اہم خبریں

منی پور: ہجوم کے سامنے خواتین کے کپڑے اتارنے، جنسی تشدد کی ویڈیو پر مودی سرکار تنقید کی زد میں

انڈیا کی ریاست منی پور میں ڈھائی ماہ سے جاری نسلی فسادات کے دوران ایک ہجوم کے سامنے دو خواتین کے کپڑے اتارنے اور ان پر جنسی تشدد کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس نے انڈیا کے سیاسی و سماجی حلقوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

منی پور کی پولیس نے اس ویڈیو کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ واقعہ 4 مئی کو منی پور کے ضلع تھوبل کا ہے۔

پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ واقعہ چار مئی کو ہوا جس پر نامعلوم افراد کے خلاف اغوا، گینگ ریپ اور قتل کا مقدمہ درج کیا گیا۔ معاملے پر تحقیقات جاری ہے۔ پولیس مجرموں کو پکڑنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔‘

ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد سے مرکز میں حزب اختلاف کے رہنماؤں، بشمول کانگریس کے ارکان، نے شدید ردعمل دیا ہے اور حکمراں بی جے پی کے وزرا سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

انڈیا کے وفاق میں خواتین اور بچوں کے امور کی وزیر سمریتی ایرانی کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس معاملے پر ریاست کے وزیر اعلی بیرن سنگھ سے بات کی ہے اور مجرمان کو پکڑنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔

دریں اثنا انڈیا کی حکومت نے ٹوئٹر سمیت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے اس ویڈیو کو حذف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

واقعے کی ایف آئی آر میں کیا درج ہے؟

اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق 4 مئی کو تھوبل میں کوکی زومی برادری کی خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

تاہم جنسی ہراسانی کا مقدمہ 18 مئی کو ضلع کانگپوکپی میں درج کیا گیا۔ اس کے بعد متعلقہ پولیس سٹیشن کو کیس بھیج دیا گیا۔

منی پور پولیس کے سینیئر اہلکار میگھچندر سنگھ نے میڈیا کو بتایا کہ اب تک اس کیس میں کسی کو گرفتار نہیں کیا جا سکا مگر پولیس کی کوششیں جاری ہیں۔

ویڈیو میں ایک خاتون کی عمر 20 برس جبکہ دوسری کی 40 برس بتائی گئی ہے۔

ان خواتین نے پولیس کو دیے بیان میں کہا کہ ویڈیو میں صرف دو خواتین نظر آ رہی ہیں جبکہ وہاں موجود جتھے نے 50 سال کی خاتون کے بھی کپڑے اتارے تھے۔

ایف آئی آر میں درج ہے کہ ایک نوجوان خاتون کو دن کی روشنی میں گینگ ریپ کیا گیا۔

متاثرین نے کہا کہ 3 مئی کو تھوبل میں ان کے گاؤں میں جدید ہتھیاروں سے لیس 800 سے 1000 افراد نے حملہ کیا جو وہاں گولیاں برسانے اور لوٹ مار کرنے لگے۔

ان حالات میں ایک نوجوان اور دو معمر خواتین اپنے والد اور بھائی کے ہمراہ جنگل کی طرف بھاگے۔

شکایت کے مطابق پولیس نے انھیں بچا لیا۔ جب پولیس انھیں تھانے لے جا رہی تھی تو تھانے سے دو کلو میٹر دور جتھے نے ان خواتین کو اغوا کیا اور کپڑے اتارنے پر مجبور کیا۔

ایف آئی آر کے مطابق مظاہرین نے ان خواتین کو پولیس کی تحویل سے لیا جس کے بعد نوجوان خاتون کے والد کو موقع پر قتل کر دیا گیا۔

ایف آئی آر کے مطابق ایک جتھے نے تین خواتین کو مظاہرین کے سامنے بغیر کپڑوں کے چلنے پر مجبور کیا جبکہ نوجوان خاتون کو ہجوم کے سامنے گینگ ریپ کیا گیا۔ ان کے بھائی نے انھیں جتھے سے بچانے کی کوشش کی مگر اسے بھی قتل کر دیا گیا۔

علاقے کے قبائلی رہنماؤں کے گروہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مجرموں نے متاثرین کی نشاندہی کروانے کے لیے ویڈیو جاری کی تاکہ ان پر مزید دباؤ ڈالا جائے۔

ریاست میں خواتین کے حقوق کی ایک تنظیم نے اس واقعے پر احتجاجی مظاہرے کی کال دی ہے مگر حکومت نے ریاست کے پانچ اضلاع میں غیر معینہ کرفیو نافذ کر دیا ہے۔

اخبار دی ہندو کے مطابق منی پور کے حالات کو دیکھتے ہوئے سنٹرل ریزوو پولیس فورس نے ناگالینڈ اور آسام سے دو پولیس افسران کو منی پور تعینات کر دیا ہے۔ اس وقت منی پور میں مرکز سے مسلح افواج کی 124 کمپنیاں اور فوج کے 184 دستے تعینات ہیں۔

ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد سے انڈیا کے مرکز میں حزب اختلاف کے رہنماؤں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے اور اس واقعے کی مذمت کی ہے۔

کانگریس رہنماؤں پریانکا گاندھی اور راہل گاندھی نے معاملے پر وزیر اعظم مودی کی خاموشی پر تنقید کی ہے۔

پریانکا گاندھی نے کہا ہے کہ ’منی پور میں خواتین پر جنسی تشدد کے مناظر افسوس ناک ہیں۔ اس خوفناک واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ معاشرے میں تشدد کی قیمت سب سے زیادہ خواتین اور بچوں کو ادا کرنا پڑتی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم سب یک زباں ہو کر تشدد کی مذمت کرتے ہیں اور منی پور میں امن قائم کرنے کی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔ مرکزی حکومت، وزیر اعظم منی پور میں پُرتشدد واقعات پر آنکھیں بند کیوں کیے ہوئے ہیں؟ کیا یہ مناظر اور پُرتشدد واقعات انھیں پریشان نہیں کرتے؟‘

جبکہ راہل گاندھی نے ٹویٹ کیا کہ ’وزیر اعظم مودی کی خاموشی نے منی پور کو فسادات کی طرف دھکیل دیا۔ منی پور حملوں کی زد میں ہے مگر انڈیا خاموش نہیں رہے گا۔ ہم منی پور کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور واحد راستہ امن ہے۔‘

حال ہی میں انڈیا میں اپوزیشن کے اتحاد نے اپنا نام ’انڈیا‘ رکھا ہے۔

دوسری طرف عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے کہا کہ یہ واقعہ شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ ’انڈیا کے سماج میں ایسے جرائم کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ منی پور کی صورتحال پریشان کن ہوتی جا رہی ہے۔‘

’میں وزیر اعظم سے اپیل کرتا ہوں کہ منی کے حالات پر توجہ دیں۔ ویڈیو میں مجرمان کی نشاندہی کر کے ان کے خلاف سخت اقدامات کریں۔ انڈیا میں ایسے مجرمان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔‘

انڈین وزیر سمریتی ایرانی نے کہا ہے کہ انھوں نے معاملے پر ریاستی وزیر اعلیٰ سے بات کی ہے اور مجرمان کی تلاش کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔

خیال رہے کہ منی پور میں میتی اور کوکی برادریوں کے درمیان فسادات 3 مئی کو شروع ہوئے۔ پُرتشدد واقعات میں اب تک 142 افراد مارے گئے ہیں جبکہ قریب 60 ہزار شہری بے گھر ہوگئے ہیں۔

ریاستی حکومت کے مطابق ان پُرتشدد حالات میں آتشزنی کے 5000 واقعات ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں منی پور کی حکومت نے بتایا کہ پُرتشدد واقعات پر 5995 مقدمات درج کیے گئے ہیں اور 6745 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔