اہم خبریں

مُردوں کے فوٹوگرافر: ’میرا کام تھا ایک لاش کو کرسی پر بٹھا کر سیدھا رکھنا‘

انتباہ: اس خبر میں ایسی تصاویر اور تفصیلات شامل ہیں جو قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔

رویندرن کی عمر اس وقت صرف 14 سال تھی جب اُن کے والد سری نواسن، جو ایک فوٹوگرافی سٹوڈیو چلاتے تھے، نے ان کو ایک کام سونپا۔

یہ 1972 کا واقعہ ہے۔ رویندرن اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے اس پہلے دن پر کام کی نوعیت کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’میرا کام تھا ایک لاش کو کرسی پر بٹھا کر سیدھا رکھنا۔‘

’پھر مجھے اس مردے کی پلکوں کو بھی کھولنا پڑا تاکہ فوٹوگرافر تصویر بنا سکے۔‘

رچرڈ کینیڈی کی عمر صرف نو سال تھی جب ان کو بھی ایسے ہی پریشان کن تجربے سے گزرنا پڑا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ ایک کرسی کے پیچھے سفید کپڑا پکڑ کر کھڑے ہوں جس پر ایک لاش کو بٹھایا گیا تھا۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں خوفزدہ تھا اور کپکپا رہا تھا۔ اس رات میں سو نہیں سکا۔ کئی دن تک مجھے بار بار ڈراؤنا خواب آتا رہا جس میں وہ مردہ شخص دکھائی دیتا۔ یہ بہت بھیانک تھا۔‘

یہ دونوں افراد صرف اس لیے فوٹوگرافر بنے تھے کیوں کہ ان دونوں کے ہی والد فوٹو سٹوڈیوز کے مالک تھے۔ ان دونوں نے اب تک ایک ہزار سے زیادہ مردہ افراد کی تصاویر کھینچی ہیں۔

ایک زمانے میں انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو میں مردہ لوگوں کی تصاویر بنوانے کا رواج عام ہوا کرتا تھا کیوں کہ بہت سی مقامی برادریوں کا ماننا تھا کہ تصویر کھنچوانے سے عمر کم ہو جاتی ہے لہذا بہت سے لوگوں کی پہلی تصویر صرف اسی وقت کھینچی جا سکتی تھی جب وہ مر چکے ہوں۔

اس مخصوص کام میں مہارت رکھنے والے فوٹوگرافر اب کم ہی بچے ہیں جن میں رویندرن اور رچرڈ بھی شامل ہیں۔

ان دونوں افراد نے بی بی سی سے اپنے غیر معمولی پیشے کے بارے میں بات کی جو عجیب تو تھا لیکن 1970 اور 1980 کی دہائی میں اس کام میں بہت پیسہ ہوا کرتا تھا۔

رویندرن کہتے ہیں کہ کم عمری میں ان کو یہ کام ناپسند تھا لیکن وہ پڑھائی چھوڑنا چاہتے تھے اور یہ ایک اچھا بہانہ تھا۔

’چند ماہ کی تربیت کے بعد میں مردہ لوگوں کی تصویر اکیلے ہی لینے کے قابل ہو گیا۔‘

رفتہ رفتہ رویندرن اس پیشے میں جدت بھی لائے اور انھوں نے نئی تکنیک متعارف کروائی جیسا کہ لاش کے سر کو تکیے کی مدد سے سہارا دینا، کپڑوں کو درست کرنا اور پس منظر کو تبدیل کرنا۔

’میں نے اپنے خوف سے جنگ کی اور مجھے اپنا کام اچھا لگنا شروع ہو گیا۔ میں تصویر میں لاش کو خوبصورت بناتا اور اسے حقیقی روپ دیتا تھا۔‘

رچرڈ کینیڈی اپنے والد کے ہمراہ تمل ناڈو کے دارالحکومت چنائی سے 350 کلومیٹر دور یرکاڈ ہلز پر کام کے لیے جایا کرتے تھے۔

ان کے لیے سب سے مشکل تجربہ وہ تھا جب انھیں ایک نوزائیدہ بچے کی لاش کی تصویر کھینچنا پڑی تھی۔ ’والدین کا برا حال تھا۔ اس کی ماں روئے جا رہی تھی۔‘

لیکن جب رچرڈ اور ان کے والد کیمرہ لے کر پہنچے تو ماں نے اپنے بچے کو غسل دے کر نئے کپڑے پہنائے اور اس کا میک اپ بھی کیا۔

رچرڈ کو یاد ہے کہ ’وہ بچہ کسی گڑیا جیسا لگ رہا تھا۔ ماں نے بچے کو گود میں لیا اور میں نے تصویر کھینچی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے بچہ سو رہا ہے۔ یہ کافی جذباتی لمحہ تھا۔‘

مردہ افراد کی آخری رسومات کی تصاویر بھی لی جاتی تھیں جیسا کہ لاش کو غسل دینے اور اسے پھولوں سے سجانے کی رسموں کی۔ چند خاندان تو ایک یا دو تصاویر کھنچوا کر خوش ہو جایا کرتے تھے لیکن کچھ کے مطالبات زیادہ ہوتے۔

رویندرن بتاتے ہیں کہ ’میں نے ایک بار اس لمحے کی تصویر بھی لی جب لاش کو قبر میں اتارا جا رہا تھا۔‘

ان کے پاس اس کام کے لیے زیادہ وقت بھی نہیں ہوتا تھا۔ اکثر خاندانوں کا مطالبہ ہوتا کہ انھیں اگلے ہی دن رسومات کے لیے فریم ہوئی فوٹو درکار ہے تو رات بھر جاگ کر فوٹو کا پرنٹ تیار کرنا پڑتا۔

رویندرن اور رچرڈ کے پاس پرانے کیمرے تھے جن سے بلیک اینڈ وائٹ فوٹو بنتی تھی۔ ان کے زیادہ تر گاہک ہندو اور مسیحی ہوتے تھے جن میں سے چند نے اب تک عبادت کرنے والے کمروں میں مردہ رشتہ داروں کی تصاویر رکھی ہوئی ہیں۔

رچرڈ پولیس کے لیے بھی کام کرتے تھے۔ انھیں جرائم کے متاثرین، خودکشی یا حادثات میں ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کی تصاویر لینا پڑتی جن میں سے کئی کے جسم کٹے پھٹے ہوتے۔

’یہ بہت پریشان کن ہوتا تھا۔ اکثر میں کھا نہیں پاتا تھا یا سو نہیں سکتا تھا۔‘ ان کی تصاویر بعد میں عدالت میں بطور ثبوت پیش کی جاتیں اور مقتولین کے خاندان ان کی مدد سے حکومتی امداد حاصل کر لیتے تھے۔

یہ فوٹوگرافر مردہ افراد کی تصاویر بنانے کے لیے دگنا معاوضہ لے سکتے تھے اور مرنے والوں کے عزیزوں سے ٹپ بھی مل جایا کرتی۔ لیکن ان کے کام سے معاشرتی رسوائی بھی جڑی تھی۔

رچرڈ بتاتے ہیں کہ ’بہت سے لوگ کسی اور کام کے لیے میری خدمات حاصل کرنے سے ہچکچاتے تھے۔‘

رویندرن کا ہندو خاندان موت سے منسلک مقامات کو ناپاک سمجھتا ہے۔ ان کو اسی لیے گھر یا سٹوڈیو میں داخل ہونے سے قبل لازمی اشنان یا غسل کرنا ہوتا ہے۔

’مجھے ہر بار غسل لینا ہوتا تھا۔ میرے والد تو سٹوڈیو کے اندر لے جانے سے پہلے میرے کیمرہ پر بھی کچھ پانی چھڑکتے تھے۔‘

موت کے بعد تصاویر کھنچوانے کا رواج اور بھی ملکوں میں رہا ہے۔ انیسویں صدی میں لوگ اپنے مر جانے والے بچوں یا دیگر رشتہ داروں کے ساتھ تصاویر بنوایا کرتے تھے۔

ایسی تصاویر خاندانوں کے لیے مر جانے والوں کو یاد کرنے کا ذریعہ ہوا کرتی تھی۔ اس زمانے میں تصویر کھنچوانا بھی ایک مہنگا عمل ہوتا تھا۔

امریکہ میں اکثر مردے کو گھر کے اندر برف کی سل پر لٹا کر تصویر بنوائی جاتی۔ برطانیہ میں وکٹورین دور میں بھی مردوں کی تصویر کا رواج تھا۔

بیسویں صدی میں یہ رواج دم توڑتا ہوا غائب ہوتا چلا گیا۔ شاید نظام صحت میں بہتری اور دراز عمری کی وجہ سے لیکن تمل ناڈو، مغربی بنگال، اوڈھیسہ اور وارانسی جیسی کئی انڈین ریاستوں میں یہ رواج کافی عرصہ تک زندہ رہا۔

رچرڈ ان تصاویر کو امرا میں پورٹریٹ بنوانے کے رواج کا تسلسل سمجھتے ہیں۔ فوٹوگرافی سے پہلے بڑے جاگیردار مصوروں کے ذریعے اپنے پورٹریٹ بنوایا کرتے تھے۔

’فوٹوگرافی اسی روایت کا تسلسل تھا جس کا مقصد کسی کی یاد کو زندہ رکھنا ہوتا تھا۔ لیکن اس وقت صرف امرا کے پاس ہی اتنا پیسہ ہوتا تھا اور بعد میں غریب لوگ بھی تصویر کھنچوا سکتے تھے۔‘

لیکن 1980 میں جب سستے اور باآسانی استعمال ہونے والے کیمروں کی بہتات ہوئی تو لوگوں کے دل سے تصویر کھنچوانے کا خوف دور ہوتا چلا گیا۔ ایسے میں مردہ لوگوں کی تصاویر کی مانگ میں کمی ہوئی اور رچرڈ نے چرچ کی تقریبات اور میلوں کی فوٹوگرافی کرنا شروع کر دی۔

رویندرن نے سکولوں اور عوامی تقریبات پر دھیان دیا اور بعد میں شادی کی تقریبات کے فوٹوگرافر بن گئے۔

اب وہ 60 کے پیٹے میں ہیں اور اپنے والد کے شکر گزار ہیں جنھوں نے ان کو یہ کام سکھایا اور موت کے خوف پر قابو پانے میں بھی ان کی مدد کی۔ لیکن وہ ایک چیز پر واضح ہیں۔

’میں نہیں چاہتا کہ میری موت کے بعد کوئی میری تصویر کھینچے۔‘

رچرڈ اب 54 سال کے ہیں اور انھوں نے اپنے خاندان کے علاوہ مردہ لوگوں کی بہت سی تصاویر رکھی ہوئی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارا خاندان آباواجداد کی تصاویر ہمیشہ سنبھال کر رکھتا ہے۔ میں نے اپنے چھوٹے بیٹے کو کہہ دیا ہے کہ میری موت کے بعد وہ میری لاش کی تصاویر لیکر خاندان کی وراثت کا حصہ بنائے۔‘