’میرے لیے بہت مشکل تھا یہ کردار قبول کرنا کیونکہ پھر لوگ ’قوم کی ماں‘ بنا دیتے ہیں۔ دیانت داری سے کہوں تو یہ میرے لیے ایک چیلنج تھا۔‘
یہ کہنا تھا پاکستان میں نجی ٹیلی وژن اے آر وائی پر نشر ہونے والے ڈارامہ ’مائی ری‘ میں مرکزی کردار عینی کی والدہ کا کردار نبھانے والی مایا خان کا۔
مایا خان نے اداکاری کے علاوہ مارننگ شو کی میزبان کی حیثیت سے بہت شہرت حاصل کی۔ اب ایک طویل وقفے کے بعد وہ دوبارہ ڈرامہ انڈسٹری میں واپس لوٹی ہیں۔ سب سے خاص بات اُن کی ظاہری شخصیت میں تبدیلی ہے۔
اگرچہ مایا خان وزن کم کرنے کے بعد ایک نئی توانائی کے ساتھ لوٹی ہیں لیکن ڈراموں میں واپسی پر پہلا ہی کردار ایک 15 سالہ لڑکی کی والدہ کا ملا۔ تو اس کے لیے حامی بھرنا کتنا مشکل تھا؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مایا خان کا کہنا تھا کہ مجھے اس کردار کے لیےڈائریکٹر نے قائل کیا۔ ’مجھے پہلے کردار بتایا گیا پھر اس کردار کا سفر بتایا گیا۔ مجھے اس سفر نے متاثر کیا۔ ڈائریکٹر نے مجھ سے پوچھا کہ صرف ایک چہرہ بننا چاہتی ہو یا اداکارہ ، تو میں نے کہا میں اداکارہ بننا چاہتی ہوں اور سب کچھ کرنا چاہتی ہوں۔‘
’انھوں نے کہا کہ اگر آپ کی 14 سال کی عمر میں شادی ہو جاتی تو کیا آپ کی اتنی بڑی بچی ہوتی۔ جو کہ میں نے کہا کہ منطقی طور پر صحیح بات ہے۔ تو انھوں نے کہا کہ بس یہی دکھانا ہے کہ ایک نسل نے وہ درد سہا، وہ تکلیف دیکھی اسی لیے وہ نہیں چاہتی کہ میری آگے آنے والی نسل وہ تکلیف دیکھے۔ تب میں نے کردار کے لیے ہاں کہا۔‘
مایا خان کا کہنا تھا کہ ماں کی اداکاری کرنا بھی آسان نہیں تھا۔ ’میرے لیے ماں بننا مشکل تھا۔ میرے بچے نہیں ہیں تو میں اور عینی بچوں کی طرح لڑتے تھے۔ ہمیں ڈانٹ پڑتی تھی کہ اوہو! دو بچوں کو لے لیا ہے۔ وہ کہتے ماں تو لگتی ہی نہیں ہے۔ خدا کے لیے ماں بن جاؤں اب۔‘
’میں اپنی بھتیجیوں کو سوچ کر کردار نبھاتی اور ان کا تصور کر کے جذباتی ہو جاتی۔‘
ڈرامے کے موضوع کا اداکاروں پر دباؤ
مایا خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ماضی کے ڈراموں میں بھی سبق، خاندانی نظام اور ایک سوچ ہوا کرتی تھی۔ تفریح میں بھی جانے کتنے سبق مل جاتا کرتے تھے۔
حسّاس موضوعات کے وجہ سے فنکاروں پر کیا دباؤ ہوتا ہے۔ اس حوالے سے مایا خان کا کہنا تھا ’یقیناً اس کا فنکاروں پر دباؤ ہوتا ہے۔ مائی ری کا بھی دباؤ تھا۔ ہم ایسے موضوع کو لے کر ڈرامہ بنانے والے تھے جس کو اگر توازن سے نہ بنایا جاتا تو اس پر تنقید بھی ہو سکتی تھی۔‘
’یہ ایک مسئلہ ہے، سائنسی، سماجی، معاشی،اخلاقی، اور خاندانی طور پر اس کے بہت سے پہلو ہیں۔ ڈر تھا کہ اگر ہم خدانخواستہ جانب دار ہو گئے، چاہے اس طرف یا اس طرف، تو اس کا الٹا رد عمل آئے گا۔ ہم نے بہت پھونک پھونک کر اسے بنایا ہے۔ اور ہم کسی حد تک موضوع سے انصاف کر پائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ڈراموں میں اچھا کام ہو رہا ہے۔ ’اچھی بات یہ ہے کہ اچھا کام اب ساری دنیا میں دیکھا جا رہا ہے۔ اچھی کہانیوں کی تعریف ہو رہی ہے۔ مزہ اب اس لیے آ رہا ہے کہ یہ ایک سرحد تک محدود نہیں ہے۔ اچھا کام دنیا میں پسند یا ناپسند کیا جا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کا فائدہ یہ ہے کہ ’اچھے کام کی تعریف ہو گی تو یہ مزید بنے اور اگر برا کام ہو گا تو لوگ پھر سے وہ نہیں بنائیں گے۔ کام اب ڈبے میں بند نہیں ہوتا۔‘
کیا منظر کشی میں چائلڈ میرج کے موضوع سے انصاف ہوا؟
’مائی ری‘ دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ڈرامے کی کہانی کم عمری کی شادی کو نامناسب دکھانے میں اُس حد تک کامیاب نہیں ہو سکی جتنا اس سے توقع کی جا رہی تھی۔ کچھ لوگوں کا تو خیال ہے کہ بظاہر تو یہ ڈرامہ اسے معمول کی بات دکھا رہا ہے کہ آخر میں سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔
اس پر مایا خان کا کہنا تھا ’اس کہانی میں بہت سے موڑ ہیں۔ لوگوں کو اس کہانی کے پہلو دکھانا ضروری ہیں، اسے سمجھنا لوگوں کا کام ہے۔ ہم سب کچھ دکھائیں گے کہ ایک خاندان ہے جہاں چھوٹی عمروں میں شادیاں ہو جاتی ہیں، لیکن چھوٹی عمر میں شادی کے فائدے اور نقصان کیا ہیں۔ اب اس کے ساتھ اچھے اور بُرے رنگ دونوں نظر آ رہے ہیں۔‘
اس ڈرامے کے نوجوانوں خصوصاً کم عمری میں شادی کر لینے والے یا کرنے کی خواہش رکھنے والوں پر کیا اثرات ہوں گے؟ اس پر ان کا کہنا تھا ’یہی چیز دکھائی ہے، مختلف سوچ رکھنے والے لوگ ہیں۔ اگر دو لوگ ایک طرح سوچتے ہیں تو انھیں اپنے زندگی شروع کرنے کا پورا حق ہے۔‘
’اگر انھیں لگتا ہے کہ وہ پوری ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں، وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے شروع کر رہے ہیں۔ یہ آزادی کے بارے میں بھی ہے۔ کیا بچوں کی شادی مرضی سے ہو رہی ہے؟ یا شادی ان پر لادی جا رہی ہے۔ اس صورتحال کی بہت سے اقسام ہیں۔‘
شائقین میں سے کچھ لوگوں کی شکایت ہے کہ ڈرامہ یہ ہرگز کہتا نظر نہیں آتا ہے چائلڈ میرج یا کمر عمری کی شادی نہیں ہونی چاہیے۔
اس پر مایا خان کا کہنا تھا کہ ’مائی ری، میں کہیں یہ نہیں دکھایا گیا کہ بچوں کی شادی نہیں ہونی چاہیے، بلکہ یہ دکھایا گیا کہ چائلڈ میرج کے اثرات اور پہلو کیا ہیں۔ ایک بچی کھیل رہی ہے اور اس پر شادی لاد دی جاتی ہے جو وہ کرنا نہیں چاہتی۔ اس لگتا ہے مجھے پڑھائی سے روکا جا رہا۔ جب وہ راضی ہوتی ہے تب بھی وہ یہی کہتی ہے کہ اس کی پڑھائی نہیں رکنی چاہیے۔ اس میں تعلیم کی اہمیت اجاگر لی گئی ہے۔‘
’دکھایا گیا ہے کہ ایک صورتحال ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے؟ ہمارے اور آپ کے خاندان دیکھ رہے ہیں۔ ایسی کہانیاں لکھنا بہت مشکل ہوتا ہے جس میں ہر کردار کو توازن کے ساتھ دکھایا جا سکے۔‘
تاہم اس ڈرامہ کے ڈائریکٹر مسیم نقوی کا کہنا ہے کہ ڈرامہ چائلڈ میرج کو سپورٹ نہیں کرتا بلکہ یہ ہم یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم ایک تسلسل کو توڑ رہے ہیں۔
’میں عائشہ اور مایا میں تقابل کرتی رہی‘
مایا خان کا کریئر تو ذاتی زندگی بھی کافی اتار چڑھاؤ کا شکار رہا۔ دو مرتبہ نکاح ٹوٹنے جیسے صدمات کے باعث وہ کہتی ہیں کہ وہ خود کو کافی ٹوٹا ہوا محسوس کرنے لگی تھیں۔
اپنے ایک سابقہ انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ اپنی مرضی سے چُنی ہوئی زندگی کی وجہ سے وہ پہلے پہل اس صورتحال سے نکلنے کے لیے کسی سے بات نہیں کر پاتی تھیں لیکن پھر انھوں نے اس سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عائشہ کے کردار نے انھیں کافی متاثر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈرامے کے ڈائریکٹر نے ان کی زندگی سے مثالیں دے کر تکلیف دہ مناظر میں اداکاری کرنے میں مدد دی کہ ’یاد کرو کیسے ہوا تھا، کیا سب عزت سے ہوا تھا؟‘
’میں بیٹھ کر سوچتی، شکر ہے یہ میں نے نہیں کیا۔ میں خود سے کہتی شکر ہے! تم نے عائشہ والی بے وقوفی نہیں کی۔ شکر ہے تم اپنے لیے کھڑی ہوئیں مایا۔‘
مایا خان کا کہنا تھا کہ اپنے کردار کے ساتھ اپنے تقابل میں انھوں نے بہت سیکھا کہ ’میرے لیے یہ دو افراد کی آپس کی گفتگو ہوتی کہ عائشہ یہ کرتی ہے، مایا کیا کرتی؟ جو مایا کر سکتی ہے وہ عائشہ نہیں کر سکتی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انھیں اپنی زندگی میں کسی اقدام یا فیصلہ کا پچھتاوا نہیں۔ ’یہ تو میری کہانی کے مختلف باب ہیں۔ انہی سے میری کہانی بنی ہے۔ اس لیے میں اپنی ناکامیوں کو زندگی سے کبھی نہیں نکالنا چاہوں گی بلکہ میں تو انھیں تمغوں کی طرح خوشی سے سجاتی ہوں۔ میری ناکامیوں نے ہی تو مجھے بنایا ہے۔‘
پاکستانی ڈراموں کی مجبور مائیں
ڈرامے کے نام ’مائی ری‘ سے ایک تاثر یہ بھی ملا کہ کم عمری کی شادی کا شکار بچی کی ماں اس کے لیے نہ صرف لڑے گی بلکہ اس کو سہارا بھی دے گی لیکن مرکزی کردار ’عینی‘ کی ماں عائشہ کا کردار بھی پاکستانی ڈراموں کی کئی دوسری مجبور و لاچار روتی دھوتی عورتوں سے مختلف نہیں تھا بلکہ کئی مناظر میں خود چائلڈ میرج کا شکار بچی اپنی ماں کے حق کے لیے آواز اٹھاتی نظر آتی ہے۔
یہی سوال مایا خان سے کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس ڈرامے میں مامتا کو ایک جذبے کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ جس کا اظہار ہر رشتہ ایک دوسرے سے کرتا نظر آیا، کبھی ماں بیٹی کے لیے تو بیٹی ماں کے لیے، کبھی جیٹھانی دیورانی کے لیے تو کبھی بہن اپنی چھوٹی بہن کے لیے۔
مایا خان کا کہنا تھا ’مائیں کمزور نہیں ہوتیں ، مائیں مجبور ہوتی ہیں۔اس کہانی میں بھی ماں اس بات پر روتی ہے کہ میں کتنے دھوکوں سے گزری، شوہر کی بیوفائی اور پھر سوتن، پھر اس کی بیٹی کہتی ہے کہ آپ کو ایسے مرد کے لیے آنسو نہیں بہانے چاہییں۔ میں آپ کا ساتھ دوں گی، میں آپ کے لیے کماؤں گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’ہم وہ احساس جگانا چاہتے ہیں کہ وہ مائیں، بہنیں، بیٹیاں جو بھول گئی ہیں کہ آپ کے اندر بہت ہمت ہے۔ آپ بہت کچھ کر سکتی ہیں لیکن پہلے اپنے لیے کچھ کریں۔‘
ہنسنے کھیلنے والی مایا کے رونے والے کردار
مایا خان کو مارننگ شو میں بھی ناظرین نے زیادہ تر روتے دیکھا ہے اور اب ڈراموں میں واپسی پر پہلا کردار ہی رونے دھونے والا کیوں چُنا؟
اس پر مایا نے پہلے تو ہنستے ہوئے کہا ’یہ تو آپ ڈائریکٹر سے پوچھیں کہ مجھے رونے والے کردار کیوں دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں آپ روتی ہوئی اچھی لگتی ہیں تو میں کہتی ہوں چلو میں رو دیتی ہوں۔‘
تاہم مایا کا کہنا تھا کہ وہ رونے کے لیے کبھی گلیسرین نہیں استعمال کرتیں۔ وہ کردار کو محسوس کر کے اپنی حقیقی زندگی کے واقعات کو سوچ کر رو لیتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں اب عائشہ سے مختلف کردار چننا چاہوں گی، جس کا بڑا کینوس ہو۔ پہلے بھی بڑے مصنفین کے ساتھ کام کیا ہے اور میں خود کو خوش نصیب سمجھتی ہوں کہ مجھے اچھی کہانیاں ملیں۔ چیلنج ملے جیسے اس ڈرامے میں ماں بننا ایک چیلنج تھا۔ تاکہ آپ اور میں کہہ سکیں کہ مایا نے اچھا کام کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اداکاروں کو کسی ایک کردار میں لاک نہیں کرنا چاہیے انھیں مختلف کردار ملنے چاہییں۔‘
مائی ری کے اداکاروں میں ایک بڑی تعداد نوجوان فنکاروں کی ہے ان کے ساتھ کام کرنے کے حوالے سے مایا خان کا کہنا تھا کہ انھوں کام کے ساتھ ساتھ بہت مستی کی۔
’سیٹ پر بچے مجھ سے بڑے ہو جاتے تھے سوچتے تھے کہ ایک اور بچہ آ گیا ہے، میں نے بہت مستی کی۔ کیونکہ میں اپنے بھانجے بھانجیوں اور بھتیجوں کے ساتھ بھی بہت دوستانہ رہی ہوں۔میرے ساتھ بچوں کا تعلق بہت زیادہ رہا ہے۔‘
مایا خان کا کہنا تھا چونکہ ڈرامے میں کئی مناظر میں خاندان کو ایک ساتھ کھانا کھاتے دکھایا گیا اس لیے اکثر سین کے دوران کھانا ختم ہو جاتا۔ ’سبھی کھانے کے شوقین تھے اس لیے کسی کا بھی سین ہو نعمان اعجاز کھانا کھانے بیٹھ جاتے۔ کھانے نے پوری کاسٹ کو متحد رکھا اکثر سیٹ پر کھانے کھائے جاتے تھے۔‘
سوشل میڈیا پر اچھے فینز کی ڈھال
مایا خان بھی ان فنکاروں میں شامل ہیں جو سوشل میڈیا پر اب کافی ایکٹو ہیں۔ وہ اپنی فینز سے اکثر بات چیت کرتی نظر آتی ہیں۔ کیا فنکاروں کا شائقین سے اتنا زیادہ رابطہ فائدہ مند ہوتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں مایا خان نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’میں دل کی سنتی ہوں، جب لوگ پسند کرتے ہیں تو میں جواب دیتی ہوں، نہیں کرتے تو جواب نہیں دیتی۔‘
ان کا کہنا تھا ’وقت کے ساتھ چلنا بہت ضروری ہے، خود کو ڈھالنا بہت ضروری ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ منفی کمنٹس بھی بہت آتے ہیں لیکن اب پسند کرنے والے شائقین ایک منفی کمنٹس پر خود ہی جواب دے دیتے ہیں اور انھیں کسی کو جواب نہیں دینا پڑتا۔ ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر اچھے برے ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’میں نے اچھے لوگوں کو اہمیت دینا شروع کر دیا ہے۔ منفی کمنٹ آئیں گے یہ اس کا حصہ ہے۔ اب یہ آپ کو کتنا متاثر کرتے ہیں یہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔‘