مسلمان خاتون ٹیچر اور ہندو طالبہ کی محبت، فرار اور گرفتاری: ’سوری ممی پاپا، ہم لیزبین ہیں‘

انڈیا کی ریاست راجستھان میں ایک سکول کی خاتون مسلمان ٹیچر اور 12ویں درجے کی 17 سالہ ہندو طالبہ کو ہندو تنظیموں کی جانب سے ’لو جہاد‘ کے الزامات سامنے آنے کے بعد حراست میں لے لیا گیا ہے۔

بیکانیر کے شری ڈونگرپور قصبے سے تعلق رکھنے والی استانی اور طالبہ نے پیر کے روز ایک ویڈیو پیغام میں اعلان کیا تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے ’بے پناہ پیار کرتی ہیں‘ اور اس ڈر سے گھر سے بھاگ آئی ہیں کہ ان کے گھر والے ان کی شادی کسی اور سے کرنے والے تھے۔

طالبہ کے والدین نے 20 سالہ مسلمان ٹیچر اور ان کے دو بھائیوں کے خلاف شکایت درج کرائی جس میں الزام عائد کیا گیا کہ ان کی بیٹی کو اغوا کیا گیا اور اس کی برین واشنگ کی گئی۔ طالبہ کے گھر والوں نے مقامی پولیس سٹیشن میں جا کرہنگامہ بھی کیا۔

بیکانیر میں بی جے پی کی حمایت یافتہ ہندو تنظیموں نے بھی احتجاج کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ یہ ’لو جہاد‘ یعنی پیار کی آڑ میں ’ایک ہندو لڑکی کو مسلمان بنانے کی سازش ہے۔‘

راجستھان پولیس نے دونوں لڑکیوں کو تمل ناڈو کے دارالحکومت چننئی میں ٹریک کیا جس کے بعد مقامی پولیس نے انھیں حراست میں لے لیا۔

پولیس نے مزید بتایا کہ طالبہ نابالغ ہے جسے ضلع کی چائلڈ ویلفیر کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ ’یہ کمیٹی طے کرے گی کہ اسے والدین کے حوالے کیا جائے یا حکومتی اصلاحی سینٹر میں رکھا جائے۔‘

’ہم دونوں ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں، پلیز ہمیں جینے دو‘

راجھستان کے ضلع بیکا نیر میں کشیدگی پھیلنے کے بعد طالبہ اور ٹیچر نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا جس میں دونوں نے کہا تھا کہ وہ ’لیزبین‘(ہم جنس پرست) ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتیں۔‘

اس ویڈیو میں طالبہ نے کہا ’ ہمیں پتہ چلا ہے کہ ڈونگرپور میں دنگے فساد ہو رہے ہیں۔ آپ کو لگ رہا ہو گا کہ انھوں نے یا ان کے گھر والوں نے مجھے بہلا پھسلا کر اغوا کیا ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔‘

’ہم اپنی مرضی سے آئے ہیں۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ پلیز ہمیں جینے دو۔‘

اس ویڈیو میں دونوں لڑکیاں ساتھ بیٹھی ہوئی ہیں۔ ویڈیو بیان میں ٹیچر بھی قسم کھا کر کہتی ہیں کہ وہ دونوں اپنی مرضی سے آئے ہیں۔

طالبہ اور ٹیچر اپنے والدین سے معافی مانگتے ہوئی کہتی ہیں ’سوری ممی پاپا، ہم نے آپ کو اتنا دکھ دیا، آپ کو اتنا رلایا، اتنی پریشانی دی۔ سوری، ہم لیزیبن ہیں۔ ہم کسی لڑکے سے شادی نہیں کر سکتے۔ اسی لیے ہم نے بھاگنے کا فیصلہ کیا ۔اگر آپ لوگوں نے ہمیں پکڑ لیا تو ہماری زندگی ختم ہو جائے گی۔‘

ان لڑکیوں نے ہم جنس پرست حقوق پر کام کرنے والوں یعنی ایل جی بی ٹی تنطیموں سے بھی مدد کی اپیل کی تھی۔

بیکا نیر کی ٹیچر اور سٹوڈنٹ کے تعلق کی نوعیت اس لحاظ سے الگ ہے کہ اس میں طالبہ قانونی طور پر نابالغ ہے اور ٹیچر کے خلاف نابالغ کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنے کے الزام میں مجرمانہ مقدمات درج کیے جا سکتے ہیں۔

خبروں کے مطابق ٹیچر کی منگنی ایک برس قبل پڑوسی ضلع کے ایک لڑکے سے ہوئی تھی اور اب ان کی شادی ہونے والی تھی۔

طالبہ کی برآمدگی اور ٹیچر کی گرفتاری کے لیے احتجاج

ڈونگرپور میں طالبہ کی برآمدگی اور ٹیچر کی گرفتاری کے لیے احتجاج کے بعد پولیس کا کہنا ہے کہ طالبہ نابالغ ہے اس لیے اس کی رضامندی کی قانونی حیثیث نہیں ہے جبکہ ٹیچر کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

یاد رہے کہ انڈیا میں ہم جنس پرستوں کی شادی ایک پیچیدہ قانونی معاملہ ہے۔ ایسے رشتے کو تسلیم کرتے ہوئے اسے جرم کے دائرے سے باہر تو رکھا گیا ہے لیکن قانونی طور پر دو ہم جنس پرستوں کے درمیان شادی کی اجازت نہیں ہے۔

یہ معاملہ انڈین سپریم کورٹ کے ایک آئینی بنچ میں زیر سماعت بھی ہے اور عدالت عظمی کو یہ طے کرنا ہے کہ دو ہم جنس پرستوں کے درمیان قانونی طور پر شادی کی اجازت دی جائے یا نہیں۔

بی جے پی کی مرکزی حکومت نے عدالت میں اس کی مخالفت کی ہے کہ یہ انڈیا کی اقدار اور مذہبی روا یات کے منافی ہے۔