پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بدھ کی علی الصبح سے شروع ہونے والی ریکارڈ موسلا دھار بارش کے بعد پیش آنے والے مختلف واقعات میں اب تک 11 افراد ہلاک جبکہ 20 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ صوبے کی نگراں حکومت کے مطابق بدھ کے روز ہونے والی بارش کے نتیجے میں لاہور میں بارش کا گذشتہ 30 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا تھا۔
محکمہ موسمیات کا کہنا تھا کہ بدھ کے روم شہر میں 10 گھنٹوں میں 291 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی جبکہ شہر کے مختلف علاقوں میں 200 ملی میٹر سے زائد بارش ریکارڈ کی گئی۔ لکشمی چوک پر سب سے زیادہ 236 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔
حکام کے مطابق اس دوران خستہ حال گھروں اور عمارتوں کی چھتیں گرنے اور کرنٹ لگنے کے واقعات میں مجموعی طور پر 11 افراد ہلاک ہوئے۔ ایک 11 سالہ بچے کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ بارش کے پانی میں کھیل رہا تھا اور ڈوبنے کی وجہ سے اس کی ہلاکت ہوئی۔
لاہور کے علاوہ صوبہ پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی بارش کے باعث پیش آنے والے حادثات کے نتیجے میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ترجمان ریسکیو پنجاب کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران صوبے بھر میں مجموعی طور پر 16 اموات ہوئی ہیں جبکہ 26 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ریسکیو ترجمان کے مطابق بارشوں کے باعث لاہور میں ہونے والی 11 اموات کے علاوہ ضلع گوجرانولہ میں مکان گرنے کے واقعے تین ہلاکتیں جبکہ فیصل آباد اور جھنگ میں ایک، ایک فرد ہلاک ہوا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل گذشتہ ماہ 26 جون کو لاہور میں زیادہ سے زیادہ 256 ملی میٹر بارش ہوئی تھی جبکہ گذشتہ سال 2022 میں لاہور میں 238 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔
کمشنر لاہور محمد علی رندھاوا کے مطابق اس سے قبل 2018 میں لاہور میں 288 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔
پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق اگلے 24 گھنٹوں میں لاہور میں وقفے وقفے سے بارش جاری رہنے کا امکان ہے۔
شہر کی صورتحال کیا ہے؟
بدھ کی صبح شروع ہونے والی موسلا دھار بارش کے سبب شہر کے نشیبی علاقوں میں پانی جمع ہو گیا جبکہ شہر کے وسط سے گزرنے والی نہر کا پانی تک متصل شاہراؤں پر آ گیا۔
ایسے میں شہر کے مختلف علاقے زیر آب آ گئے اور مختلف سڑکیں، بازار اور متعدد انڈر پاس پانی میں ڈوب گئے۔ ایک جانب ٹریفک کا نظام متاثر ہوا تو دوسری جانب شہر کے کئی حصوں میں بجلی اور گیس کی فراہم بند ہو گئی۔
لاہور میں بجلی کی ترسیل کے ذمہ دار ادارے لیسکو کے مطابق ٹرپ ہونے اور دیگر تکنیکی خرابی کی وجہ سے شہر کے متعدد علاقے بجلی سے محروم ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے بھی تمام متعلقہ محکموں کو ہدایت کی تھی کہ وہ ممکنہ طور پر آٹھ جولائی سے شروع ہونے والے بارش کے سلسلے کے حوالے سے الرٹ رہیں۔
صوبے کے نگران وزیر اعلی محسن نقوی نے دعوی کیا ہے کہ بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جا رہا ہے۔
’یہ غیر معمولی بارش تھی‘
لاہور میں ہونے والی بارش پر سوشل میڈیا پر مختلف قسم کا ردعمل سامنے آیا۔ جہاں کثیر تعداد میں لوگوں نے شہر کے مختلف علاقوں کی تصاویر اور ویڈیوز لگائیں، وہیں چند نے شکایت کی کہ لاہور میں بارش کے بعد ایسی صورت حال حکومتی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
صحافی ناصر جمال نے لکھا کہ ’لاہور میں سیلابی صورت حال ہے۔ ہر بار بارش کے بعد ن لیگ کے ڈویلپمنٹ ماڈل کا پول کھل جاتا ہے۔ گاڑیوں کے لیے سڑکیں کشادہ کی جاتی ہیں لیکن ٹریفک ڈسپلن، سیوریج اور دیگر مسائل کا احاطہ نہیں کیا جاتا۔‘
فواد علی نامی صارف نے لکھا کہ ’جو لاہور میں ہوا وہ آنے والے برسوں میں باقی شہروں میں بھی ہو گا۔ بے تحاشہ تعمیرات اپنا نتیجہ سامنے آئے گا۔‘
صحافی خالد خٹک نے لکھا کہ ’لاہور میں غیر معمولی بارش ہوئی، زیادہ تر علاقے زیر آب آ گئے۔‘
انھوں نے لکھا کہ انٹر امتحانات میں ہوم اکنامکس کی طالبات پریکٹیکل امتحان بھی ہونا تھا لیکن بارش کی وجہ سے امتحانی سینٹر پہنچنا ناممکن تھا۔
لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن سے عثمان خان نامی ایک صارف نے ٹویٹ کرتے ہوئے علاقے میں پانی کھڑا ہو جانے کی ویڈیوز شیئر کیں اور لکھا کہ ’باغوں کا شہر کہلائے جانے والے لاہور میں رہتے ہوئے ہم اس کے عادی ہیں، شدید بارش کے بعد جوہر ٹاؤن کے علاقے کے کچھ افسوسناک مناظر، جو لاہور کے ترقی یافتہ علاقے میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔۔۔‘
معاذ ارشد نامی ایک صارف نے شہر میں شدید بارش کی صورتحال کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ’لاہور کو اس وقت ہنگامی حالات کا سامنا ہے۔‘
کب اور کہاں بارشیں متوقع ہیں؟
این ڈی ایم اے پاکستان کی جانب سے جاری الرٹ میں بتایا گیا کہ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا، اسلام آباد، پوٹھوہار ریجن، بالائی اور وسطی پنجاب اور شمال مشرقی بلوچستان میں آندھی اور گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔
اس دوران بالائی پنجاب، اسلام آباد، کشمیر اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں بھی موسلادھار بارش ہوسکتی ہے جبکہ ملک کے دیگر علاقوں میں موسم گرم اور مرطوب رہنے کا امکان ہے۔
این ڈی ایم اے نے بتایا تھا کہ اس سے پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ اور نشیبی علاقوں میں سیلاب کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔
پنجاب میں مری، گلیات، راولپنڈی، جہلم، اٹک، چکوال، سرگودھا، میانوالی، فیصل آباد، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، بہاولنگر، نارووال، سیالکوٹ، ساہیوال، گوجرانوالہ، گجرات، منڈی بہاوالدین، حافظ آباد، لاہور، بکھر، لیہ، تونسہ، ملتان اور ڈیرہ غازی خان میں شدید بارشوں کی پیشگوئی کی گئی ہے۔
مزید بتایا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں چترال، دیر، سوات، کوہستان، مانسہرہ، ایبٹ آباد، مالاکنڈ، بالاکوٹ، چارسدہ، مردان، پشاور، کوہاٹ، کرم، بنوں، وزیرستان اور ڈیرہ اسمٰعیل خان میں گرج چمک کے ساتھ بارش ہوسکتی ہے۔
اربن فلڈنگ کیا ہوتی ہے؟
آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے دنیا بھر کے شہروں میں فلیش یا اربن فلڈنگ کی خبریں اب ایک معمول بنتی جا رہی ہیں۔
عام طور پر تیز بارش کے دوران سیلابی ریلے آتے ہیں۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب نالوں اور گٹروں میں پانی، ان کی نمٹنے کی صلاحیت سے بہت زیادہ مقدار میں چلا جاتا ہے۔
یہ بہت جلدی اور بغیر کسی انتباہ کے ہو سکتا ہے۔ سڑکوں کو استعمال نہیں کیا جا سکتا اور گاڑیاں چھوڑنی پڑتی ہیں۔ مکانات اور دکانوں کو سیلابی پانی کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہے۔
اس طرح کی سیلابی صورتحال سے اہم پبلک انفراسٹرکچر بھی متاثر ہوتے ہیں جیسا کہ ٹرانسپورٹ نیٹ ورکس اور ہسپتال وغیرہ۔
اربن ڈویلمپنٹ کے ماہرین کے مطابق شہروں میں گنجائش سے زیادہ آبادی، نکاسی آب کے پرانے نظام اور شہروں میں بارش کے پانی کی زیر زمین نہ سمونے کی وجہ سے اربن فلڈنگ کا امکان بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق گھروں کی سطح سے لے کر شہری حکومتوں کی سطح تک اگر واٹر ریچارجنگ پٹ یعنی بارش کا پانی زمین میں جذب کرنے کا نظام بنایا جائے تو اس سے نہ صرف اربن فلڈنگ کا خطرہ کم ہو جاتا ہے بلکہ اس سے زیر زمین پانی کی سطح میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔
شہروں اور قصبوں میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟
شہری علاقوں میں اس طرح کی سیلابی صورتحال کا زیادہ امکان ہے کیونکہ وہاں زمین کی سطح پکی ہوتی ہے، باغات کے سامنے پکی جگہوں سے لے کر پکی سڑکوں، کار پارکس اور بازاروں تک، سب کچھ پکا ہوتا ہے۔
جب بارش ان پر پڑتی ہے تو پانی زمین میں نہیں سموتا جیسا کہ عموماً دیہی علاقوں میں ہوتا ہے۔
اس کی ایک مثال گذشتہ ماہ 26 جون کو لاہور میں ہونے والی بارش میں دیکھی گئی تھی جب کلمہ چوک انڈرپاس سمیت متعدد علاقوں میں پانی بھر آیا تھا۔
اس سے قبل سنہ 2021 میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والی شدید طوفانی بارش میں سیکٹر ای الیون کے علاقے میں برساتی نالوں کے بھر جانے سے سیلابی ریلا آ گیا تھا اور کئی گاڑیوں اور گھروں کو نقصان پہنچا تھا۔
یہ صورتحال اسی برس امریکہ کے نیویارک سٹی میں بھی پیدا ہوئی تھی جب وہ ایلسا طوفان کی زد میں آگیا تھا۔ اس سیلاب کی وجہ سے شہر کا سب وے سسٹم پانی سے بری طرح متاثر ہوا تھا۔
جبکہ لندن اور جنوبی انگلینڈ میں ہونے والی موسلا دھار بارش کے بعد بھی کچھ ایسا ہی منظر نظر آیا تھا۔ لندن کے محفوظ سمجھے جانے والے علاقے پانی سے بھر گئے اور لوگوں کے گھروں میں کئی فٹ پانی بھر آیا تھا۔