اہم خبریں

محمد بن سلمان ایک بار پھر پیرس میں: فرانس سعودی ولی عہد کو اتنی اہمیت کیوں دے رہا ہے؟

سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان بُدھ کو فرانس کے دورے پر روانہ ہو گئے ہیں۔

فرانسیسی صدر کے دفتر نے بتایا ہے کہ جمعے کو صدر ایمانوئل میکخواں اور سعودی وزیر اعظم پیرس کے ایلیسی پیلس میں ملاقات کریں گے۔

ایک سال میں یہ دوسرا موقع ہے، جب یہ دونوں رہنما فرانس میں ملاقات کر رہے ہیں۔

اس سے قبل گذشتہ سال 28 جولائی کو سعودی ولی عہد نے پیرس میں میکخواں سے ملاقات کی تھی۔ یہ ملاقات بھی ایلیسی پیلس میں ہوئی تھی۔

سنہ 2018 میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد مغربی ممالک کے غصے کا سامنا کرنے کے بعد پہلی بار سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کسی یورپی یونین کے کسی ملک کا دورہ کیا تھا۔

اس دوران دونوں کے درمیان ہونے والی بات چیت سے زیادہ دونوں کے درمیان 15 سیکنڈ کے مصافحہ پر زیادہ بحث ہوئی تھی۔

اس بار ایجنڈے میں ہے کیا؟

محمد بن سلمان جمعہ کو پیرس میں ایمانوئل میکخواں سے ملاقات کریں گے۔

دونوں رہنما دو طرفہ تعلقات کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔

سعوی ولی عہد ایکسپو 2030 کے لیے 19 جون کو ہونے والے اجلاس میں بھی شرکت کریں گے۔ یاد رہے کہ محمد بن سلمان سعودی عرب میں ورلڈ ایکسپو 2030 کے انعقاد کے خواہاں ہیں۔

سعودی وزیراعظم 22 اور 23 جون کو ہونے والے نئے معاشی معاہدے سے متعلق ہونے والی کانفرنس میں سعودی وفد کی قیادت بھی کریں گے۔

فرانس کا سعودی عرب کی طرف ہاتھ بڑھانا چین کے تناظر میں بھی اہمیت کا حامل ہے۔

رواں برس اپریل میں میکخواں تین روزہ دورے پر چین گئے تھے، جہاں انھوں نے چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی تھی۔

اس دورے کے بعد صدر میکخواں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ تائیوان کے معاملے پر یورپ کو چین اور امریکہ کے درمیان نہیں آنا چاہیے۔ انھوں نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ یورپ امریکہ پر اپنا انحصار کم کرے۔ ان کے اس بیان پر شدید تنقید بھی کی گئی تھی۔

تاہم یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ صدر میکخواں نے خود کو امریکہ کے فیصلوں سے دور کرنے کی کوشش کی اور انھیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

ایسے میں پیرس میں ایک سال کے اندر ایک بار پھر سعودی ولی عہد سے ملاقات کے بعد یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا فرانس امریکہ سے دور اور اس کے مخالف کیمپ کے قریب ہو رہا ہے۔

صدر میکخواں نے امریکہ کے بارے میں کب اور کیا کہا؟

اپریل 2023: چین کے دورے کے دوران چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے بعد بیجنگ سے چینی شہر گوانزو جاتے ہوئے ایک انٹرویو میں میکخواں نے تائیوان کے معاملے پر کہا کہ ’یورپ ایسے مسائل میں پھنس کر ’بڑا خطرہ‘ مول لیتا ہے جو ہمارے مسائل نہیں ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو یورپ کو اپنی سٹریٹجک خود مختاری کو قبول کرنے سے روک رہی ہے۔ چین تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے جبکہ امریکہ تائیوان کی حمایت کرتا ہے اور اسے ہتھیار بھی دیتا ہے۔‘

دسمبر 2022: فرانسیسی صدر میکخواں نے یوکرین پر حملے کے لیے روس کے خلاف سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ لیکن نومبر 2022 میں جب رومانیہ کے دارالحکومت میں نیٹو کے اجلاس میں 30 ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی تو فرانس نے اس میں شرکت نہیں کی۔ اس سے یہ خبر پھیلی کہ روس کے خلاف مغربی ممالک کے اتحاد میں دراڑ آ گئی ہے۔

جون 2022: میکخواں نے روس کے لیے سکیورٹی گارنٹی کے بارے میں بات کی۔ انھوں نے کہا کہ روس کی تذلیل نہ کی جائے تاکہ جنگ ختم کرنے کے لیے سفارتی ذرائع سے بات چیت کا دروازہ کھلا رہے۔ اس بیان پر انھیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

مارچ 2022: یوکرین کی جنگ کے بعد قوم سے خطاب میں فرانس کے صدر میکخواں نے کہا کہ فرانس کو اپنی سلامتی اور توانائی کی فراہمی کے حوالے سے خود مختار رہنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اپنے دفاع کے لیے دوسروں پر انحصار نہیں کر سکتے، یورپ کے ممالک کو دفاع کے معاملے میں نیا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔

ستمبر 2021: امریکہ نے آسٹریلیا اور برطانیہ کے ساتھ مل کر اوکس کا اعلان کیا جبکہ فرانس نے اس کی سخت مخالفت کی۔ فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں یوس لی ڈریان نے امریکہ اور آسٹریلیا پر ’دھوکے، اعتماد کی خلاف ورزی اور توہین آمیزی‘ جیسے الزامات عائد کیے۔

واضح رہے کہ آکس معاہدے کے تحت امریکا نے آسٹریلیا کو ایٹمی آبدوزیں بنانے کی ٹیکنالوجی فراہم کرنی تھی۔ اس سے فرانس اور آسٹریلیا کے درمیان ایٹمی آبدوزوں کے حوالے سے معاہدہ ختم ہو گیا تھا۔

نومبر 2019: شمالی شام سے امریکہ کی اپنی فوجوں کے انخلا کے بارے میں میکخواں نے کہا کہ امریکہ کو پہلے نیٹو سے بات کرنی چاہیے تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ انھوں نے مشترکہ سکیورٹی کے لیے نیٹو کے عزم پر سوال اٹھایا اور نیٹو کو ’برین ڈیڈ‘ قرار دیا۔

فرانس نیٹو کے بانی ارکان میں سے ایک ہے۔ انھوں نے ’دی اکانومسٹ‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یورپ کو اپنے مستقبل کا خود مالک بننا چاہیے اور اسے خود کو ایک جغرافیائی سیاسی طاقت کے طور پر دیکھنا چاہیے۔

ستمبر 2017: پیرس میں ایک تقریب میں، میکخواں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ’یورپی یونین کو ایک مشترکہ فوجی طاقت کے ذریعے اپنی خود مختار طاقت حاصل ہو‘۔ انھوں نے کہا کہ اسے نیٹو کی جگہ نہیں لینا چاہیے بلکہ اس کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔

کیا فرانس امریکہ سے دور ہو رہا ہے؟

ترکی میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد محمد بن سلمان کو شدید تنقید کا سامنا تھا۔ تب سے مغربی ممالک سعودی عرب کے ولی عہد سے ملاقات کرنے سے گریز کر رہے تھے۔ لیکن فرانس نے گذشتہ سال جس طرح سعودی ولی عہد کا استقبال کیا وہ دنیا کی توقع سے کہیں زیادہ تھا۔

کہا جا رہا ہے کہ فرانس اب امریکہ کے ماتحت نہیں رہنا چاہتا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق فرانس چین اور روس کی قیادت میں ہونے والی برکس کانفرنس میں شرکت کرنا چاہتا ہے۔ برکس سربراہی اجلاس اس سال جنوبی افریقہ میں ہونے جا رہا ہے۔ انڈیا بھی برکس میں شامل ہے۔

دلی میں پروفیسر ہرش وی پنت ڈیپارٹمنٹ آف سٹڈیز اور فارن پالیسی کے نائب صدر ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’فرانس میں یہ خیال ہمیشہ رہا ہے کہ وہ امریکہ سے ہٹ کر اپنی علیحدہ شناخت بنائے۔ فرانس بھی یورپ میں قیادت سنبھالنے کے عزائم رکھتا ہے۔‘

پروفیسر ہرش پنت کا کہنا ہے کہ یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ میکخواں ملک کے پہلے رہنما ہیں جنھوں نے امریکہ سے الگ شناخت کی کوشش کی ہے۔

پروفیسر ہرش پنت کا کہنا ہے کہ ’سعودی عرب ایک طرف خود مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی راہ پر ہے اور دوسری طرف فرانس خود بھی ان تعلقات کو مختلف طریقے سے آگے لے کر جانا چاہتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’ماضی میں امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں تلخی رہی ہے، سعودی ولی عہد ابھی تک بائیڈن انتظامیہ کو نہیں بھولے ہیں، بائیڈن تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ خود سعودی عرب گئے، ان کے وزیر خارجہ بھی سعودی عرب گئے، لیکن کچھ حاصل ہوتا نظر نہیں آ رہا، حالانکہ اس کا فائدہ چین کو مل رہا ہے، جو مشرق وسطیٰ میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔

دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار یورپی سٹڈیز کے پروفیسر گلشن سچدیوا بھی اس بات سے متفق ہیں کہ فرانس کے لیے سٹریٹجک خود مختاری کی بات کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب روس یوکرین جنگ شروع ہوئی تو یورپ کے تمام ممالک ایک بار پھر امریکہ پر انحصار کرنے لگے۔

پروفیسر گلشن سچدیوا کہتے ہیں کہ ’وہ سٹریٹجک خود مختاری کی بات کر رہے تھے لیکن خود اس معاملے کو حل نہیں کر سکے۔ دونوں کے تعلقات میں ایک قسم کا تضاد ضرور ہے۔‘

ان کے مطابق فرانس میں اس طرح کی بات کر کے اپنی اہمیت ظاہر کرنے کی روایت ہے۔ ایک طویل عرصے سے انجیلا مرکل، جو جرمنی کی چانسلر تھیں، کو یورپ کی قیادت کرنے والی ’ڈیفیکٹو لیڈر‘ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اب ان کی روانگی کے بعد یہ مقام ابھی ایک طرح سے خالی پڑا ہے۔ میکخواں اس مقام کو حاصل کرنے کے بھی خواہاں ہیں۔‘

سال 2003 میں جب امریکہ نے عراق کے حکمران صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے حملہ کیا تو فرانس کے صدر جیک شیراک نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ فوج کے استعمال کا فیصلہ اقوام متحدہ کا ہونا چاہیے۔

اس سے کئی دہائیاں قبل 1966 میں فرانسیسی صدر چارلس ڈی گال نے امریکہ سے کہا تھا کہ وہ ویتنام سے اپنی فوج نکال لے، اگر امریکہ ایسا کرتا ہے تو جنگ کے خاتمے کے لیے بات چیت ہو سکتی ہے۔

چین کا فیکٹر

کچھ عرصہ قبل سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات جو ایک عرصے سے ایک دوسرے کے سخت مخالف تھے، چین کی ثالثی میں دوبارہ بحال ہوئے ہیں۔

اس سال مارچ میں جب چینی صدر شی جن پنگ نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ انھوں نے چینی کرنسی یوآن میں تیل کی تجارت کی بات کی۔

اس کے بعد رواں سال مارچ میں ملک کی سب سے بڑی کمپنی آرامکو نے چین کے ساتھ دو معاہدوں پر دستخط کیے جس کے تحت کمپنی چین میں دو ریفائنریز میں سرمایہ کاری کرے گی۔

پروفیسر ہرش پنت کا کہنا ہے کہ ’فرانس ایک طرح سے امریکہ کی مدد کر رہا ہے۔ اگر سعودی عرب پوری طرح سے چین کے کیمپ میں چلا جاتا ہے تو یہ مغربی ممالک کے لیے بہت بڑا نقصان ہو گا کہ دونوں ملک ایک دوسرے سے الگ چل رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ فرانس یہ بھی محسوس کر رہا ہے کہ وہ اپنی الگ پالیسی پر عمل پیرا ہے لیکن میخکواں بالواسطہ طور پر امریکہ کی مدد کر رہے ہیں۔‘

پروفیسر گلشن سچدیوا کا کہنا ہے کہ ’جی سیون اور یورپ کے بڑے ممالک مختلف مؤقف رکھ سکتے ہیں، مگر ان کے مفادات ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور جب کوئی بڑا چیلنج آتا ہے تو یہ ممالک اکٹھے ہو جاتے ہیں۔‘

آکس سے متعلق پیش رفت کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’یہ سچ ہے کہ ان کے اپنے سکیورٹی خدشات ہیں اور بعض اوقات تعلقات کشیدہ ہو جاتے ہیں، لیکن وہ ایک دوسرے کے خلاف نہیں جاتے۔‘

ایک طرف میکخواں نے تائیوان کے معاملے پر غیر جانبدار رہنے کی بات کی تو دوسری طرف مئی میں جی 7 ممالک نے جاری کردہ اس مشترکہ اعلامیے پر دستخط بھی کر دیے جس میں یہ لکھا تھا کہ چین اس وقت عالمی سلامتی کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔

جنگ شروع ہونے سے پہلے انھوں نے روسی صدر پیوتن سے کئی بار بات چیت کی لیکن پھر بعد میں جب جنگ شروع ہوئی تو انھوں نے مغربی ممالک کے ساتھ یوکرین کی مدد کا اعلان کیا۔

بدلتی ہوئی صورتحال اور تیل کا مسئلہ

یوکرین پر روسی حملے کے بعد امریکہ کے ساتھ کھڑے بعض یورپی ممالک کی معیشت بُرے دور سے گزر رہی ہے کیونکہ روس ان کے لیے قدرتی گیس کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔

ایسے میں ان ممالک نے متبادل کی تلاش شروع کر دی اور سعودی عرب کو اس آپشن کے طور پر دیکھا جانے لگا۔

پروفیسر گلشن سچدیوا کہتے ہیں کہ ’ایک وقت تھا جب دنیا کی جغرافیائی سیاست تیل کے گرد گھومتی تھی، لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔ امریکہ پہلے تیل کا بڑا درآمد کنندہ تھا لیکن اب وہ تیل کا بڑا برآمد کنندہ بن گیا ہے۔‘

’روس کے ساتھ یورپ کے تعلقات خراب ہو چکے ہیں اور وہ روس سے تیل کی درآمد بند کرنے والے ہیں۔ ایسے میں روس اپنی منڈیوں کو انڈیا اور چین جیسے ممالک میں تلاش کر رہا ہے جب کہ یورپ کا رُخ پائیدار توانائی اور امریکہ کی طرف ہو رہا ہے۔‘

تاہم ان کا کہنا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے تعلقات کو تیل کے تناظر میں دیکھنا ایک معمولی بات ہوگی کیونکہ ان کا تعلق تیل کی سیاست سے بہت آگے ہے۔

پروفیسر ہرش پنت کا کہنا ہے کہ ’مغربی ممالک کے سامنے توانائی کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ سعودی ولی عہد کے آخری دورے میں یہ ایک بڑا مسئلہ تھا۔ چونکہ روس پر پابندیاں تھیں، اس لیے یہ ملک چاہتا تھا کہ سعودی عرب تیل کی قیمتوں میں اضافے کی اجازت نہ دے۔

میکخواں اپنی ملاقاتوں کا کوئی مؤثر نتیجہ چاہتے ہیں اور وہ اپنے شہریوں کے لیے تیل اور گیس کی فراہمی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے، وہ اب یورپ کو بھی ایک بڑی منڈی کے طور پر دیکھ رہا ہے۔‘

پروفیسر ہرش پنت کہتے ہیں کہ ’پہلے طے شدہ اتحاد ہوا کرتے تھے، اب اس کا دور گزر چکا ہے۔ موجودہ صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے اور عالمی سطح پر ممالک میں غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ مستقبل میں کیا ہوگا۔ ایسے میں ممالک دوسروں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ فرانس اس معاملے میں اکیلا نہیں، اس وقت تمام ممالک ایک جیسا راستہ اپنا رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر ہم فرانس کو دیکھیں تو وہ امریکہ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، یورپی یونین کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، چین کے ساتھ ایک مختلف سطح پر تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے۔ لیکن وہ بہت سے معاملات پر اپنا آزادانہ مؤقف بھی رکھتا ہے۔‘