آئیے آپ کو سب سے پہلے ماضی میں لے چلتے ہیں اور سنہ 1970 کی بات کرتے ہیں۔ اس سال مارچ میں معروف امریکی نیوروسرجن رابرٹ جے وائٹ نے ایک غیر معمولی آپریشن کیا تھا۔
امریکہ کی ریاست اوہایو کے دارالحکومت کلیولینڈ کے ایک ہسپتال میں وائٹ نے پہلی مرتبہ ایک آپریشن میں ایک بندر کا سر دوسرے بندر کے دھڑ سے جوڑنے کا کامیاب آپریشن کیا تھا۔
یہ آپریشن 18 گھنٹوں پر محیط تھا۔ جب اس بندر نے آنکھیں کھولیں تو یہ دیکھ، سن، سونگھ اور یہاں تک کہ کاٹ بھی سکتا تھا۔
اس خبر سے دنیا بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دنیا کی پہلی دماغ یا سر کی پیوندکاری تھی جو کامیابی سے کی گئی تھی۔
وائٹ انتہائی مذہبی شخص تھے اور وہ میڈیکل بائیو ایتھکس پر دو پوپس کے مشیر بھی رہ چکے تھے۔ اس لیے انھوں نے اس آپریشن کو ’باڈی ٹرانسپلانٹ‘ قرار دیا۔ ان کا ماننا تھا کہ دماغ میں انسان کی روح موجود ہوتی ہے اور اسے دوسرے جسم میں منتقل کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔
تاہم یہ کامیابی تھوڑے عرصے کے لیے ہی تھی کیونکہ یہ بندر صرف چند روز ہی زندہ رہ سکا۔ وائٹ نے اس حوالے سے اپنا کام جاری رکھا اور سینکڑوں تجربات کیے اور اپنی پریکٹس کے آخری دنوں تک وہ بندر پر کیے گئے اس تجربے کو انسانوں میں دہرانے کا خواب دیکھتے تھے۔
وائٹ کا ایک کلائینٹ جو معذور تھا اور بہتر جسم کا خواہش مند تھا وہ بھی ایسے ہی ٹرانسپلانٹ کا خواہشمند تھا لیکن اس کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو سکا۔ وائٹ وہ اکیلے ڈاکٹر نہیں تھے جنھوں نے انسانی دماغ کا ٹرانسپلانٹ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اس حوالے سے سب سے زیادہ کامیاب ضرور تھے۔
ان کی جانب سے متعارف کروائے گئے مختلف سرجیکل پروسیجرز آج بھی زندگیاں بچانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
تاہم ان کے کام پر سخت تنقید بھی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وائٹ اس صنعت کی علامت کے طور پر سامنے آئے تھے جس میں زندہ جانوروں پر تجربات کی غرض سے آپریشن کیے جاتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انھیں نوبیل انعام بھی نہیں مل سکا۔
ریڑھ کی ہڈی سے دماغ جوڑنے کے مسئلے؟
سائنس میں ہونے والی ترقی کے باوجود ہم تاحال انسانی دماغ کی پیوندکاری کرنے میں ناکام ہیں۔
اس کی وجہ ایک ایسا مسئلہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اب تک کوئی بھی کسی انسان کی ریڑھ کی ہڈی سے کوئی نیا عضو جوڑنے میں کامیاب نہیں ہوا۔
وائٹ کے تجربات میں بندر آپریشن کے بعد گردن سے نیچے مکمل طور پر مفلوج ہو جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے انسانی کلائینٹ کے طور پر ایک کواڈری پلیجک یعنی پہلے سے معذور جسم والے شخص کا انتخاب کیا تھا۔
انسانی دماغ کو اکثر افراد کی جانب سے ’کائنات کی سب سے پیچیدہ چیز‘ قرار دیا جاتا ہے۔ دماغ کے ذریعے کروڑوں کنکشنز قائم کیے جاتے ہیں جن سے جسم کے تمام فنکشنز کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔
کنکشنز کے اس پورے جال کو دوبارہ اسی باریکی اور نفاست سے جوڑنا تاحال ہماری پہنچ میں نہیں ہے۔ اگر ہم ٹرانسپلانٹ کر بھی لیں تو ہماری یادداشت کا کیا ہو گا؟ ہمارے جذبات اور وہ سب کچھ جو اب تک ہم سیکھ چکے ہیں اس کا کیا ہو گا؟
یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے کیونکہ ہم اس بات پر رضامند ہیں کہ دماغ وہ عضو ہے جس میں ہماری شناخت چھپی ہے۔
اضافی نیورونز
کیونکہ اس وقت مکمل دماغ کو کامیابی کے ساتھ ٹرانسپلانٹ کرنا ممکن نہیں ہے تو شاید ہمیں اپنی توقعات پر نظرِثانی کرتے ہوئے اس کی خود کو ری ماڈل کرنے کی صلاحیت کے بارے میں مزید سوچا سکتا ہے۔
مشکل صورتحال میں لچک کا مظاہرہ کرنے سے ہم مختلف چیلنجز کو عبور کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہمارے دماغ میں بھی خود کو تبدیل کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ دماغ اپنے نیورنز میں کنکشنز کو تبدیل کر کے اپنے آپ میں تبدیلی لاتا ہے۔
اس صلاحیت کو پلاسٹیسٹی کہا جاتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم کیسے ایک ریاضی کی اکویشن حل کرنا سیکھتے ہیں، کسی چیز کا نام یاد کرتے ہیں یا ایسی یادوں کو دماغ سے خارج کرتے ہیں جو ہمارے لیے مفید نہیں ہوتیں۔
اس سے ہمیں کچھ کیسز میں دماغی چوٹوں سے صحتیاب ہونے میں مدد ملتی ہے۔
تاہم دماغ کی پلاسٹیسٹی کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ یہ پارکنسنز اور الزاہیمرز جیسی بیماریاں کو چھپا سکتی ہے اور ان پر کئی سالوں یا دہائیوں تک کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ یوں دماغ بیماری کے باعث ہونے والے نقصان پر کنٹرول نہیں کر پاتا۔
ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ نیورونز کا کنکشنز تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن کیا یہ دوبارہ بن سکتے ہیں یا نہیں؟
اکثر افراد اس بات کا یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم وقت کے ساتھ اعصابی خلیے کھو دیتے ہیں اور پھر ان کا متبادل لانا ممکن نہیں ہوتا۔
اس موضوع پر مباحثے ہوتے رہتے ہیں لیکن ہمیں اب یہ معلوم ہو چکا ہے کہ یہ درست نہیں ہے اور دراصل ایسا ممکن ہے۔
ہمارے دماغ میں سٹیم سیلز موجود ہوتے ہیں جو ہر روز نئے نیورونز بنانے کا باعث بنتے ہیں۔
اس پراسس کو نیورجینیسس کہا جاتا ہے اور اس حوالے سے معلوم ہونے کے بعد سے نیوروسائنس کے شعبے میں انقلاب برپا ہوا۔
بدقسمتی سے یہ صلاحیت کسی انسانی دماغ کے مخصوص حصوں میں پائی جاتی ہے۔ ان میں سے ایک ہپوکیمپس ہے جو سیکھنے اور یاد رکھنے کے عمل میں شامل ہوتا ہے۔
تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ نئے نیورونز کی پیداوار خود بھی بڑھائی جا سکتی ہے۔
ورزش اور اینٹی آکسیڈینٹس سے بھرپور کھانے پینے کی اشیا کھانے سے اس پراسیس میں بہتری آتی ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ موٹاپا، بڑھاپہ اور نیوروڈی جینریٹو بیماریاں اس عمل کو سست کر دیتا تھا۔
اس لیے ان نیورونز کی پیداوار کو دوبارہ سے ایکٹیویٹ کرنے کے لیے تاکہ دماغ انھیں دوبارہ جینریٹ کر سکے اب سائنس کا ایک اہم مقصد بن چکا ہے۔
نیورون ٹرانسپلانٹ
یہ وہ عمل ہے جس کے ذریعے ہم ٹرانسپلانٹ کے خواب کی تعبیر کو پورا کر سکتے ہیں اور اس مرتبہ بہتر نتائج اور کامیابیوں کی امید کر سکتے ہیں۔
اس حوالے سے آئیڈیا بہت بنیادی ہے اور یہ ہے کہ جب نیورونز ختم ہو جائیں تو ہم ان کے متبادل کے طور پر دوسرے نیورونز داخل کر دیں۔ اور یہ جان کر شاید آپ کو حیرانی ہو کہ ہم یہ کام کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں۔
یہ عمل اعصابی بیماریوں کے علاج کا اہم ذریعہ بنتا ہے لیکن میں اس بیماری کی بات کروں گی جس کے بارے میں میں سب سے بہتر جانتی ہوں اور وہ ہے پارکنسنز کی بیماری۔
یہ بیماری ان نیورونز کے خاتمے کے باعث ہوتی ہے جو ڈوماین پیدا کرتے ہیں۔ اس کے بغیر دماغ میں ہلچل مچ جاتی ہے جس سے دماغی موٹرز سے متعلق مختلف مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
اس نقصان کو مرمت کرنے کے لیے نیورونز کی ٹرانسپلانٹ کی گئی جو یہ اہم نیوروٹرانسمٹر کی پیداوار کا کام دیتے ہیں۔ اس کے نتائج لیبارٹری میں جانوروں پر بہترین تھے اور اکثر مریضوں میں بھی اس کے اچھے نتائج دیکھنے کو ملے۔
تاہم یہ صرف تجربے کی حد تک ہی تھے۔ اس عمل کو کلینکل پریکٹس میں لانے سے پہلے متعدد مسائل کا حل ڈھونڈنا بھی ضروری ہے۔
ہمیں نیورونز کے ایسے ذریعے کی ضرورت ہے جسے آسانی سے استعمال کیا جا سکے۔ اس وقت اسے جنین کے ٹشو سے نکالا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کی مقدار قدرتی طور پر محدود ہے۔
ایک مریض میں ایسے ہزاروں خلیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر ہم دیکھیں کہ کتنے افراد ان بیماریوں سے متاثر ہوتے ہیں تو یہ تعداد کروڑوں میں ہے۔
اس ضمن میں سٹیم سیلز کی صورت میں ایک اچھا ذریعہ دستیاب ہے۔
ہمیں یہ امید بھی رکھنی ہے کہ نیورونز صحت مند رہیں اور اپنے اردگرد موجود خلیوں سے جڑیں۔ جب تک ہم اس مرحلے تک پہنچیں ہمیں یہ بھی دعا کرنی ہو گی کہ دماغ کی نیورونز بنانے کی صلاحیت بھی اتنی ہی رہے۔
تاہم اس حوالے سے ہمیں سائنس پر بھروسہ کرنا ہو گا، کیونکہ وہ بھی ہمارے دماغ کی طرح انتہائی لچکدار ہے۔
جینیٹ راڈریگوئز پالاریز یونیورسٹی آف سینٹیاگو ڈی کومپوسٹیلا سپین میں ہیومن انیٹومی اور ایمبریولوجی کی پروفیسر ہیں۔
یہ تحریر دی کانورسیشن ویب سائٹ پر شائع ہوئی تھی اور اسے کریئیٹو کامنز لائسنس کے تحت دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔