اہم خبریں

ممبئی، ساحل سمندر اور ’رِم جھم گِرے ساون‘: انڈیا میں گانے کی وائرل ویڈیو کے پیچھے کیا کہانی ہے؟

ممبئی، سمندر کا کنارہ اور مون سون کی بارشیں۔۔ یہ منظر اپنے آپ میں بہت رومانوی ہے۔

چاہے یہ حقیقی زندگی ہو یا فلم کا کوئی منظر، آپ اس رومانوی منظر میں شاید ایک نوجوان جوڑے کا ہی تصور کریں گے۔

51 سالہ شیلیش انعامدار اور وندنا نے اپنی ویڈیوز کے ذریعے ایسے بہت سے تصورات کو اس وقت توڑا، جب ان دونوں کی ممبئی کی بارش میں بھیگنے کی ویڈیو وائرل ہوئی۔

اس میں انھوں نے امیتابھ بچن اور موسومی چٹرجی پر فلمایا گیا مشہورِ زمانہ گیت ’رِم جھم گِرے ساون‘ کا ری میک بنایا ہے اور تب سے ایک گمنام شاعر کا یہ شعر اُن کے ذہن میں گھوم رہا ہے۔۔۔

’خدا کرے تاعمر تجھے ميری کمی رہے

خدا کرے تيری عمر دراز ہو

’میں کافی دنوں سے اِن (بیوی) کے پیچھے لگا ہوا تھا کہ مجھے بارش میں ایک بار بھیگنا ہے۔ مجھے اس وقت فلمی گانا دوبارہ بنانے کا خیال نہیں آیا تھا۔ میں صرف بارش میں بھیگنا چاہتا تھا۔‘

یہ 51 سالہ شیلیش انعامدار کی ایک چھوٹی سی خواہش تھی جو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔

سوشل میڈیا کی دنیا سے بہت دور شیلیش اور وندنا ممبئی میں رہتے ہیں اور انھیں آہستہ آہستہ پتا چل رہا ہے کہ ان کی ویڈیو نے سوشل میڈیا پر محبت کو لے کر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

شیلیش کہتے ہیں ’جوانی میں محبت زیادہ تر کشش کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن ایسا کیوں ہے کہ عمر بڑھنے کے بعد ہم ہاتھ پکڑ کر باہر نہیں چل سکتے؟ اس میں کوئی سماجی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر کسی سے سچی محبت ہو تو اس کا اظہار کرنا چاہیے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’عمر کا کیا ہے، یہ صرف ایک نمبر ہے، یہ بڑھتا ہی جائے گا۔ جہاں تک میری بیوی کا تعلق ہے، وہ بھی پیار کرتی ہے، لیکن وہ شرمیلی ہے مگر وہ بہت خیال رکھنے والی ہے۔ ہماری شادی کو 26 سال ہو گئے لیکن ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے صرف 26 دن ہی ہوئے ہیں۔‘

’ہمارے درمیان کچھ نہیں بدلا۔ آج بھی ایسا ہی لگتا ہے جیسا کہ پہلے دن تھا۔ مگر اب ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔‘

جہاں وندنا مختصر بات کرنا پسند کرتی ہیں وہیں ان کے شوہر شیلیش تھوڑی کُھل کر بات کرتے ہیں۔

اس جوڑے کی وائرل ویڈیو نے 1979 کی فلم ’منزل‘ اور اس کے گانوں کی یادیں بھی تازہ کر دیں۔

گانا ’رم جھم گرے ساون‘ شاید سب سے خوبصورت اور رومانوی گانوں میں سے ایک ہے جو بارش کے موضوع پر بنایا گیا ہے۔

لتا منگیشکر کا گایا ہوا گانا بارش کے پس منظر میں فلمایا گیا ہے۔ امیتابھ بچن سوٹ بوٹ پہنے اور موشومی چٹرجی سادہ ساڑھی میں ممبئی کی بارش میں ایسے گھوم رہے ہیں جیسے ان کے آس پاس کی دنیا غائب ہو گئی ہو۔

سنہ 1979 میں آنے والی باسو چٹرجی کی اس فلم کا میوزک آر ڈی برمن نے دیا تھا اور گانے کے خوبصورت بول موسیقار یوگیش نے لکھے تھے۔

یوگیش کے گانوں میں ایک الگ ہی سادگی تھی جو روح تک اُتر جاتی ہے۔

مثال کے طور پر فلم ’منزل‘ میں وہ قطرے کے بارے میں لکھتے ہیں ‘جب گھنگھروں سی بجتی ہیں بوندیں، ارمان ہمارے پلکیں نا موندیں۔‘

قطرے، گھنگھرو اور خواہشات کو انھوں نے کتنی خوبصورتی سے ایک لائن میں پرویا ہے۔

اس گانے کا مردانہ ورژن کشور کمار نے گایا تھا جہاں امیتابھ بچن ایک شادی میں یہ گانا سناتے ہیں اور موشومی چٹرجی اس گانے کو سن کر ناصرف امیتابھ کی تعریف کرتی ہیں بلکہ ان کی طرف متوجہ بھی ہو جاتی ہیں اور یہی گانا بعد میں بارش میں گایا جاتا ہے۔

شیلیش اور وندنا نے اس گانے کا ویسا ہی ریک میک بنایا ہے، یعنی ممبئی کی بارش اور ویسے ہی مناظر۔

شوٹنگ سے پہلے تیاری

وندنا بتاتی ہیں ’مجھے بھیگنا پسند نہیں کیونکہ اس کے بعد کام بڑھ جاتا ہے۔ اسی لیے جب گانے کی شوٹنگ کا خیال آیا تو میں نے کہا تھا کہ ممبئی کے نریمان پوائنٹ کیوں جائیں، کوٹ، سوٹ کیوں پہنیں۔‘

’اس لیے میں انکار کرتی تھی۔ لیکن جب انھوں نے اپنے دوست کے سامنے ہاں کہہ دی اور منصوبہ بنایا تو پھر مجھے نہ کہنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ میں راضی ہو گئی۔‘

شیلیش کا کہنا ہے کہ ’یہ گانا ہمارے دل کے بہت قریب ہے، ہم امیتابھ اور موشومی کے مداح ہیں، اس لیے میں کافی عرصے سے ان (بیوی) کے پیچھے تھا کہ مجھے ایک بار بھیگنا پڑے گا۔‘

’میں امیتابھ کی طرح سوٹ بوٹ ٹائی پہنوں گا اور آپ موشومی چٹرجی کی طرح ساڑھی پہنیں گی، ہم نریمان پوائنٹ جائیں گے اور ہم بارش میں بھیگ جائیں گے، سوچ بھی یہی تھی، تو جب ہم نے یہ بات کسی سے شیئر کی تو میرے دوست انوپ نے کہا کہ تم تو نظر بھی ان (امیتابھ) کی طرح آتے ہو۔‘

’ہم نے ممبئی میں موسم کی پیش گوئی کرنے والے تمام اداروں سے ڈیٹا لیا۔ ہر ایک نے پیش گوئی کی تھی کہ 25 جون سے یکم جولائی تک بہت زیادہ بارش ہوگی۔ ہم نے اسی کے مطابق شوٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بیوی نے دھمکی دی کہ یہ ویڈیو تب ہی پبلک کی جائے گی جب وہ خود اسے دیکھ لیں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہمارے والدین نے بھی ویڈیو کو پسند کیا۔‘

‘شو جاری رہنا چاہیے‘

ایسے میں گھر میں بچوں سے کوئی خوف تھا اور ویڈیو سامنے آنے کے بعد لوگوں کا رویہ کتنا بدل گیا ہے؟

اس بارے میں شیلیش نے بتایا ’نندیڑ میں ہمارے ایک سکول ٹیچر ہیں جو بچپن میں ہمیں بہت مارتے تھے، انھوں نے ہمیں بلایا اور کہا کہ شیلیش، مجھے فخر ہے۔ ہماری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔‘

ریحانہ ریاض چشتی راجستھان ریاستی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن ہیں اور انھوں نے ٹویٹر پر لکھا ’عمر کبھی بھی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ شو جاری رہنا چاہیے۔‘

جبکہ دنیش کمار شرما، جو کہ پیشے کے لحاظ سے ایک معالج اور شاعر ہیں، نے ٹوئٹر پر اس جوڑے کے لیے ایک نظم لکھی ’عمر صرف ایک عدد ہے، ایک جوڑے نے پھر سے یہ یاد دلایا ہے۔۔۔ وہ زندگی کا جشن منانے ممبئی کی سڑکوں پر نکلے، ساون کی رم جھم میں محبت کا گانا۔ برکھا کا گانا۔‘

چچا نے کہا ’انعامدار جی میں آپ کی خالہ کو لے کر اب بھیگنے جا رہا ہوں‘

’رم جھم گرے ساون‘ گانے کو دوبارہ بنانے کے بہانے شیلیش اور وندنا کو بھی موقع ملا کہ وہ اپنی زندگی، اپنے رشتے، باہمی محبت کو ایک نئے زاویے سے بیان کریں۔

شیلیش کہتے ہیں ’میں بتا سکتا ہوں کہ پہلے میرا پیار ظاہر کرنے کا طریقہ غالب تھا، یعنی اگر میں تم سے پیار کرتا ہوں، تو میں تمہاری پوری توجہ چاہتا ہوں۔ میرا یہ معیار تھا۔ لیکن باہمی اعتماد سال بہ سال بڑھتا گیا اور احترام بھی۔ اور سوری کہنا بھی آسان ہو گیا ہے۔‘

’بچپن میں فلم ’کورا کاغذ‘ دیکھی تھی، دونوں ایک جیسے پڑھے لکھے ہیں، دونوں چاہتے ہیں کہ دوسرا معافی مانگے اور اس کے لیے وہ 15 سال تک دور رہے، صرف انا کی وجہ سے۔‘

شیلیش کہتے ہیں کہ ’یہ (میری بیوی) ونود مہرا کو بہت پسند کرتی ہیں۔ مجھے یاد ہے جب ہم پہلی بار ملے تھے تو مجھے تھوڑا سا رشک بھی ہوا تھا۔ میں نے کہا کہ میں ونود مہرا سے بہتر ہوں۔‘

جہاں شیلیش اور وندنا کی ویڈیو کو آنند مہندرا جیسی مشہور شخصیات اور دنیا بھر کے لوگوں نے شیئر کیا ہے، شیلیش اور وندنا کا کہنا ہے کہ ان کی اصل کامیابی پرانی محبت کے بارے میں لوگوں کے نقطہ نظر میں تبدیلی ہو گی۔

اپنی بات ختم کرتے ہوئے شیلیش بڑے فخر سے کہتے ہیں ’اس ویڈیو پر ایک ردعمل آیا اور ایک 80 سالہ چچا نے ہمیں کہا کہ انعامدار جی، میں آپ کی خالہ کو لے کر اب بھیگنے جا رہا ہوں۔‘

’ہماری مراٹھی فلم لائن کے بہت سے لوگوں نے کہا ہے کہ وندنا کا کام اچھا ہے۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اس کے چہرے کے تاثرات اتنے اچھے ہوں گے۔۔۔ کوئی پروجیکٹ ہوا تو ہم دونوں کرنے کو تیار ہیں۔‘

کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ اس قسم کی رومانیت اپنے اندر کتنا پیارا احساس رکھتی ہو گی؟