اہم خبریں

لیکمے: وہ انڈین کاسمیٹکس برانڈ جس کے پیچھے اندرا گاندھی کی کاوشیں رہیں

پیرس کی سڑکوں پر جہاں پچھلے چند روز ہونے والے پرتشدد مظاہرے دنیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے وہیں اس دوران وہاں کئی قومی اور بین الاقوامی تاریخی اور یادگار تقریبات کا بھی انعقاد کیا گیا، انھی میں سے ایک انڈیا کی بین الاقوامی شہرت یافتہ کاسمیٹکس ’لیکمے‘ کی تقریباب شامل ہیں۔

لیکمے اس وقت برطانیہ میں قائم ’انڈین یونی لیور کمپنی‘ کی ملکیت ہے جسے ایک بین الاقوامی برانڈ کے طور پر جانا جاتا ہے تاہم اس کی بنیاد اصل میں انڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر نے اس وقت کے انڈین وزیر اعظم کے اصرار پر رکھی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم نہرو پر ان کی بیٹی اندرا نے کاسمیٹکس کمپنی کے قیام کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔ اُن دنوں اس بزنس مین اور وزیر اعظم کے درمیان بعض معاملات پر نظریاتی اختلافات تھے، پھر بھی انھوں نے کاسمیٹکس مینوفیکچرنگ کے شعبے میں قدم رکھا۔

انھیں اپنی اس جدید برانڈ کا نام پیرس کی گلیوں میں ایک اوپیرا سے ملا، جو ایک ہندو دیوی ’لکشمی‘ کے نام پر ہے۔ وہ اچھوتا خیال جس کے ساتھ لیکمے کی بنیاد رکھی گئی تھی، وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں جگہ بنا چکا ہے۔

نہرو، اندرا اور ٹاٹا

ہندوستان کی تقسیم کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے ایک سوشلسٹ ماڈل اپنایا، جس میں انشورنس، بینکنگ، کان کنی، شہری ہوا بازی جیسے شعبوں میں کام کرنے والی کمپنیوں کو حکومتی تحویل میں لے لیا گیا۔1949 میں حکومت نے ٹاٹا گروپ کی ایئرانڈیا کمپنی میں 49 فیصد حصص خرید لیے۔

جے آر ڈی ٹاٹا کو ہوا بازی کے شعبے سے انسیت تھی اور وہ خود بھی ایک لائسنس یافتہ پائلٹ تھے۔ انھوں نے حکومت کے اس اقدام کو مداخلت قرار دیتے ہوئے سخت برہمی کا اظہار کیا۔

جے آر ڈی ٹاٹا ایئرانڈیا کو انڈیا کی بین الاقوامی ایئر لائن برانڈ بنانا چاہتے تھے جو حکومت کے زیر کنٹرول ہونے کے باعث ممکن نہیں تھا۔

انھوں نے محسوس کیا کہ کمپنی کے شیئر ہولڈرز کو نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور آخر کار، ایئر انڈیا کو 1953 میں قومیا لیا گیا اور اس اقدام سے جے آر ڈی کو انتہائی صدمہ ہوا۔

جے آر ڈی اور نہرو کے درمیان اس معاملے پر کافی اختلافات رہے اسی دوران نہرو حکومت کی طرف سے ٹاٹا گروپ کو ایک تجویز بھیجی گئی ۔ گریش کبیر نے اپنی کتاب ’دی ٹاٹاز‘ کے گیارہویں باب میں اس پورے واقعہ کی ٹائم لائن کا ذکر کیا ہے۔

اس وقت انڈیا کو کاسمیٹکس (بناؤ سنگھار کی اشیا) درآمد کرنا پڑیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد بین الاقوامی منظر نامے پر امریکہ کی طاقت ابھر کر سامنے آئی اور ڈالر کی قیمت بھی بڑھ گئی۔

انڈین حکومت نے زرمبادلہ بچانے کے لیے کاسمیٹکس مصنوعات کی درآمد پر پابندیاں عائد کیں جس سے خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئیں جو ان مصنوعات کی سب سے بڑی صارف تھیں۔

خواتین کی تنظیموں نے وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ پر اس مسئلے پر پریزنٹیشنز پیش کیں اور مسائل کی نوعیت کو اجاگر کیا۔ نہرو کی بیٹی اندرا نے ان خواتین کی پیشکشیں سنیں اور پھر بیٹی نے باپ کو راضی کیا کہ اس اہم معاملے میں کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک بار جب نہرو پرائم منسٹر آفس جا رہے تھے تو خواتین کے ایک گروپ نے انھیں رہائش گاہ کے باہر روکا اور ان کے سامنے یہ مسئلہ اٹھایا کہ درآمد شدہ کاسمیٹکس کے بغیر انھیں کس قسم کے مسائل درپیش ہیں۔

کوئی انڈین کمپنی ایسی کاسمیٹکس نہیں بناتی‘

نہرو نے اپنے پرسنل اسسٹنٹ ایم۔ او متھائی کو اس مسئلہ پر توجہ دینے کی ذمہ داری سونپی تاہم متھائی نے اس معاملے کو ہلکا لیا۔ جب اندرا نے اس معاملے کو اٹھایا تو متھائی نے پوچھا ’یہ اتنا اہم کیوں ہے؟‘

جس پر اندرا نے کہا کہ ’کوئی ہندوستانی کمپنی ایسی کاسمیٹکس نہیں بناتی۔‘

متھائی نے دہلی میں ٹاٹا کے نمائندے اے ڈ نوروجی سے رابطہ کیا اور ٹاٹا گروپ سے ایک کاسمیٹکس کمپنی قائم کرنے پر غور کرنے کی پیشکش کی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے لیے درکار تعاون فراہم کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی گئی۔

جے آر ڈی ٹاٹا یہ پیشکش جان کرحیران رہ گئے۔ ایک طرف نہرو حکومت ایئرانڈیا کو حاصل کرنے کی کوششیں کر رہی تھی تو دوسری طرف نئی کمپنی کے قیام کے لیے اپنے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کروا رہی تھی۔

بعد میں نہرو حکومت نے ایئر انڈیا کو قومیا لیا اور جے آر ڈی کو اس کا چیئرمین بنایا گیا۔ برسوں بعد جب اندرا گاندھی ملک کی وزیر اعظم بنیں تو انھوں نے جے آر ڈی کو بھی ایئرانڈیا کے چیئرمین کے طور پر برقرار رکھا۔

اندرا کے بیٹے راجیو گاندھی نے جے آر ڈی کو جیف وے میں چیئرمین کے عہدے سے ہٹا دیا لیکن ان کی جگہ رتن ٹاٹا کو لے لیا لہذا جے آر ڈی کے پاس پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ ٹاٹا نے انڈیا کی آب و ہوا اور جلد کے مطابق کاسمیٹکس مصنوعات تیار کرنا شروع کیں۔

اس وقت ٹاٹا گروپ کے ملک کے مختلف حصوں میں صنعتی یونٹ تھے جس میں ممبئی میں ہوٹلز، بہار میں اسٹیل، گجرات میں کیمیکلز کے یونٹ قائم تھے۔ ایسا ہی ایک یونٹ کوچین (موجودہ کوچی) میں کام کر رہا تھا۔ اس یونٹ کا نام ٹاٹا آئل ملز کمپنی تھا۔

یہ کمپنی 1920 سے کام کر رہی تھی۔ یہ بنیادی طور پر ناریل سے تیل نکالنے اور اسے برآمد کرنے کا کام کرتی تھی۔ بعد میں، کمپنی نے صابن، ڈٹرجنٹ، شیمپو، خوردنی تیل اور طرح طرح کی خوشبو کے حامل تیل وغیرہ کی تیاری شروع کی۔

اس کمپنی کے فلیگ شپ برانڈز میں اوکے، حمام، میجیک، 501 شامل تھے جن کے مینوفیکچرنگ یونٹس گجرات، مہاراشٹر، کیرالہ، تمل ناڈو اور مغربی بنگال میں تھے۔

اس طرح پانچ دسمبر 1952 کو لیکمے کی بنیاد ٹامکو کے ذیلی یونٹ کے طور پر رکھی گئی تھی۔

کمپنی نے رابرٹ پگٹ اور رینر (Robert Piggott and Raynor) جیسی فرانسیسی کمپنیوں اور کولمار (Colmar) جیسی امریکی کمپنیوں سے فارمولے حاصل کیے۔ اس کے لیے غیر ملکی کمپنیوں کو ٹاٹا یونٹ میں کوئی ایکویٹی نہیں دی گئی بلکہ فارمولے کے لیے باقاعدہ فیس ادا کی گئی۔

1961 میں سائمن ٹاٹا (رتن ٹاٹا کی سوتیلی ماں) کمپنی کی منیجنگ ڈائریکٹر بنیں۔ سائمن ٹاٹا فرانس میں پیدا ہوئی تھیں اور انھوں نے سوئٹزرلینڈ میں تعلیم حاصل کی تھی۔

سائمن کو لیکمے کی مصنوعات کی گہری سمجھ تھی۔ بعد میں وہ ٹاٹا انڈسٹریز میں شامل ہو گئیں اور 1982 میں چیئرپرسن کے عہدے پر فائز ہوئیں۔

اس وقت کے بمبئی میں پیڈر روڈ پر کرائے کے مکان سے لیکمے کی پروڈکشن شروع کی گئی تھی۔ اس دہائی کے دوران کمپنی کی مصنوعات کی رینج اور پیداوارمیں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا تاہم بعد میں مینوفیکچرنگ یونٹ کو ممبئی کے قریب شیوادی میں منتقل کر دیا گیا جو پیڈر روڈ کے رقبے سے تین گنا زیادہ بڑا تھا۔

مصنوعات کی طلب کو پورا کرنے کے لیے اضافی جگہ حاصل کی گئی اور دو شفٹوں میں کام شروع کر دیا گیا۔

پرکشش پیکنگ، اعلیٰ معیار، وسیع تشہیری مہمات، وقتاً فوقتاً مارکیٹ کے سروے نے مصنوعات کو عوام تک پہنچایا۔ باقی کام سیلز آفس، سیلز پرسن، ڈیلر اور کمپنی کے ایجنٹس کے ذریعے ملک بھر میں 20 ہزار سے زائد آبادی والے شہروں اور قصبوں کا احاطہ کیا گیا۔

انڈیا کے لیے تیار کردہ میک اپ اور کاسمیٹکس کی ان مصنوعات کو جدید لیبارٹریوں میں تیار اور جانچا گیا۔

خواتین کی جلد کی دیکھ بھال، میک اپ اور ٹوائلٹ میں استعمال ہونے والی اشیا بنانے میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد، لیکمے نے مردوں کے لیے بھی بہترین مصنوعات بنانے کا کام شروع کیا۔

لیکمے نے اپنی پروڈکٹس میں توسیع کے منصوبے میں بھی منطق کا استعمال کیا۔ اور وہ منطق یہ تھی کہ اگر کوئی برانڈ کامیاب ہو جاتا ہے تو اسے ڈیجیٹل کرنے کے لیے اسی نام سے ایک ذیلی پروڈکٹ لانچ کریں، جس طرح نہانے کے صابن کا برانڈ اپنے نام سے ڈیوڈورنٹ لانچ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

لیکمے نے 1980میں لکمینا بیوٹی سیلون کا آغاز کیا۔ اس کے علاوہ لکمنی بیوٹی سکول بھی قائم کیا گیا جہاں بیوٹیشنز کو چھ ماہ تک تربیت دی جاتی تھی اور بعد میں انھیں ڈپلومہ بھی دیا جاتا تھا۔

تاہم انڈیا کے مشہور کاسمیٹکس برانڈ لیکمے نے پیرس کی سڑکوں پر اپنا نام کیسے بنایا اس کے پیچھے ایک دلچسپ کہانی ہے۔

لکشمی سے لیکمے تک

جب ٹاٹا کے نمائندے فرانس میں تھے تو انھوں نے نئے برانڈ کا نام رکھنے کے لیے تجاویز طلب کیں۔ اس وقت فرانس میں اوپیرا ‘لکمی’ کے نام سے مشہور تھا، جو لکشمی نام کی فرانسیسی شکل تھی۔

فرانسیسی اوپیرا لیکمے 19ویں صدی میں ابھرنا شروع ہوا تھا اور اس کی کہانی نیلکانتھا نامی پادری ان کی بیٹی لکشمی، نوکرانی ملیکا اور فریڈرک اور جیرالڈ نامی دو برطانوی فوجی افسران کے گرد گھومتی ہے۔

ایک بار لکشمی اور اس کی نوکرانی ملیکا پھول لینے ندی کے کنارے جاتی ہیں۔ لکشمی ایک جگہ اپنے زیورات اتارنے سے پہلے نہانے کے لیے پانی میں قدم رکھتی ہیں۔ اس وقت دو برطانوی فوجی افسر اور دو انگریز لڑکیاں وہاں پہنچ جاتی ہیں۔

برطانوی لڑکیوں کو لکشمی کے زیورات بہت پسند آتے ہیں۔ جیرالڈ زیورات کا خاکہ بنانے لگتا ہے ایسے میں لکشمی اور ملیکا واپس آ جاتے ہیں۔

لکشمی اپنے سامنے اچانک ایک انگریز کو دیکھ کر چیخ اٹھتی ہیں تاہم جیرالڈ کسی نہ کسی طرح لکشمی کو راضی کرتا ہے۔ لکشمی اپنی مدد کے لیے آنے والوں کو واپس بھیج دیتی ہے۔ اور یوں جیرالڈ اور لکشمی دونوں ایک دوسرے سے پیار کے رشتے میں بندھ جاتے ہیں۔

اسی دوران جب نیلکانتھا کو معلوم ہوا کہ ایک برطانوی افسر ان کی بیٹی سے ملاقاتیں کرتا ہے تو انھوں نے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔

نیلکانتھا نے لکشمی سے بازار میں ایک گانا گانے کو کہا، جسے سن کر جیرالڈ آگے آتا ہے، یہ دیکھ کر لکشمی بیہوش ہو جاتی ہے اور نیلکانتھا برطانوی فوجی افسر پر حملہ کر کے زخمی کر دیتا ہے۔ لکشمی جیرالڈ کو جنگل میں ایک خفیہ ٹھکانے پر لے جاتی ہے اور اس کا علاج کرتی ہے۔ جیرالڈ صحت یاب ہوجاتا ہے۔

اسی دوران ایک بار جب لکشمی وہ مقدس پانی لانے جاتی ہے جو ان کے عقیدے کے مطابق دو محبت کرنے والوں کے درمیان جنم جنم کا رشتہ مضبوط کرتا ہے تو اس دوران وہاں انگریز فوجی افسر فریڈرک واپس آتا ہے اور وہ اپنے دوست جیرالڈ کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض سے آگاہ کرتا ہے۔ جیرالڈ بھی اس سے متفق ہو جاتا ہے۔

لکشمی واپس آ کر جیرالڈ کے رویے میں تبدیلی دیکھتی ہے اور اس کو احساس ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی محبت کھو چکی ہے۔

لکشمی نے مایوس ہوکرسوچا کہ بدنامی کے ساتھ جینے سے موت بہتر ہے۔ اس نے اپنی جان کو ختم کرنے کی خاطر دھتورا ( ایک قسم کا زہر) کھا کر اپنی جان دے دی۔ اس طرح ایک انگریز فوجی افسر اور اس لڑکی کی محبت کہانی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

چونکہ لکشمی اوپیرا کے علاوہ خوشحالی اور خوبصورتی کی بھی دیوی ہے، اس لیے لیکمے کو برانڈ نام کے طور پر اپنایا گیا۔

لیکمے اور انڈین یونی لیور کے درمیان شراکت کا منصوبہ

ٹاٹا گروپ کے ایک طاقتور افسر ہومی سیٹھ نے ٹامکو (TOMCO) کی کمان سنبھالی۔ وہ ٹاٹا کیمیکلز سے بھی وابستہ تھے۔ اس لیے ایک طرح سے گروپ کے اندر باہمی تال میل کو آسان بنانے کی کوشش کی گئی۔

جب سائنسدان ہومی سیٹھ 1980 کی دہائی کے اوائل میں اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ کے طور پر ریٹائر ہوئے تو سیٹھ کو ٹامکو کے چیئرمین کے عہدے سے سبکدوش ہونے کو کہا گیا جو انھوں نے بخوشی کیا۔

1991 میں گروپ کی باگ دوڑ رتن ٹاٹا نے سنبھال لی۔ نوجوان اور پرجوش رتن ٹاٹا گروپ میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لانا چاہتے تھے چنانچہ انھوں نے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد کو نافذ کیا۔ سیٹھ، اجیت کیرکر (ٹاٹا کی ہوٹل انڈسٹری)، روسی مودی (ٹاٹا کی اسٹیل انڈسٹری) اور نانی پالکھی والا (سیمنٹ) جیسے بزرگوں نے ان کے اس اقدام کے خلاف بغاوت کی۔

جے آر ڈی کے زمانے میں ٹاٹا کمپنیوں کی آزاد شناخت تھی، اور جے نے انھیں کام کرنے کے لیے آزاد کیے رکھا تھا جبکہ رتن ٹاٹا چاہتے تھے کہ تمام کمپنیاں ٹاٹا برانڈ کے ساتھ منسلک ہوں اور ان کی ’ایک اور متحد شناخت‘ ہو۔ اس کے علاوہ وہ کمپنیوں کی ملکیت میں ٹاٹا سنز کا غلبہ بڑھانا چاہتے تھے۔

کمپنی کا شراب کا کاروبار بیچا گیا۔ اس مدت میں ٹومکو نے مارچ-1992 میں 13 کروڑ روپے کا نقصان ریکارڈ کیا تھا۔ رتن ٹاٹا نے محسوس کیا کہ ٹامکو وقت کے ساتھ مطابقت رکھنے میں ناکام رہی ہے اور کمپیوٹرائزیشن، تقسیم کے نظام کو جدید نہ بنا کر وقت سے 10 سال پیچھے ہے۔

رتن ٹاٹا نے مقصد کے حصول کے لیے ٹیٹلی، جیگوار، لینڈ روور، ڈائیوو سمیت دیگر منصوبے کیے۔

1993 میں، ٹامکو نے اپنی حریف کمپنی ہندوستان لیور (اب ہندوستان یونی لیور) کے ساتھ 400 کروڑ کے ساتھ انضمام کر لیا۔ ٹامکو کے شیئر ہولڈرز کو ان کے حصص کے بدلے ایچ یو ایل کے تقریباً ایک فیصد حصص ملے۔

1996 میں، لیکمے اور ہندوستان لیور کے درمیان ففٹی ففٹی کی شراکت میں ایک مشترکہ منصوبہ بنایا گیا۔ پھر 1998 میں یہ یونٹ ہندوستان لیور کو فروخت کر دیا گیا۔ مارکیٹ کو اس معاملے سے کوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ پراکٹر اینڈ گیمبل اور ایک اور پارسی صنعت کار گودریج نے اس سے قبل بھی کچھ ایسا ہی کیا تھا۔

فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی ریٹیلنگ یونٹ ٹرانٹ میں لگائی گئی۔ جو آج سٹار بازار، ویسٹ سائیڈ اور زوڈیو جیسی چینز چلاتا ہے۔ اس کے نان ایگزیکٹیو چیئرمین رتن کے سوتیلے بھائی نوئل ہیں۔

آج لیکمے انڈین یونی لیور کے ایک ہزار کروڑ سے زیادہ برانڈز میں سے ایک ہے۔ کمپنی لپ اسٹک، کاجل، آئی شیڈو، میک اپ، نیل کلر، فیس ماسک، سن اسکرین لوشن سمیت سکن کیئر کی مصنوعات تیار کرتی ہے۔ ہر سال فیشن ویک کے اسپانسرز جو اس کی پہچان ہے۔

شوگر کاسمیٹکس کی ونیتا سنگھ کہتی ہیں کہ کمپنی کے قیام کے پیچھے ان کا مقصد انڈین خواتین کو لپ اسٹک اور میک اپ فراہم کرنا تھا جو ان کی جلد اور ماحول کے مطابق ہو۔

ویسٹ سائیڈ کمپنی کے چیئرمین نوئل نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ کمپنی مستقبل میں کاسمیٹکس میں قدم رکھے گی اور جوتے سے لے کر زیر جامہ تک ہر چیز پر توجہ مرکوز کرے گی۔ مارکیٹ کے ماہرین منتظر ہیں کہ کیا نوئل اپنی والدہ سیمون کی طرح برانڈ کو کامیابی کی بلندیوں تک لے جا نے میں کامیاب ہو سکیں گے۔