انڈیا کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں نسلی فسادات کے دوران مشتعل ہجوم کی جانب سے دو خواتین کی برہنہ پریڈ کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد مزید خواتین پر تشدد کے الزامات کے نئے شواہد ابھر رہے ہیں۔
انتباہ: اس تحریر میں کچھ باتیں قارئین کے لیے تکلیف دہ ہوسکتی ہیں۔
دو ماہ سے زیادہ عرصے تک کوکی برادری کی ماریہ (فرضی نام) میں اتنا حوصلہ پیدا نہ ہوسکا کہ وہ پولیس کے پاس جائیں۔
ان کی 18 سال کی بیٹی کو گھر کے باہر سے اغوا کیا گیا تھا۔ پوری رات گینگ ریپ اور تشدد کے بعد انھیں گھر کے دروازے پر چھوڑ دیا گیا۔
ماریہ کا کہنا ہے کہ ’حملہ آوروں نے دھمکی دی کہ اگر میری بیٹی نے اس بارے میں کچھ کہا تو وہ اسے مار دیں گے۔‘
ان سے میری ملاقات بحالی مرکز کے باہر ہوئی جہاں وہ نسلی فسادات پھوٹنے کے بعد سے قیام پذیر ہیں۔ میتی اور کوکی برادریوں کے درمیان ان فسادات میں اب تک 130 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
مگر پھر کچھ تبدیلی آئی۔
گذشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر کوکی برادری کی دو خواتین کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک ہجوم ان سے علاقے میں برہنہ پریڈ کراتا ہے۔ اس کی وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی جس کے بعد چھ ملزم گرفتار ہوئے۔ اس واقعے نے ماریہ کو بھی غصہ دلایا اور انھوں نے پولیس میں شکایت درج کرا دی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں نے سوچا اگر میں نے ایسا نہ کیا تو مجھے دوسرا موقع نہیں ملے گا۔ مجھے ہمیشہ افسوس رہتا کہ میں نے اپنی بیٹی کے حملہ آوروں کو سزا دلوانے کی کوئی کوشش نہ کی۔‘
ماریہ نے کہا کہ ان کی بیٹی اب خودکشی کی باتیں کرتی ہے تاہم انھیں امید ہے کہ اس کی زندگی پھر سے بہتر ہوسکے گی۔
وہ کہتی ہیں کہ انھیں اور ان کی سہیلی کو کوکی برداری سے تعلق رکھنے پر ہوسٹل میں حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اس وقت ریاست کے دارالحکومت امفال میں نرسنگ کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔
وہ یاد کرتی ہیں کہ ’ہم جس کمرے میں چھپے ہوئے تھے اس کے باہر ہجوم ہمارے دروازے کو کھٹکھٹا رہا تھا اور چیخ رہا تھا کہ آپ کے لوگوں نے ہماری عورتوں کا ریپ کیا ہے، اب آپ کے ساتھ بھی یہی ہوگا۔‘
انھوں نے اپنی والدہ کو فون کر کے کہا کہ شاید وہ آخری بار ان سے بات کر رہی ہیں۔ چند منٹ بعد ان دو خواتین کو گھسیٹ کر سڑک پر لے جایا گیا اور مار مار کر بے ہوش کر دیا گیا۔ چن سیانچنگ کا خیال ہے کہ ہجوم کو لگا وہ مر گئی ہیں، اس لیے وہ بھاگ گئے۔
پولیس نے انھیں لاش سمجھ کر ان کا معائنہ کیا مگر نبض دیکھنے پر انھیں معلوم ہوا کہ وہ زندہ ہیں۔
غیرت اور شرم
ہجوم نے چن اور ان کی دوست پر اس بنیاد پر تشدد کیا کہ ایسی غیر مصدقہ اطلاعات گردش کر رہی تھیں کہ کوکی برداری کے مردوں نے میتی خواتین پر جنسی تشدد کیا ہے۔
ماضی میں دونوں برادریاں ایک ساتھ رہ رہی تھیں مگر ایسی اطلاعات نے ان کے درمیان دوریاں بڑھا دیں۔ یوں دونوں برادریوں کے اگروہوں میں جھڑپیں ہونے لگیں۔
اب کوکی خواتین کی برہنہ پریڈ کی ویڈیو نے میتی برداری کی خواتین کو بھی اس گھناؤنے جرم کی مذمت کرنے اور اتحاد قائم کرنے پر امادہ کیا ہے۔
منی پور میں یہ پرانی روایت رہی ہے کہ خواتین سماج میں باہمت کردار ادا کرتی ہیں۔ ’منی پور کی مائیں‘ کہلانے والے گروہ میرا پیبس نے ریاست، فوج اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب عناصر کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔
وائرل ویڈیو میں متاثرہ خواتین کے علاقے میں اس گروہ کی سربراہ سنم سرنالتا لیما نے کہا ہے کہ گاؤں والوں نے خود مرکزی ملزم کو پولیس کے حوالے کیا۔
پھر میرا پیبس کی مقامی خواتین جمع ہوئیں اور اس ملزم کا گھر جلا دیا۔
لیما کا کہنا ہے کہ ’برداری نے اس گھناؤنے جرم کی مذمت کرنے کے لیے علامتی طور پر وہ گھر جلایا۔ ان مردوں کا اقدام میتی برادری کی غیرت کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔‘
ملزم کی بیوی اور تین بچوں کو گاؤں سے نکال دیا گیا ہے۔
مگر ہجوم نے اس معاشرے میں ایسا کیوں کیا جہاں خواتین کو اتنا اعلیٰ مقام دیا جاتا ہے۔
لیما کا کہنا ہے کہ ’کوکی برداری کے مردوں نے میتی خواتین پر حملہ کیا اور یہ اس کا انتقام تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ انھیں ایسے کسی حملے کا خود سے علم نہیں مگر میتی خواتین ایسے کسی جرم پر کھل کر بات نہیں کرتیں کیونکہ ان کے لیے یہ غیرت کا مسئلہ ہے۔
ریاست کی پولیس نے کہا ہے کہ فسادات شروع ہونے کے بعد سے انھیں میتی برداری کی خواتین پر تشدد کی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ تاہم میتی برداری کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ کئی حملے ہوئے ضرور ہیں مگر ان کی اطلاعات سامنے نہیں آئی ہیں۔
’کوکومی‘ نامی میتی تنظیم کے رکن کھریجم اتھوبا نے کہا کہ ’ہماری عورتیں کھل کر اس تشدد پر بات کر کے یا پولیس کے پاس جا کر اپنی غیرت کھونا نہیں چاہتیں۔‘
ان کی رائے میں جنسی تشدد کی بجائے قتل اور بے گھر ہونے والے افراد پر توجہ دی جانی چاہیے۔
انصاف کے حصول کی جنگ
وائرل ویڈیو میں نظر آنے والی کوکی برادری کی ایک خاتون کے بھائی کو اس واقعے سے صدمہ پہنچا ہے۔
اس ہجوم نے نہ صرف ان کی بہن کو برہنہ کر کے ان پر جنسی تشدد کیا بلکہ ان کے والد اور چھوٹے بھائی کا قتل بھی کیا۔ وہ اور ان کی ماں اس لیے بچ گئے کیونکہ وہ فسادات شروع ہونے پر قریبی گاؤں میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے گئے تھے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ آپ حکومت اور پولیس سے کیا مطالبہ کریں گے؟
ان کا جواب تھا کہ ’ہجوم میں ہر شخص کو گرفتار کریں، خاص کر انھیں جنھوں نے میرے والد اور بھائی کا قتل کیا۔‘
’دونوں برادریوں کے ساتھ غیر جانبدار سلوک کریں۔‘
دونوں برادریاں مرکزی اور ریاستی حکومتوں پر اعتماد کھو چکی ہیں۔
منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ، جو کہ خود میتی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، نے مجرموں کو کڑی سزائیں، بشمول سزائے موت، دینے کا وعدہ کیا ہے۔ مگر جب اس تنازع پر ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’میں اس میں نہیں پڑنا چاہتا، میرا کام امن قائم کرنا اور شرپسندوں کو سزا دینا ہے۔‘
وزیر اعظم نریندر مودی نے اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد منی پور تنازع پر اپنی خاموشی توڑی۔ انھوں نے کہا ہے کہ منی پور کی بیٹیوں کے ساتھ جو ہوا اسے معاف نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ اس واقعے کے ذمہ دار ہر شخص کا احتساب ہوگا۔
تاہم لیما کے مطابق اس بیان نے ان کی برداری کو بُرے انداز میں دکھایا اور مئی سے جاری پُرتشدد واقعات، جن میں اب تک 60 ہزار لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، پر پردہ ڈالا۔
وہ پوچھتی ہیں کہ ’وزیر اعظم تب بولے جب کوکی برداری کی عورتوں پر حملہ کیا گیا۔ اس کا کیا جس کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔ کیا میتی خواتین انڈیا کا حصہ نہیں؟‘
ملکی و عالمی سطح پر اس ویڈیو نے منی پور تنازع پر ایک بار پھر روشنی ڈال دی ہے۔
چن سیانچنگ کی طرح جھڑپوں سے متاثرہ خواتین کی مدد کرنے والی محقق گریسی ہائیکپ نے کہا ہے کہ ’اگر ویڈیو نہ آتی تو حکومت یا دیگر سیاسی جماعتوں سے اتنی توجہ نہ ملتی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس سے متاثرین کو مدد ملے گی کہ وہ اپنے تجربات بتا سکیں اور اپنی زندگیوں کو دوبارہ بہتر بنا سکیں۔
نرسنگ کی تعلیم کے ایک دوسرے ادارے میں داخلہ لینے کے بعد چن سیانچنگ نے اپنی برداری کے سامنے ایک تقریر کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’میری ماں نے کہا ہے کہ خدا نے مجھے کسی وجہ سے نئی زندگی دی ہے۔
’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اپنے خواب ادھورے نہیں چھوڑوں گی۔‘