یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہندوستان ابھی تک چاند تک نہیں پہنچا تھا، فلم ایک تھا ٹائیگر بھی ابھی نہیں بنی تھی، نریندر مودی بھی گجرات میں آگ لگوا کر امریکہ جانے کا ویزہ نہ ملنے پر مشتعل تھے لیکن دلی کے لال قلعے پر نظر لگائے بیٹھے تھے۔
ان دنوں میں، میرے جیسے نام نہاد صحافی اور خود ساختہ مصنف کو ہندوستان کے ادبی میلوں میں بلایا جاتا تھا، امن کی آشا کے ترانے گائے جاتے تھے، کبھی کبھی کسی خوش قسمت پاکستانی کو دل کے عارضے کے علاج کے لیے ہندوستان کا ویزہ بھی مل جاتا تھا۔
مجھے ایک ادبی میلے میں کانگریس کے ایک مرکزی رہنما کے ساتھ بٹھا دیا گیا۔ موصوف خود بھی کوئی درجن بھر سے زیادہ کتابیں لکھ چکے تھے۔ وجہ شہرت یہ تھی کہ ہندوستان میں ان سے زیادہ مشکل انگریزی نہ کوئی بولتا ہے نہ لکھتا ہے۔
انھوں نے سٹیج پر بیٹھے مجھ سے سوال پوچھا کہ عام پاکستانی ہندوستانی فوج کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔ میں سمجھا شاید میں ان کی انگریزی نہیں سمجھ پا رہا۔ میں نے انھیں سوال دہرانے کو کہا، سوال وہی تھا۔ عام پاکستانی، ہندوستانی فوج، کیا خیال ہے؟
میں نے کہا عام پاکستانی ہندوستانی فوج کے بارے میں کچھ نہیں سوچتا، کبھی نہیں سوچتا۔
انھوں نے اصرار کیا تو میں نے دوبارہ عرض کیا کہ میں کراچی سے کوہاٹ تک گھوما ہوں، آج تک نہ کسی عام نہ کسی خاص پاکستانی نے مجھ سے ہندوستانی فوج کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ میں خود صحافی ہوں، مجھے تو یہ بھی نہیں پتا کہ آپ کا آرمی چیف کون ہے۔
میں شاید یہ بھی کہہ دیتا کہ ہمیں اپنی فوج کے بارے میں سوچنے سے فرصت ملے تو کسی اور کے بارے میں سوچیں لیکن میں نے یہ نہیں کہا۔
پاکستان میں بیٹھ کر پاکستانی ریاست کا روز سیاپا کرنے والا بھی ہندوستان جا کر محب الوطن ہو جاتا ہے اور ساتھ یہ بھی خیال رہتا ہے کہ واپس تو گھر ہی جانا ہے۔
میزبان کے مشکل انگریزی میں سوالات کے جواب میں، میں مصر تھا کہ پاکستانی عوام انڈین فوج کے بارے میں زیادہ غوروفکر نہیں کرتی۔ میں نے جب یہ پوچھا کہ کشمیری عام آدمی ہندوستانی فوج کے بارے میں کیا سوچتا ہے تو جان چھوٹی۔
میں سمجھا رات گئی بات گئی لیکن اگلے دن ایک معزز انگریزی اخبار میں یہ خبر پڑھی کہ پاکستان سے آئے مصنف نے اپنے میزبانوں اور میزبان ملک کی فوج کے بارے میں اکتاہٹ کا اظہار کیا اور فوج سے بھی زیادہ متاثر نہیں لگے۔
مودی سرکار کے آنے سے پہلے بھی، امن پسند، سیکولر، ہر پاکستانی کو دیکھ کر فیض احمد فیض گانے والے، لبرل، ترقی پسند، چند انقلابی بھی، سب میں ایک کسک سی تھی کہ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، ہماری آئی ٹی کی اتنی ایکسپورٹ، روسی چینی ہماری فلمیں دیکھتے ہیں لیکن دنیا ہمیں ایک پاور نہیں سمجھتی بس سوفٹ پاور سمجھتے ہیں۔
ان ہی پڑھے لکھے ہندوستانی دانشوروں نے اب سمجھایا ہے کہ ہارڈ پاور وہ ہوتی ہے جب آپ کسی کے گھر میں گھس کر مار سکیں۔
ہندوستان سے ایک کورس اٹھتا ہے کہ امریکہ کر سکتا ہے، روس کر سکتا ہے، ہم نہیں کر سکتے؟ یہ کورس گاتا ہے کہ ہم نے یہ نہیں کیا، ہندوستان کی حکومت نے کینیڈا میں ایک سکھ شہری کو نہیں مروایا، لیکن اگر کیا بھی ہے تو کیا مسئلہ ہے؟ آپ نے بھی تو کسی اور ملک میں گھس کر اسامہ بن لادن کو مارا تھا؟
ایک ہندوستانی تجزیہ کار نے اپنی انگریزی تحریر کے ساتھ جھنکار لگا کر دل جیت لیا ہے۔ انھوں نے فرمایا ہے کہ کینیڈا مغربی دنیا کا پاکستان بن چکا ہے، آج گیا تو کل گیا اور اگر ہندوستان کے گھر میں گھس کر مارنے والے، کینیڈا تک پہنچ سکتے ہیں تو یہ بھی سوچیں کہ ہمسائے میں بیٹھا حافظ سعید کیا سو سال کی عمر پائے گا؟
کسی اور کے گھر میں گھس کر مارنے سے پہلے اپنوں کے گھر میں گھس کر مارنا پڑتا ہے اور یہ ہندوستان میں ہر روز ہوتا ہے۔ اس ہفتے پارلیمنٹ میں بی جے پی کے ممبر نے مسلمان ممبر کو کیا کہا؟ کٹوا ملا، دہشتگرد۔۔۔ شاید یہ وہ ہی الفاظ ہیں جو تقسیم کے زمانے میں بلوائی ایک دوسرے کو کاٹنے سے پہلے کہتے ہوں گے۔
ہمارے بڑے ہندوؤں کے بارے میں کہتے تھے کہ بغل میں چھری منہ پہ رام رام۔ انگریزوں سے آزادی حاصل کرتے ہوئے ہم لوگ اسی خطے میں اپنے ہی گاؤں، شہر والوں کے گھروں میں گھس کرلاکھوں لوگوں کو مار چکے ہیں۔ ان مارنے والوں کو ہم بلوائی کہہ کر بھول جاتے ہیں۔
مودی جی نے ورلڈ لیڈر بننے کا اپنا سفر ایک بلوہ کردار سے شروع کیا تھا، اپنے لوگوں کو اجازت دی تھی کہ گھروں میں گھس کر مارو۔ اس بلوے نے انھیں دہلی کا حکمران بنا دیا۔ کینیڈا تو ویسے بھی مغربی دنیا کا پاکستان ہے۔