ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر پہنچنے سے پہلے آسٹریلیا کے انجینیئر جیسن کینیسن نے اپنی والدہ سے فیس ٹائم پر رابطہ کیا اور کہا کہ وہ واپسی پر ان سے بات کریں گے۔
ان کا خواب تھا کہ وہ دنیا کے سب سے بلند مقام پر جا کر اپنی پسندیدہ چیریٹی تنظیم ’سپائنل کارڈ انجریز آسٹریلیا‘ کے لیے پیسے اکھٹے کریں۔
فیس ٹائم پر ہونے والی یہ ویڈیو کال وہ آخری موقع تھا جب گل کینیسن نے اپنے بیٹے کو زندہ دیکھا۔ 40 سالہ جیسن چوٹی سے نیچے اترتے ہوئے ’ہائی آلٹیچیوڈ‘ بیماری کا شکار ہو کر ہلاک ہو گئے۔
رواں سال ماؤنٹ ایورسٹ پر 12 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس سے پہلے 2019 میں اس وقت 11 اموات ہوئی تھیں جب ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی تک رسائی حاصل کرنے کے خواہش مند کوہ پیماؤں کی ایک طویل قطار کی ایک تصویر وائرل ہوئی تھی۔
اس سال بھی کوہ پیما اس چوٹی تک پہنچنے کے خطرات سے نمٹتے ہوئے ہلاک ہوئے۔ تین شیرپا گر کر ہلاک ہوئے جب کہ جینسن جیسے کوہ پیما بیماری کا شکار ہوئے۔
تاہم اتنی زیادہ تعداد میں ہلاکتوں کے بعد نیپال میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے لیے ریکارڈ تعداد میں جاری ہونے والے پرمٹ پر بھی تنقید ہو رہی ہے۔ دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر بھی خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ٹریفک جام
نیپال کوہ پیماؤں کے لیے ایک پسندیدہ مقام ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس بار 900 پرمٹ جاری ہوئے اور اتنی زیادہ تعداد کی وجہ سے چوٹی کے راستے پر ٹریفک جام ہو گیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے امریکی کوہ پیما کمپنی میڈیسن ماؤنٹینیئرنگ کے گیریٹ میڈیسن نے بھی اس سے اتفاق کیا۔
واضح رہے کہ ایسی قطاریں اس وقت بن جاتی ہیں جب چوٹی تک رسائی کے خواہش مند کوہ پیما مناسب موسم کے انتظار میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اتنی بلندی پر وہ تیز رفتار ہواؤں کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔
دوسری جانب کم تجربہ کار کوہ پیما بھی ایسی قطاروں کی وجہ بنتے ہیں۔
آٹھ ہزار میٹر سے بلند چوٹیوں پر ہوا میں سانس لینا مشکل ہوتا ہے اور کوہ پیما آکسیجن کے کنستر کا سہارا لیتے ہیں۔ تاہم اگر رش زیادہ ہو جائے تو ایسے میں آکسیجن کی محدود سپلائی ایک مسئلہ بن سکتی ہے۔
دوسری جانب اتنی بلندی پر جسم عام حساب سے زیادہ مقدار میں پانی بناتا ہے جس سے پھیپھڑوں اور دماغ میں سوزش ہو سکتی ہے۔ اسی وجہ سے کوہ پیما تھکاوٹ کا شکار ہوتے ہیں اور ان کو سانس کی کمی کا سامنا بھی ہوتا ہے۔
ایڈریان بیلنجر امریکی ’ایلپن گلو ایکسپیڈیشن‘ نامی کمپنی کے ساتھ کام کرتے ہیں جو ماؤنٹ ایورسٹ پر چین کی جانب سے کوہ پیماؤں کو لے کر جاتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ نیپال میں چند کمپنیاں کم تجربہ رکھنے والے کوہ پیماؤں کو بھی چوٹی سر کروانے لے جاتی ہیں جن کو ’ڈیتھ زون‘ میں مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
تاہم نیپال اس صنعت سے کافی زرمبادلہ کماتا ہے۔ مغربی کوہ پیما اکثر یہ تنقید کرتے ہیں کہ جو بھی پرمٹ کے لیے 11 ہزار ڈالر ادا کر سکتا ہے اسے جانے کی اجازت مل جاتی ہے۔ تاہم نیپال کی حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔
پرمٹ کے علاوہ ہر کوہ پیما کو اس مہم کے لیے 26700 ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ اس میں گیس، خوراک، گائیڈ اور مقامی سفر کا خرچہ شامل ہوتا ہے۔
نیپال کے سیاحت کے ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر یووراج کاٹھی واڈا نے اس سال جاری ہونے والے پرمٹ کی تعداد پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ بیس کیمپ پر ڈاکٹروں اور سرکاری اہلکاروں کی ایک ٹیم پہلی بار تعینات کی جائے گی۔
انھوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمیں کوہ پیماوں کی حفاظت کا خیال ہے اور ہم ہجوم سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں جس کے لیے چوٹی تک رسائی کے لیے سفر کرنے والے کوہ پیماؤں کو موسم کے مطابق زیادہ ٹولیاں میں بھجوایا جائے گا۔‘
لوکاس کی آسٹرین کمپنی 2016 سے تقریبا 100 افراد کو ماوئنٹ ایورسٹ کی چوٹی تک لے جا چکی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہجوم کی وجہ سے آکسیجن کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ آکسیجن ختم نہ ہو۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’آکسیجن کی رسد کو یقینی بنانا بہت ضرروی ہے اگر زیادہ لوگ ایک ہی وقت میں چڑھ رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم بہتر سامان اور حفاظتی اقدامات سے اس تعداد میں اموات سے بچ سکتے ہیں۔‘
دیگر خدشات
اس سال برفانی تودہ گرنے کی وجہ سے کوئی موت نہیں ہوئی لیکن حالیہ برسوں میں یہاں ہونے والی ہلاکتوں میں سے 40 فیصد اسی وجہ ہوئیں۔
2014 میں ایک برفانی تودہ گرنے سے 16 افراد ہلاک ہو گئے تھے جو جدید تاریخ میں اس چوٹی پر پیش آنے والے سب سے برا حادثہ تھا۔
کوہ پیماؤں کو ہر سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ درجہ حرارت کا سامنا بھی ہے جس نے گلیشیئرز کو پگھلایا ہے۔ سائنسدانوں کا کہان ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے اس علاقے میں 1979 کے بعد سے 40 سال میں اوسطا درجہ حرارت دو ڈگری بڑھ چکا ہے۔
2022 میں ایک امریکی یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق جب برف پگھلتی ہے تو گلیشیئرز یا تو پانی میں بدلتے ہیں جو ڈھلوانوں سے نیچے اتر جاتا ہے یا تیز ہواؤں میں جذب ہو جاتا ہے۔
اس تحقیق میں کہا گیا تھا کہ پگھلتے ہوئے گلیشیئر بیس کیمپ کو بھی متاثر کر سکتے ہیں جہاں ہر سال مہم کے موسم میں ایک ہزار سے زیادہ کوہ پیما اور افراد موجود ہوتے ہیں۔
حال ہی میں ماوئنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ کی جگہ بدلنے کا منصوبہ بنایا گیا لیکن پھر اسے موخر کر دیا گیا۔ مقامی شیرپا رہنماؤں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ یہ منصوبہ قابل عمل نہیں تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ گائیڈ اب پہاڑ میں تبدیلیاں محسوس کر رہے ہیں۔
شیرپا پاسانگ یانجی نے 2022 میں ایک پوڈ کاسٹ میں کہا تھا کہ ’وہ جب بھی اوپر جاتے ہیں، پہاڑ تبدیل محسوس ہوتا ہے۔ جہاں پہلے برف تھی، اب وہاں پانی ہوتا ہے، جہاں سخت برف تھی، اب وہاں نرم برف ہے۔‘
اس سال موسم سرما میں غیر متوقع برف باری ہوئی۔ نیپال کی کوہ پیماؤں کی ایسوسی ایشن کے سابق صدر آنگ شیرنگ شیرپا نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ اس سے برفانی تودے گرنے کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔
لوکاس فرٹن باچ کا کہنا ہے کہ ’ماحولیاتی تبدیلی ناقابل یقین اثرات مرتب کر رہی ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’اگلے پانچ سے دس سال میں واضح ہو گا کہ ایورسٹ کی چوٹی کا راستہ کتنا متاثر ہوا ہے۔‘
چوٹی کی کشش
اس سال چوٹی پر مہمات میں ایسے لمحات بھی آئے جب ایسے واقعات ہوئے جو پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔
ایک نیپالی گائیڈ ملائیشیا کے ایک کوہ پیما کو ساڑھے آٹھ ہزار میٹر کی بلندی سے چھ گھنٹے تک اٹھا کر واپس لایا۔
دوسری جانب ’ایورسٹ مین‘ کہلائے جانے والے کامی ریتا شیرپا نے 28ویں مرتبہ چوٹی کو سر کیا جبکہ ایک سابق گورکھا فوجی نے مصنوعی ٹانگوں کی مدد سے ایورسٹ کی چوٹی تک رسائی حاصل کی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دنوں میں بدقسمتی اور فتح کی کہانیاں اس بات کی نشاندہی ہیں کہ اس چوٹی کو سر کرنے کے لیے کتنی محنت اور تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔
فرٹن باچ کا کہنا ہے کہ ’موت اور ڈراما ایورسٹ کی کشش کا حصہ ہیں۔ یہ اس سیارے کا سب سے اونچا مقام ہے لیکن سب سے خطرناک بھی۔ اسی امتزاج کی وجہ سے لوگ اس کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔‘