اہم خبریں

میجر لیگ کرکٹ کیا ہے جس کے لیے پاکستان کے بہترین کرکٹرز ’امریکہ آنا چاہتے ہیں‘

امریکہ میں پہلی بار ایک بڑی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ لیگ 13 جولائی سے شروع ہونے جا رہی ہے جس کی چھ فرنچائزز میں کئی ملکوں کے کھلاڑی شامل ہیں۔

میجر لیگ کرکٹ (ایم ایل سی) نامی اس امریکی لیگ کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں وہ کرکٹرز بھی شامل ہیں جو ماضی میں اپنے ملکوں کی نمائندگی کرنے کے بعد اب بطور امریکی ڈومیسٹک کھلاڑی کھیلیں گے۔

ان ٹیموں کے سکواڈز میں آپ کو ایسے کئی نام نظر آئیں گے جو پہلے پاکستان کے لیے کھیل چکے ہیں مگر اب امریکہ میں مقیم ہیں اور بطور امریکی ڈومیسٹک کھلاڑی اپنے کیریئرز کو آگے لے کر چل رہے ہیں۔ جیسے احسان عادل، حماد اظہر، سمیع اسلم، مختار احمد وغیرہ۔

اس کے علاوہ ایم ایل سی میں انڈین انڈر 19 ٹیم کے دو سابقہ کھلاڑی ہرمیت سنگھ اور انمکت چند، اور نیوزی لینڈ کے سابق آل راؤنڈر کوری اینڈرسن بھی نظر آئیں گے۔

’پاکستان کے بہترین کرکٹرز امریکہ آنا چاہتے ہیں‘

13 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے سمیع اسلم اب امریکہ میں ٹیکنالوجی کے مرکز سیلیکون ویلی میں رہتے ہوئے اور وہ میجر لیگ کرکٹ میں ٹیکساس سپر کنگز کے لیے کھیلیں گے۔

انھوں نے کرکٹ پاکستان کو دیے ایک انٹرویو میں بتایا کہ امریکہ آنے کے لیے ان سے کئی پاکستانی کرکٹرز نے رابطہ کیا ہے جو کہ ’پاکستانی کرکٹ کی ناکامی‘ ہے۔

سمیع اسلم کہتے ہیں کہ پاکستان میں صرف پی ایس ایل کھیلنے والے کھلاڑی خود کو مالی طور پر مستحکم سمجھتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’پاکستان کے بہترین کھلاڑی امریکہ آنا چاہتے ہیں‘ اور یہیں کرکٹ کھیل کر مالی طور پر مستحکم ہونا چاہتے ہیں۔

وہ مثال دیتے ہیں کہ حال ہی میں ’20 سے 30 پاکستانی ڈومیسٹک کرکٹر نے واشنگٹن میں ایک ٹورنامنٹ میں حصہ لیا۔ ایک ہفتے کے ٹورنامنٹ میں بندہ اتنے پسے کما لیتا ہے جتنے فور ڈے کے تین سے چار ماہ کے سیزن میں کماتا ہے۔‘

وہ یاد کرتے ہیں کہ ان کا امریکہ جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے دوروں کے لیے پاکستانی سکواڈ میں نام نہ آنے پر انھیں مایوسی ہوئی جس کے بعد انھیں یہ فیصلہ لینا پڑا۔

’میں سمجھ گیا تھا کہ اب انھوں نے مجھے نہیں کھلانا۔ پاکستان میں صرف وہی چل سکتا ہے جس کے پاس (طاقتور حلقوں کی) سپورٹ ہے۔‘

سمیع اسلم کہتے ہیں کہ فی الحال انھوں نے امریکہ کی نمائندگی کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے مگر وہ اب دوبارہ پاکستان کے لیے کھیلنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ ’افسوس ضرور ہوتا ہے کہ میں پاکستان کے لیے لمبا کھیل سکتا تھا۔‘

’یہ میری پوری زندگی کے لیے بہت بڑا فیصلہ تھا۔ کرکٹ کے لیے ہی تعلیم کی قربانی دی تھی۔ جب امریکہ آیا تو بڑے سوال کھڑے ہوئے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ امریکہ میں کرکٹ ’پاکستان جیسی تو نہیں‘ مگر وہ اپنے فیصلے پر خوش ہیں۔

میچر لیگ کرکٹ کیا ہے؟

میجر لیگ کرکٹ امریکہ کی ایک نئی ٹی ٹوئنٹی لیگ ہے جس کا پہلا سیزن 13 جولائی سے شروع ہو رہا ہے۔

آخری بار امریکہ کی مردوں کی قومی ٹیم نے 2004 میں آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔ اس کے بعد سے امریکہ کبھی کسی آئی سی سی ٹورٹنامنٹ میں جگہ نہیں بنا سکا۔

مگر اب امریکہ ویسٹ انڈیز کے ساتھ 2024 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی میزبانی کر رہا ہے اور اس میں امریکی ٹیم بھی حصہ لے گی۔

اسی تناظر میں سمیر مہتا اور وجے سرینواسن نے جنوری 2019 میں میجر لیگ کرکٹ کی بنیاد رکھی جو کہ شمالی امریکہ کے سب سے بڑے کرکٹ براڈکاسٹر ویلو ٹی وی کے بھی بانی ہیں۔

کرک انفو کے مطابق اس لیگ کو انڈیا کے ٹائمز گروپ کے علاوہ ٹیکنالوجی کمپنی مائیکرو سافٹ کے سی ای او ستیا نادیلا اور ایڈوبی کے سی ای او شنتانو ناریان کی سرمایہ کاری حاصل ہے۔

میجر لیگ کرکٹ کی چھ میں سے چار ٹیموں کی مالک آئی پی ایل کی فرنچائزز ہیں۔ اس میں شاداب خان، حارث رؤف اور عماد وسیم جیسے پاکستانی کرکٹرز بھی حصہ لے رہے ہیں۔

ایم ایل سی کا مقصد ’امریکی کرکٹ ٹیم کو مضبوط بنانا‘

امریکہ آئی سی سی کا ایسوسی ایٹ ممبر ہے اور اسے فُل ممبرز کے مقابلے سالانہ بجٹ میں تھوڑا سا حصہ ملتا ہے۔

ایم ایل سی کے شریک بانی سرینواسن نے بی بی سی سپورٹ کو بتایا کہ ’امریکہ میں کھیلوں کے فینز دنیا کے بہترین کھلاڑی دیکھنا چاہتے ہیں۔ امریکہ میں پیشہ ورانہ کھیلوں میں یہی مطالبہ کیا جاتا ہے۔

’وہ کوئی دوسرے درجے کا ٹیلنٹ نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ بہترین لوگ چاہتے ہیں۔‘

ان کا خیال ہے کہ ایم ایل سی کی جانب سے سرمایہ کاری سے ملک میں کرکٹ کو فروغ ملے گا اور اس سے امریکہ کی قومی ٹیم کو بھرپور فائدہ ہوگا۔

اس کے میچ دو گراؤنڈز میں ہوں گے: ٹیکساس اور شمالی کیرولائنا۔ لیگ میں چھ ٹیمیں یا فرنچائز ہیں جن کے مالکوں نے امریکہ میں نئے سٹیڈیم تعمیر کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

اس ٹورنامنٹ کے ذریعے امریکہ کے ڈومیسٹک کھلاڑیوں کو بھی اعلیٰ سطح پر کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔

سری نواسن نے کہا ہے کہ ’ہم نے ایک چیز کی نشاندہی کی ہے کہ امریکہ میں کرکٹ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوگی جب تک امریکہ کی اپنی مضبوط کرکٹ ٹیم نہیں بنتی۔‘

’یہ صرف اس حد تک نہیں کہ ہم ہر 12 ماہ بعد لیگ کروائیں۔۔۔ ہم اس لیے سٹیڈیم نہیں بنا رہے کہ ہر سال ایک بار ایم ایل سی ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ کی مردوں، خواتین اور انڈر 19 ٹیمیں ان جگہوں پر کھیلیں جہاں دنیا کے بہترین لوگ ان کا مقابلہ کر رہے ہوں گے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جب 2024 کے دوران امریکہ میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہو رہا ہوگا تو یہ یقینی بنایا جائے گا کہ امریکہ باقی دنیا کو کڑا مقابلہ دے۔

امریکی کرکٹ لیگ میں انگلش کھلاڑیوں کی بھی مانگ

میجر لیگ کرکٹ نے کہا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے ایڈیشنز کے لیے انگلینڈ کے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ معاہدے کرنا چاہتے ہیں۔ مگر اس لیگ کے بانیوں کا کہنا ہے کہ اسے انگلش کرکٹ کے لیے کوئی خطرہ سمجھنا ’تنگ نظری‘ ہوگی۔

اس لیگ میں لیئم پلنکٹ اور جیسن رائے جیسے انگلش کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں۔

انگلش اوپنر جیسن رائے نے انگلینڈ اور ویلز کے کرکٹ بورڈ کے ساتھ اپنا 60 سے 70 ہزار پاؤنڈز کا معاہدہ ختم کر کے میجر لیگ کرکٹ میں شمولیت اختیار کی جہاں اب وہ ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈز تک کما سکتے ہیں۔

32 سال کے رائے نے اس سے قبل انگلینڈ کے لیے کھیلنے کو اپنی ترجیح کہا تھا۔ مگر مختلف کرکٹ لیگز کی جانب سے انھیں پیشکش کی گئی جس نے انھیں اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کیا۔ یہ لیگ انگلش کرکٹ سیزن کے وقت پر منعقد ہو رہی ہے اور اسے اب انگلش ٹیم اور کاؤنٹی کرکٹ کے لیے خطرہ بھی سمجھا جا رہا ہے۔

تاہم سرینواسن نے اس کی تردید کی ہے کہ میجر لیگ کرکٹ کسی ملک میں اس کھیل کے لیے کوئی خطرہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کے بہترین کھلاڑی یہاں کھیلیں۔۔۔ عالمی کرکٹ کیلینڈر میں جگہ بنانی ہوگی تاکہ بہترین کھلاڑیوں کے لیے آسانی پیدا ہو۔‘