اہم خبریں

مودی تیسرے دور حکومت میں انڈیا کو دنیا کی تیسری بڑی معیشت بنانے کی گارنٹی کیسے دے رہے ہیں؟

بدھ کے دن دلی میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک تقریب کے دوران اعلان کیا کہ ان کی حکومت کے تیسرے دور میں انڈیا دنیا کی تین بڑی معیشتوں میں شامل ہو جائے گا۔

انڈیا اس وقت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔

ایسے میں اگر مودی 2024 میں ہونے والے عام انتخابات جیت کر پھر وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو ان کی حکومت کے پاس 2029 تک کا وقت ہوگا۔

تاہم نریندر مودی کے اس اعلان پر طنز کرتے ہوئے کانگریس پارٹی نے کہا ہے کہ ’حکومت بہت چالاکی سے وہ ریکارڈ بنانے کی گارنٹی دیتی ہے جو پہلے سے طے شدہ ہیں۔‘

کانگریس لیڈر جئے رام رمیش نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ’اس دہائی میں انڈیا کے دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت کے طور پر ابھرنے کی پیشگوئی طویل عرصے سے کی جا رہی ہے اور اس کی ضمانت دی گئی ہے – جو بھی اگلی حکومت بنائے گا۔‘

واضح رہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے بھی گزشتہ سال اکتوبر میں اندازہ لگایا تھا کہ انڈیا سال 2027-28 تک دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن سکتا ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ ساتھ عالمی مالیاتی فرم مورگن اسٹینلے نے بھی گزشتہ سال اندازہ لگایا تھا کہ 2027 تک انڈیا امریکہ اور چین کے بعد دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گا۔

اس وقت جاپان کی معیشت تیسرے نمبر پر ہے۔

مودی دور میں انڈیا کی معیشت کہاں سے کہاں پہنچی؟

مودی کے دور حکومت میں انڈیا کی معیشت دنیا کی 10ویں سب سے بڑی معیشت سے پانچویں سب سے بڑی معیشت بنی لیکن اس کی وجہ کیا ہے؟

کسی بھی ملک کی معیشت کے حجم کا تخمینہ اس ملک کا جی ڈی پی یا ترقی کی شرح کو دیکھ کر لگایا جاتا ہے اور پچھلے نو سال میں انڈیا کے جی ڈی پی میں زبردست اضافہ ہوا۔

تاہم کانگریس کے دور حکومت یعنی 2010 میں سب سے زیادہ جی ڈی پی کی شرح نمو 8.5 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جبکہ کورونا وبا کے دور میں، دنیا کی تمام معیشتوں کی طرح، انڈیا میں بھی ترقی کے بجائے تنزلی ہوئی۔

انڈیا کا جی ڈی پی

نو سال کی شرح نمو کے لحاظ سے انڈیا چین سے صرف ایک فیصد نیچے ہے کیونکہ چین کی جی ڈی پی میں 84 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا۔

دوسری جانب ان نو سال میں امریکی جی ڈی پی میں شرح نمو 54 فیصد رہی لیکن ان تین معیشتوں کو چھوڑ کر جی ڈی پی کے لحاظ سے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل کچھ ممالک کی جی ڈی پی میں شرح نمو میں کمی آئی ہے یا اضافہ نہیں ہوا۔

اس دور میں انڈیا پانچ ممالک کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گیا۔ ان میں سے برطانیہ، فرانس اور روس کی جی ڈی پی میں اضافے کی شرح بالترتیب تین، دو اور ایک فیصد رہی۔

اس کے ساتھ ساتھ اٹلی کی جی ڈی پی کی شرح نمو میں اضافہ نہیں ہوا۔ برازیل کی جی ڈی پی میں 15 فیصد کی کمی دیکھی گئی ہے۔

تو ان تمام ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں میں ترقی نہ ہونے کی وجہ کیا تھی؟

اس کی ایک وجہ سال 2008-09 کا عالمی معاشی بحران ہے جس کا انڈیا پر نسبتاً کم اثر پڑا۔

اگر انڈیا کا جی ڈی پی 6-7 فیصد کی موجودہ اوسط شرح سے بڑھتا رہا تو یہ 2027 تک جرمنی اور جاپان کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گی کیونکہ ان ممالک کے لیے 6-7 فیصد کی شرح نمو حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ جرمنی اور جاپان کی شرح نمو بالترتیب صرف 2.5 اور 1.5 فیصد ہے۔

معیشت کے بڑھنے کا کیا مطلب ہے؟

جب کسی بھی ملک کی معیشت ترقی کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی جی ڈی پی بڑھ جاتی ہے اور جی ڈی پی کا مطلب ہے ایک سال میں اس ملک میں پیدا ہونے والی اشیا اور خدمات کی کل قیمت۔

مثال کے طور پر، اگر آپ سال بھر کاشتکاری کرتے ہیں، جس کی مارکیٹ ویلیو 10 لاکھ روپے ہے، تو آپ کی سالانہ جی ڈی پی 10 لاکھ روپے ہے۔

ایسی صورتحال میں، اگر آپ کا سالانہ جی ڈی پی 10 فیصد کی شرح سے بڑھتا ہے تو آپ کی جی ڈی پی کی شرح نمو 10 فیصد کہلائے گی۔

جی ڈی پی میں اضافے کی وجہ سے کمپنیاں اپنا کاروبار بڑھانے کو ترجیح دیں گی۔ جس ملک میں ترقی ہو رہی ہے وہاں غیر ملکی کمپنیاں بھی سرمایہ کاری کریں گی۔

اس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ اس سے معاشرے کے معاشی طور پر اعلیٰ طبقے سے لے کر متوسط اور نچلے طبقے کو بتدریج فائدہ پہنچے گا۔

فی کس آمدنی کے بغیر جی ڈی پی کی نامکمل معلومات

اب آئیے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی ملک کی معیشت کی ترقی کا عام لوگوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔

ملکی معیشت کی ترقی ایک مثبت چیز ہے لیکن جی ڈی پی ملک کے عام شہریوں کی خوشحالی کا پیمانہ نہیں۔ ملک کے عام لوگوں کی خوشحالی کو جس پیمانے سے ناپا جاتا ہے اسے فی کس آمدنی کہا جاتا ہے۔

فی کس آمدنی کا مطلب ہے کہ جی ڈی پی کو ملک کی کل آبادی پر تقسیم کرنے سے حاصل ہونے والی رقم جو ایک سال میں ملک کے کسی فرد کی اوسط آمدنی ہے۔

اس میں امبانی اور اڈانی جیسے ارب پتی کاروباری افراد سے لے کر یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور بھی شامل ہے یعنی بہت سے لوگ اوسط سے زیادہ کماتے ہیں اور بہت سے لوگ اوسط سے بہت کم کماتے ہیں۔

جی ڈی پی کے لحاظ سے انڈیا آج دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے لیکن فی کس آمدنی کے لحاظ سے انڈیا دنیا کے پہلے 100 ممالک میں بھی نہیں۔

اس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ اول، آبادی اور دوسری دولت کی غیر مساوی تقسیم۔

انڈیا میں دولت کی تقسیم کتنی غیر مساوی ہے، اس بارے میں معروف سماجی تنظیم آکسفیم کے مطابق انڈیا کے ایک فیصد لوگوں کے پاس ملک کی 40 فیصد دولت ہے۔

عوام کی خوشحالی

پچھلے کچھ سال میں جب انڈیا نے برطانیہ، اٹلی، فرانس اور برازیل جیسی معیشتوں کو پیچھے چھوڑ دیا، کیا اس عرصے میں انڈیا میں رہنے والے لوگوں کی حالت بہتر ہوئی؟

اقتصادی امور کے ماہر آلوک پرانک کہتے ہیں کہ ’جی ڈی پی اور فی کس آمدنی دو مختلف تصورات ہیں۔ جی ڈی پی اس ملک میں تیار کردہ مصنوعات اور خدمات کی کل قیمت ہے۔ دوسری طرف، فی کس آمدنی کا مطلب ہے اس ملک میں رہنے والے ہر فرد کی اوسط آمدنی۔ اب جن ممالک کی آبادی زیادہ ہے، ان ممالک میں فی کس آمدنی کم ہے۔‘

’دوسری طرف جن ممالک کی آبادی کم ہے، ان ممالک کی فی کس آمدنی زیادہ ہے۔ کچھ ممالک ایسے ہیں جن کا شمار دنیا کی اعلیٰ معیشتوں میں نہیں ہوتا لیکن وہاں کے لوگوں کی فی کس آمدنی امریکہ جیسی اعلیٰ معیشت رکھنے والے ممالک سے زیادہ ہے۔‘

سوئٹزرلینڈ اور لکسمبرگ جیسے ممالک اس زمرے میں آتے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ کی فی کس آمدنی 80 ہزار امریکی ڈالر سے زیادہ ہے اور لکسمبرگ کی فی کس آمدنی ایک لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔

لیکن سوئٹزرلینڈ بڑی معیشتوں کی فہرست میں 20 ویں نمبر پر ہے اور لکسمبرگ اس فہرست میں 72 ویں نمبر پر ہے۔

انڈیا میں فی کس سالانہ آمدنی 2.6 ہزار امریکی ڈالر ہے جبکہ امریکہ میں یہ تعداد 80 ہزار ڈالر سے زیادہ ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ برازیل کی سالانہ فی کس آمدنی جو اس وقت دسویں نمبر پر ہے، 9.67 ہزار امریکی ڈالر ہے۔

یعنی جو ملک 10ویں نمبر پر ہے، وہاں بھی فی کس آمدنی انڈیا سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔

آلوک پرانک کا ماننا ہے کہ ’ایک طرف انڈیا دنیا کی تیسری اعلیٰ معیشت بننے کی طرف قدم بڑھا رہا ہے، ساتھ ہی اس سے معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی جس سے عوام کو فائدہ ہوگا لیکن اس سے عام لوگوں کی زندگیوں اور ان کی معاشی خوشحالی میں کوئی ڈرامائی فرق آنے کا امکان نہیں۔‘