اہم خبریں

ماں کی جان بچانے کے لیے جگر عطیہ کرنے سے ایتھلیٹ بننے تک کا سفر: ’زیادہ ہلنے سے میرا جِگر اوپر نیچے ہوتا تھا‘

’جب کبھی ہم کار میں ہوتے تھے تو سپیڈ بریکر آنے پر میرا جِگر بھی اوپر نیچے ہوتا تھا۔ بائیں کروٹ پر جِگر بائیں اور دائیں کروٹ پر دائیں لڑھک جاتا تھا کیونکہ جگہ بہت خالی ہو گئی تھی۔ رات میں مجھے صرف سیدھا لیٹ کر سونے کی ہدایت دی گئی تھی۔‘

یہ الفاظ 29 سالہ انڈین ایتھلیٹ انکیتا شریواستو کے ہیں، جنھوں نے اٹھارہ برس کی عمر میں اپنی ماں کی جان بچانے کے لیے اپنے جِگر کا 74 فیصد حصہ انھیں دینے کے بعد سپورٹس جیسے مشکل راستے کا انتخاب کیا اور غیر معمولی مقام بھی حاصل کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ وہ کئی سٹارٹ اپ کمپنیوں کی مالک بھی ہیں لیکن یہ سب کچھ کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔

انڈیا کے شہر بھوپال سے تعلق رکھنے والی انکیتا اس وقت محض 13 برس کی تھیں جب پتا چلا کہ ان کی والدہ کو جِگر کا مرض ’لیور سروسس‘ ہے جس میں ٹرانسپلانٹ ہی ایک واحد راستہ رہ گیا تھا۔

انکیتا کے بقول انھیں جب بتایا گیا کہ ان کا جگر ان کی والدہ سے میچ ہو گیا ہے تو انھوں نے یہ فیصلہ کرنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگایا کہ وہ اپنی والدہ کو اپنا جگر دیں گی لیکن اس وقت ان کی عمر کم ہونے کی وجہ سے ان کے اٹھارہ برس کے ہونے تک انتظار کیا گیا۔

امید کی جا رہی تھی کہ شاید اس درمیان انھیں کوئی اور ڈونر مل جائے لیکن ایسا نہیں ہوا اور اٹھارہ برس کی ہونے پر انکیتا کی ٹرانسپلانٹ کے لیے سرجری ہوئی۔

انکیتا بتاتی ہیں کہ سرجری کے لیے جس جوش و خروش کے ساتھ وہ آپریشن تھیٹر میں داخل ہوئی تھیں، سرجری کے بعد ان کی حالت اتنی ہی خراب تھی۔

اس وقت تک لیور ٹرانسپلانٹ کے بارے میں انڈیا میں بھی زیادہ معلومات نہیں تھیں، نہ ہی لوگ یہ جانتے تھے کہ مریض کو آپریشن کے بعد کی حالت کے لیے ذہنی طور پر کس طرح تیار کرنا ہے۔

ٹرانسپلانٹ کے بعد جب انکیتا کو ہوش آیا تو ان کے پورے جسم سے مختلف آلات کے تار لپٹے ہوئے تھے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے ہاتھ سے مورفین کے انجکشن کی ایک نلی جڑی ہوئی تھی۔ جیسے ہی انھیں تھوڑا ہوش آتا، تو درد سے تڑپ جاتیں۔ ایسے میں نرس اس دوا کی ایک ڈوز ریلیز کر دیتی۔ کئی روز ایسے ہی چلتا رہا۔

جگر کا تقریباً تین چوتھائی حصہ نکل جانے کی وجہ سے اس مقام پر جو جگہ خالی ہو گئی تھی، اس کے سبب انھیں زیادہ ہلنے جلنے میں بھی تکلیف ہوتی تھی۔

انکیتا کی قربانی ماں کو بچا نہ سکی

انکیتا بتاتی ہیں کہ ’اسی درمیان ٹرانسپلانٹ کے دو سے تین ماہ کے اندر ہی میری والدہ کی وفات ہو گئی۔ ایک دم ہی اتنا کچھ ہوا کہ ذہنی اور جسمانی طور پر میرے لیے یہ سب سہنا بہت مشکل تھا۔ میں نے سب کچھ شروع سے سیکھا، بیٹھنا کیسے ہے، کھڑا کیسے ہونا ہے، چلنا کیسے ہے۔‘

انکیتا کے بقول والدہ کی وفات کے بعد ان کے والد نے انکیتا اور ان کی بہن سے علیحدگی اختیار کر لی۔ دونوں بہنیں دادا دادی کے ساتھ رہتی تھیں اور گھر کا خرچ چلانے کی ذمہ داری بھی بہنوں پر ہی آ گئی تھی۔

انکیتا ٹرانسپلانٹ سے قبل انڈیا میں سوئمنگ اور فٹبال کی نیشنل لیول کھلاڑی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ دوبارہ کبھی سپورٹس میں حصہ لے سکیں گی لیکن تمام ذہنی اور جسمانی مشکلات کے باوجود ایک کھلاڑی ہونے کے جذبے نے انھیں ہارنے نہیں دیا۔

’کامیابی کی چابی لگن ہے‘

انکیتا کے مطابق ’ٹرانسپلانٹ مکمل ہونے پر احساس ہوا کہ زندگی اچانک کتنی بدل جاتی ہے۔ مجھے ٹھیک ہونے میں تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ لگ گیا، جس کے بعد مجھے ورلڈ ٹرانسپلانٹ گیمز کے بارے میں معلوم ہوا۔ میں نے انڈین ٹیم میں سلیکشن حاصل کیا۔‘

’پھر احساس ہوا کہ کسی صحت مند انسان کے مقابلے میرے لیے وہ سب کچھ کتنا مشکل تھا لیکن کامیابی کی چابی لگن ہے۔ اگر آپ لگن سے کوئی کام کرتے ہیں تو کامیاب ہو ہی جاتے ہیں۔‘

وہ ایک طرف کھیلوں میں واپسی کے لیے دوبارہ ٹریننگ کر رہی تھیں تو دوسری طرف نوکری۔ انھوں نے بتایا کہ وہ صبح چند گھنٹے ٹریننگ کر کے دفتر جاتیں اور دفتر سے واپس آ کر دوبارہ ٹریننگ کرتیں۔

ٹرانسپلانٹ کے بعد انکیتا سنہ 2019 میں برطانیہ میں ہونے والے ورلڈ ٹرانسپلانٹ گیمز اور 2023 میں آسٹریلیا میں منعقد ورلڈ ٹرانسپلانٹ گیمز میں لانگ جمپ اور تھرو بال مقابلوں میں تین گولڈ اور تین سلور میڈل حاصل کر چکی ہیں۔

کھیل اور کاروبار

انکیتا آج ایک بین الاقوامی کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک موٹیویشنل سپیکر اور کاروباری شخصیت بھی ہیں۔ وہ میڈیا اور انٹرٹینمنٹ کی صنعت میں سٹارٹ اپس شروع کر چکی ہیں اور مستقبل میں اور بھی بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں۔

ٹرانسپلانٹ کے بعد انکیتا کے طرز زندگی میں کئی بڑی تبدیلیاں بھی آئیں۔ انکیتا کے بقول ٹرانسپلانٹ کے بعد سے انھوں نے گھر کے باہر کا کوئی کھانا، برگر، پیزا جیسی چیزیں نہیں کھائی ہیں۔

جب کبھی وہ دوستوں کے ساتھ باہر جاتی ہیں، تو اپنا کھانا یا میوہ جات جیسی چیزیں ساتھ رکھتی ہیں لیکن تمام مشکلات کے باوجود وہ زندگی کے مختلف تجربات کرنا چاہتی ہیں۔

پیشہ ورانہ کھیل ہو یا ایڈونچر سپورٹس جیسے سکائی ڈائیونگ یا ڈیپ سی ڈائیونگ، انکیتا کسی تجربے سے خود کو دور نہیں رکھتیں۔

اس کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ میری ماں کے پاس ایک سیاہ رنگ کی ڈائری ہوا کرتی تھی جس میں انھوں نے بہت سی باتوں کا ذکر کیا تھا۔ جیسے ’میری بہن کی شادی کرنی ہے، کون کون لوگ مہمان ہوں گے، آفس میں کیا کیا کرنا ہے، کس کس سے میٹنگ کرنی ہے، وغیرہ‘ لیکن وہ سب کچھ ایک جھٹکے میں ختم ہو گیا اور وہ ڈائری رہ گئی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں ہر صبح اٹھ کر خود کو یاد دلاتی ہوں کہ بہت سے لوگوں کی نیند میں ہی موت ہو جاتی ہے۔ بہت سے لوگوں نے خواب دیکھے ہوں گے جو پورے نہیں ہو سکے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے یہ دن نصیب ہوا ہے اور میں کوشش کرتی ہوں کہ اپنے ہر دن کو بیشتر تجربات سے بھر لوں‘۔

’ایسا کرنے سے مجھے بہت سے نئے تجربات حاصل ہوتے ہیں، جن میں کامیابیوں کے ساتھ ناکامیاں بھی ہوتی ہیں اور بہت سی اچھی چیزیں بھی زندگی میں شامل ہو جاتی ہیں۔‘

’ہمیں دوسروں کو سننے کی عادت ڈالنی چاہیے‘

انکیتا کہتی ہیں کہ زندگی کسی کے لیے بھی آسان نہیں اور ہم سب کو چاہیے کہ دوسروں کے لیے رحم اور ہمدردی پیدا کریں۔

وہ کہتی ہیں ’جب کوئی اپنے کسی مسئلے کا ذکر کرے تو اسے یہ بتانا کہ اس کا مسئلہ چھوٹا ہے اور آپ کے ساتھ کچھ اس سے بھی زیادہ بڑا ہوا ہے، یہ رویہ غلط ہے‘۔

وہ کہتی ہیں ’ہمیں دوسروں کو سننے کی عادت ڈالنی چاہیے۔‘

اپنی آنے والی زندگی میں وہ صحت کے شعبے میں بھی کئی کام کرنا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں لوگوں کے لیے کسی مرض کا علاج کرانا اتنا مشکل کام نہیں ہونا چاہیے۔

اپنے مستقبل کے پروجیکٹ کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں ’ہم ایسے ریڈیئیشن سینٹرز قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن تک عام لوگوں کی رسائی آسان ہو تاکہ کینسر کی تشخیص اور اس کے علاج کے لیے انھیں بہت زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے۔‘

انکیتا کہتی ہیں کہ اگر اپنی ماں کی جان بچانے کے لیے انھیں دوبارہ جگر عطیہ کرنا پڑتا تو وہ دوبارہ بھی ضرور کرتیں حالانکہ ٹرانسپلانٹ کے باوجود وہ اپنی والدہ کی جان نہیں بچا سکیں لیکن انھیں اس فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں۔

وہ ابھی زندگی میں بہت کچھ اور بھی کرنا چاہتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’اگر میں کاروبار کر رہی ہوں تو کیا کھیل نہیں سکتی؟ یا کھیل کے ساتھ کیا اپنی ماں کی جان نہیں بچا سکتی؟ میں کرنا چاہوں تو سب کچھ کر سکتی ہوں۔ میری زندگی کا یہی فلسفہ ہے اور میں امید کرتی ہوں کچھ لوگ میرے اس خیال سے متاثر ضرور ہوں گے۔‘