اہم خبریں

مزدور کی کم از کم اجرت 32 ہزار روپے: ’کبھی کبھی بغیر ناشتہ کیے میں کام پر اور بیٹی سکول جاتی ہے‘

’خوراک یا دوائیں میرے لیے تو ان دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑ جاتا ہے، کھانا کھاؤں تو پھر دوائیں نہیں لے سکتی اور دوائیں لوں تو پھر کھانے کے لیے کچھ نہیں بچتا حالانکہ میں دو جگہوں پر کام کرتی ہوں۔‘

صدف خان کراچی میں رہتی ہیں اور وہ گھر کے کل چار افراد ہیں۔ وہ صبح اور شام کے اوقات میں فیکٹریوں میں کام کرتی ہیں لیکن وہ اتنا نہیں کما رہیں کہ زندگی بہتر طریقے سے گزار سکیں۔

واضح رہے کہ حکومت پاکستان نے حالیہ بجٹ میں مزدوروں کی کم از کم اجرت 32 ہزار روپے مقرر کرنے کی تجویز دی ہے لیکن صدف خان کا کہنا ہے کہ 15 ہزار تو مکان کا کرایہ ہے، دس سے بارہ ہزار بجلی اور گیس کے بلوں میں چلا جاتا ہے اور کم سے کم راشن بھی لائیں تو دس سے بارہ ہزار روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔

’ان روپوں میں کیسے گزارہ ہو سکتا ہے، ہماری تو زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ مجبور ہو کر دو دو نوکریاں کرنی پڑ رہی ہیں۔ عام دنوں میں تو حالات معمول پر چل رہے ہوتے ہیں لیکن اگر کہیں گھر میں کوئی بیمار پڑ جائے تو پھر بجٹ خراب ہو جاتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مہنگائی کا میٹر تو مسلسل چل رہا ہے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ہر چیز کی قیمت ہر روز بڑھ رہی ہے، کھانے کے تیل اور گھی کا ڈبہ جو پہلے700 روپے میں مل جاتا تھا اب وہ 3200 روپے میں مل رہا ہے ایسے میں کیسے گزارہ ہو گا۔‘

یہ صرف صدف خان کے گھرانے کا حال نہیں بلکہ یہ ہر اس گھر کا مسئلہ ہے جہاں وسائل کم اور اخراجات زیادہ ہیں یا یوں کہیں کہ ہر مزدور یا کم آمدنی والے گھرانے کی کہانی ہے۔

’آمدنی سات سو خرچہ پندرہ سو‘

سخت گرمی میں دوپہر کے وقت سڑک کے کنارے پائپ لائن بچھانے کے لیے کھدائی کرنے والے مزدور پسینے سے شرابور تھے۔

انھیں اس محنت کے صرف سات سو روپے ملنے ہیں اور یہ محنت وہ صبح سات بجے سے لے کر شام پانچ بجے تک مسلسل کرتے رہتے ہیں۔ پانی اور چائے کے علاوہ کھانا کھانے اور نماز کے لیے وقفہ ضرور ملتا ہے۔

شریف اللہ کا تعلق لکی مروت سے ہے اور وہ پشاور کے مہنگے علاقے حیات آباد میں ایک سرکاری منصوبے پر کام کرنے والے مزدور ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مزدور کی زندگی تباہ ہے۔‘ وہ دو سال پہلے گھر بار چھوڑ کر اسلام آباد گئے تاکہ وہاں مزدوری کر سکیں لیکن وہاں کبھی کام ملتا تھا اور کبھی نہیں ملتا تھا تو پھر وہ پشاور آ گئے۔ یہاں انھیں مزدوری تو مل گئی لیکن آمدنی اتنی کم ہے کہ اس میں گزارہ مشکل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں ایک مزدور کو روزانہ 700 یا آٹھ سو روپے مزدوری ملتی ہے لیکن جب وہ گھر جاتا ہے اور حساب کرتا ہے تو سب ملا کر اس کا خرچہ 1500 روپے تک کا ہوتا ہے۔ اس روزانہ کی آمدن سے کرائے کے مکان کا خرچہ، بجلی کے بل، بچوں کی تعلیم اور دیگر ضروریات کے لیے رقم رکھنی پڑتی ہے۔ والدین کی ادویات کا خرچہ الگ سے ہوتا ہے۔ اب بتائیں ایسے حالات میں گزارہ کیسے ممکن ہے۔ مجبور ہو کر لوگ غلط کاموں کی طرف چلے جاتے ہیں۔ ‘

’کبھی میں بغیر ناشتہ کیے کام پر اور بیٹی سکول جاتی ہے‘

شاہدہ کراچی میں ایک گارمنٹس فیکٹری میں کام کرتی ہیں وہ اور ان کی ایک کم عمر بیٹی گھر میں اکیلے رہتی ہیں۔ شوہر نے دوسری شادی کر لی ہے اور وہ دوسری بیوی کے ساتھ رہتے ہیں۔

شاہدہ نے بتایا کہ انھیں ایک ہفتے کے ساڑھے تین ہزار سے چار ہزار روپے مل جاتے ہیں اور مہینے کی آمدن اٹھارہ سے بیس ہزار روپے بن جاتی ہے۔ اس اجرت میں مہینہ گزارنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔

’دال سبزی خریدنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ چکن کا تو سوچ بھی نہیں سکتے۔ کبھی کبھار مہینے میں ایک مرتبہ اگر کبھی چکن کا تھوڑا سا گوشت لے آئیں تو الگ بات ہے ورنہ تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک وقت کا کھانا کھا لیتے ہیں اور دوسرے وقت کا کھانا نہیں ہوتا اور کبھی بغیر ناشتہ کیے میں کام پر چلی جاتی ہوں اور بیٹی سکول جاتی ہے۔‘

ان سے جب پوچھا گیا کہ حکومت نے تو اب مزدور کی کم سے کم تنخواہ 32000 روپے مقرر کرنے کی تجویز دی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ موجودہ مہنگائی میں پچاس ہزار روپے بھی کم ہیں۔

’حکومت کیسے یہ سمجھ لیتی ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں غریب اس تنخواہ میں گزارہ کر سکتا ہے۔‘

’یہاں ایک مزدور کو روزانے 700 یا 800 روپے مزدوری ملتی ہے لیکن جب وہ گھر جاتا اور حساب کرتا ہے تو سب ملا کر اس کا خرچہ 1500 روپے ہوتا ہے‘

تندور کے کسی مزدور کی یومیہ آمدن ایک ہزار تو کسی کی 700 روپے

محمد فدا ایک تندور کے مالک ہیں اور ان کے ساتھ پانچ مزدور کام کرتے ہیں۔ ان میں دو ہنر مند ہیں جنھیں وہ روزانہ ایک ہزار روپے دیتے ہیں جبکہ ان کے ساتھ تین غیر ہنر مند ہیں جنھیں وہ سات سو روپے روزانہ مزدوری دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت خود اپنے اداروں میں اور اپنے منصوبوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو اتنی اجرت نہیں دے سکتی جتنی وہ پرائیویٹ اداروں کو دینے کا کہتی ہے۔

ہر حکومت اپنے بجٹ میں مزدوروں کے لیے کم سے کم اجرات میں کچھ اضافہ کر دیتی ہے اور گزشتہ سال مزدوروں کی کم سے کم اجرت پچیس ہزار روپے مقرر کی گئی تھی۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کے ان اعلانات پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے یا یہ صرف اعلان تک ہی رہ جاتا ہے۔

چند مزدوروں نے بی بی سی کو بتایا کہ جب بھی حکومت نے بجٹ میں ایسے اعلانات کیے، انھیں ان پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آیا۔

اکثر مزدوروں کا کہنا تھا کہ بڑے سٹورز پر جائیں تو وہاں کام کرنے والے سیلز مین ہوں یا دیگر افراد ان کی تنخواہیں اٹھارہ سے بائیس ہزار روپے کے درمیان ہوتی ہیں۔

’حکومت کے اعلان اپنی جگہ لیکن زمینی حقائق مختلف ہیں‘

بظاہر اگر آپ مارکیٹ میں جائیں تو مختلف کاموں کے لیے مزدور اپنے مخصوص مقامات پر اپنے اپنے شہروں میں مل جاتے ہیں۔

ان میں زیادہ تر تو وہ مزدور ہوتے ہیں جو روزانہ کی اجرت پر کام کرتے ہیں جنھیں دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدور کہا جاتا ہے۔ ان میں مستری یعنی اپنے کام کے ہنر مند بھی شامل ہوتے ہیں، غیر ہنر مند بھی ہوتے اور یہ مختلف کام کرنے میں اپنی قابلیت بتاتے ہیں۔

اس کے علاوہ مختلف کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور اور ان میں بھی ہنر مند یعنی سکلڈ ورکر اور غیر ہنر مند یعنی انسکلڈ ورکر کا بھی فرق ہوتا ہے۔

سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق صدر محمد اسحاق نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت کے اعلانات اپنی جگہ لیکن زمینی حقائق مختلف ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں ہنر مند مزدور اپنی شرائط پر روزگار حاصل کرتا ہے اور ایسے سکلڈ ورکرز ہیں جو اچھی خاصی تنخواہیں لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر ہنرمند افراد آتے ہیں تو ان کو پھر مالکان اپنے طور پر روزگار فراہم کرتے ہیں اور وہ ان کے کام کی نوعیت پر انحصار کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت صورتحال انتہائی گھمبیر ہے، صنعتوں کے اپنے اخراجات بڑھ گئے ہیں میں میں خام مال کی قیمت، توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور اس کے علاوہ دیگر اخراجات بھی شامل ہیں۔‘

’مجھے نہیں لگتا کہ حکومت اس پر عمل درآمد کرا سکے کیونکہ گذشتہ سال ہی حکومت کے مزدوروں کی ملازمت کے لیے ایک اشتہار میں تنخواہ بیس ہزار راوپے مقرر تھی تو نجی سطح پر کیسے یہ ممکن ہو سکے گا کہ مزدور کی کم سے کم تنخواہ 32 ہزار روپے مقرر کر سکے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ہنر مند لوگ سامنے نہیں آ رہے کیونکہ کوئی ایسے ادارے ہی نہیں ہیں۔ اور جو سامنے آ رہے ہیں وہ پرانے نظام اور مشینوں پر کام کرنے والے مزدور ہیں جو جدید مشینری پر کام نہیں کر سکتے۔ صرف فیصل آباد میں ایک ادارہ ہے جو ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے ہنر مند مزدور فراہم کرتے ہیں اور انھیں اچھا خاصا روزگار مل رہا ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت کو مزدوروں کے حالات بہتر کرنے کے لیے مکمل توجہ دینا ہو گی اور اس کے لیے ایسے ادارے بنانے ہوں گے جہاں ان کی جدید تقاضوں کے مطابق تربیت ہو اور پھر وہ صنعتوں اور دیگر اداروں میں کام کرنے کے قابل ہو سکیں۔