۔ امریکہ میں میکڈونلڈ کو ملازمین کی طرف سے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات پر کئی ملین ڈالر کے مقدمات کا سامنا ہے۔

میکڈونلڈ کے چیف ایگزیکٹو سٹیو ایسٹر بروک کو سنہ 2019 میں اس وقت برطرف کر دیا گیا جب یہ انکشاف ہوا تھا کہ ان کے میکڈونلڈز کے ملازمین کے ساتھ نامناسب تعلقات تھے۔

میکڈونلڈ پر جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے الزامات پانچ سال پہلے برطانیہ میں اس وقت سامنے آئے جب بیکرز، فوڈ اینڈ الائیڈ ورکرز یونین کا کہنا تھا کہ اسے 1,000 شکایات موصول ہوئیں۔ اس وقت الزامات بہت کم تعداد میں رپورٹ ہوتے تھے۔ اس کی وجہ شاید معاہدے میں رازداری سے متعلق شقیں بھی ہو سکتی ہیں۔

یونین کی جنرل سیکریٹری سارہ وولی نے کہا کہ بی بی سی کی جانب سے سامنے آنے والے نئے الزامات ’حیران کن‘ ہیں۔

برطانیہ اور آئرلینڈ میں میکڈونلڈ کے چیف ایگزیکٹیو الیسٹر میکرو نے کہا کہ کمپنی میں ’صرف ہراساں کرنے، بدسلوکی یا امتیازی سلوک کی کوئی جگہ نہیں۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میکڈونلڈ برطانیہ میں 177,000 ملازمین میں سے ہر ایک محفوظ، باعزت اور سب کے لیے برابری کے مواقع والی جگہ پر کام کرنے کا مستحق ہے۔ ان کے مطابق ’واضح طور پر ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں ہم نے کوتاہی کی ہے اور اس کے لیے ہم دل کی گہرائیوں سے معذرت خواہ ہیں۔‘

ان کے مطابق ’ہم تمام الزامات کی تحقیقات کریں گے اور الزامات ثابت ہونے کی صورت میں ذمہ داران کے خلاف سخت ترین اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

الیسٹر میکرو نے کہا کہ 2,000 سے زیادہ مینیجرز نے آگاہی سے متعلق تربیت مکمل کر لی ہے اور زیادہ تر ریستوران پر ٹیمیں اب محفوظ ماحول میں کام کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق اس سب کا مقصد ملازمین کو ایک محفوظ اور باعزت کام کی جگہ فراہم کرنا ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ کمپنی کے پاس اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سخت قوانین ہیں کہ دنیا بھر میں اس کے کام کی جگہیں محفوظ اور قابل احترام ہیں۔