ولی کے ایک چچا نے اپنے بھتیجے کی جان بچانے کے لیے پانی میں چھلانگ لگا دی، لیکن وہ بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر باہر نکلے کیونکہ وہاں پانی بہت گہرا تھا
بچوں کے لیے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ بارش کا پانی بھی جان لے سکتا ہے۔ لاہور کے رہائشی محمد ولی خان کو بھی نہیں معلوم تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ سخت گرمی کے دنوں کے بعد موسم کی تبدیلی اُن کے لیے گھر سے باہر نکل کر کھیلنے کا ایک بہترین موقع تھا۔
ولی خان اپنے چچا زاد بھائیوں اور محلے کے دوستوں کے ساتھ سڑک پر کھڑے پانی میں کھیل رہے تھے۔ ان بچوں کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ بدھ کے روز ہونے والی جس بارش کے بعد یہ پانی جمع ہوا تھا اس نے لاہور میں بارش کا 30 سالہ ریکارڈ توڑ دیا تھا۔
یاد رہے ریسکیو 1122 کے مطابق لاہور میں بدھ کی صبح سے شروع ہونے والی ریکارڈ موسلا دھار بارش کے بعد پیش آنے والے مختلف واقعات میں اب تک کم از کم 11 افراد ہلاک جبکہ 20 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔
بچے کھڑے پانی میں چھلانگیں لگا رہے تھے اور اچھل کود رہے تھے۔ اس وقت ان کے قریب دو قسم کے خطرے منڈلا رہے تھے۔ بجلی کی تاریں سڑک کنارے لگے کھمبوں سے لٹک رہی تھی۔ تیز ہوا کی وجہ سے یا کسی خرابی کے باعث اگر ان میں سے کوئی تار ٹوٹ کر پانی میں گر جاتی تو پانی میں کرنٹ آ سکتا تھا۔
دوسرا خطرہ بھی اتنا ہی سنگین لیکن زیادہ قریب تھا۔ اس کے بارے میں اس محلے اور علاقے کے مقامی افراد بھی آگاہ تھے۔ سڑک کے کنارے پر ایک خالی پلاٹ کے سامنے زمین میں کئی فٹ گہرے گڑھے کھودے گئے تھے۔
یہ واضح نہیں کہ لاہور کے مضافاتی علاقے سنی پارک کے اس چھوٹے سے علاقے میں یہ گڑھے کسی سرکاری محکمے کی طرف سے کھودے گئے یا نجی طور پر یہاں کسی نے تعمیراتی کام کی غرض سے یہ کھدائی کر رکھی تھی۔
تاہم مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ کسی سرکاری محکمے نے یہ کھدائی کی تھی لیکن اس کے ارد گرد کوئی حفاظتی انتظامات نہیں کیے گئے تھے۔ کوئی رکاوٹ نہیں بنائی گئی اور نہ ہی لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے کوئی انتباہی نشان لگایا گیا تھا۔
شدید بارش کے بعد پانی اِن گڑھوں میں بھی بھر گیا اور سڑک پر بھی کھڑا ہوا تھا اس لیے کسی کے لیے بھی یہ اندازہ کرنا مشکل تھا کہ یہ کئی فٹ گہرے گڑھے کہاں پر موجود ہیں۔
11 سال کے ولی پانی میں کھیلتے کھیلتے انھی گڑھوں کی طرف چلے گئے۔ ان کے ساتھ کھیلنے والے بچوں نے دیکھا کہ وہ اچانک پانی میں غائب ہو گئے۔ یہ دیکھ کر کچھ بچے ولی خان کے گھر کی طرف بھاگے اور انھوں نے گھر والوں کو اطلاع کی۔
ولی کے چچا زاد بھائی محمد نے بی بی سی کو بتایا کہ اطلاع ملنے پر وہ خود، ولی خان کے ایک چچا اور دیگر لوگوں نے اس جگہ کی طرف دوڑ لگائی جہاں بچوں نے بتایا کہ ولی خان غائب ہو گئے تھے۔
‘ہم نے ریسکیو والوں کو بھی اطلاع کر دی اور ولی خان کے ایک چچا نے خود بھی اس جگہ چھلانگ لگا دی جہاں گڑھے بنے ہوئے تھے۔ لیکن وہ بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر باہر نکلے۔ وہاں پانی بہت گہرا تھا۔ نیچے پاؤں نہیں لگتے تھے۔‘
11 سالہ ولی خان دو بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے۔ ان کے والد کی عمر 65 برس کے لگ بھگ ہے اور وہ کباڑ کی خرید و فروخت کا کام کرتے ہیں۔ وہ اس وقت گھر پر موجود نہیں تھے۔
کیا ولی خان کو بچایا جا سکتا تھا؟
ولی خان کے چچا زاد بھائی محمد ولی کے مطابق اطلاع دینے کے لگ بھگ آدھے گھنٹے بعد ریسکیو کی گاڑی اس مقام پر پہنچی جہاں ولی پانی میں ڈوبے تھے۔ اس دوران ان کے رشتہ دار اور مقامی افراد اپنے سی کوشش کر کے ہار چکے تھے۔ ولی خان نہیں ملے۔
‘اب ہم کوشش کر رہے تھے کہ بچے کی لاش مل جائے۔ اس کی لاش کہیں نیچے چلی گئی تھی۔ ہم نے بہت کوشش کی لیکن پانی بہت گہرا تھا۔‘
محمد ولی نے بتایا کہ ریسکیو کے اہلکاروں کے پاس آلات موجود تھے جن کی مدد سے انھوں نے ولی خان کو تلاش کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ ’اُن کو بھی تقریباً ایک گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگا تب جا کر وہ ولی خان کو نکالنے میں کامیاب ہوئے۔‘
ریسکیو اہلکاروں نے بچے کو نکالنے کے بعد جناح ہسپتال منتقل کیا جہاں ڈاکٹرز نے ان کی موت کی تصدیق کی۔ اس کے بعد ان کی لاش کو تدفین کے لیے ان کے گھر والوں کے حوالے کیا گیا۔
ماہرین کے مطابق اس نوعیت کے حادثے میں ولی خان کی جان بچانا انتہائی مشکل تھا کیونکہ اتنے گہرے گڑھے میں گرنے کے بعد پہلے چند منٹوں ہی میں ان کی موت واقع ہو گئی تھی۔ تاہم وہ کہتے ہیں احتیاطی تدابیر سے اس قسم کے حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔
’گھروں کے قریب گڑھے نہ کھودیں‘
یہ واضح نہیں کہ اس علاقے میں گڑھے کس نے اور کیوں کھودے جہاں ولی خان کی موت ہوئی تاہم پنجاب میں آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے پنجاب کے ترجمان کے مطابق بارشوں سے قبل تمام ضلعی انتظامیہ کے اداروں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ حفاظتی انتظامات مکمل کر لیں۔
’تمام متعلقہ اداروں کو خبردار کر دیا جاتا ہے کہ کتنی شدت کی بارش ہونے والی ہے اس لیے شہر میں اربن فلڈنگ کے خطرے کے پیش نظر تمام گڑھے وغیرہ بند کر دیں، گٹر ڈھانپ دیں اور نالوں یا نالیوں کی صفائی کر لیں۔‘
پی ڈی ایم اے کے ترجمان تصور چوہدری کے مطابق نجی طور پر بھی لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے گھروں کے قریب ایسے گہرے گڑھے نہ کھودیں جن میں پانی بھر جانے کے خدشہ ہو۔ ‘اگر ایسے گڑھے موجود بھی ہوں تو ان کو بارش سے قبل بند کر لینا چاہیے۔‘
ماہرین کے مطابق پہلا اصول یہی ہونا چاہیے کہ بلا ضرورت بارش کے کھڑے پانی میں جانے سے گریز کرنا چاہیے جب تک کہ متعلقہ ادارے پانی کی نکاسی کا عمل مکمل نہ کر لیں۔
پانی کہاں کہاں سے آپ کی طرف آ سکتا ہے؟
لاہور میں بدھ کے روز ہونے والی ریکارڈ سطح کی بارش میں زیادہ تر پانی انھی علاقوں میں جمع ہوا جو نشیب میں واقع ہیں۔ یا پھر وہ علاقے جہاں سے پانی کے نکاس کا موزوں نظام موجود نہیں ہے۔
تاہم اس مرتبہ لاہور شہر کے مرکز میں سے گزرنے والی نہر نے بھی پانی اپنے کناروں سے باہر نکالا۔ یہ پانی کینال روڈ کے ساتھ واقع گھروں اور دفاتر کی عمارتوں میں داخل ہو گیا۔
پی ڈی ایم اے کے ترجمان تصور چوہدری کے مطابق اربن فلڈنگ کی صورت میں یہ خدشہ موجود رہتا ہے کہ پانی گھروں میں داخل ہو گا۔ ’زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے یہ پانی نشیبی علاقوں میں جمع ہو جاتا ہے۔ یا پھر نہروں یا ندی نالوں سے نکلنے والا پانی بھی گھروں میں داخل ہو سکتا ہے۔‘
پی ڈی ایم اے کے ترجمان کے مطابق پانی کی نکاسی کے متعلقہ ادارے بارش کے دوران پانی نکالنے کا کام نہیں کر سکتے۔ یہ کام بارش تھمنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے کی جانب سے تمام متعلقہ اداروں کو خبردار کر دیا گیا تھا کہ مون سون سے قبل ہونے والی بارشوں کے پیش نظر تمام ندی نالوں وغیرہ کی صفائی کا عمل مکمل کر لیا جائے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ حالیہ بارشیں تمام تر توقعات اور اندازوں سے بہت زیادہ ہوئیں۔
پانی میں جانے سے گریز کرنا کیوں ضروری ہے؟
ماہرین کے مطابق بارش کے کھڑے پانی کے اوپر اور نیچے کئی خطرات ہو سکتے ہیں جو بظاہر نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔
حالیہ بارشوں میں زیادہ تر اموات کرنٹ یا بجلی کے جھٹکے لگنے اور کمزور عمارتوں کے گرنے کی وجہ سے ہوئیں۔ آفات سے نمٹنے کے اداروں اور ریسکیو کے اہلکار کہتے ہیں کہ بارش کے کھڑے پانی میں بجلی کا کرنٹ دوڑنے کا خدشہ ہوتا ہے کیونکہ اس کے قریب بجلی کی تاریں موجود ہوتی ہیں۔
پی ڈی ایم اے کے ترجمان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کو بارش کے کھڑے پانی سے دور رہنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بارش کا پانی گھروں یا رہائشی علاقوں میں داخل ہو جاتا ہے تو عمارتوں کے سٹرکچر کو نقصان پہنچنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
’بارش کا کھڑا پانی عمارتوں کی معیاد کو کم کر دیتا ہے اس لیے جو کمزور سٹرکچر ہوتا ہے اس کے گرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔’ ان کے خیال میں بارش میں ایسے کمزور سٹرکچرز کے نیچے نہیں رکنا چاہیے۔‘
ماہرین کے مطابق اگر جانا مجبوری ہو تو ربڑ کے جوتے استعمال کرنے چاہییں اور چھڑی وغیرہ ساتھ رکھنی چاہیے تا کہ بجلی کے غیر متوقع جھٹکوں سے بھی بچا جا سکے اور گڑھوں وغیرہ کے بارے میں بھی پیشگی علم ہو جائے۔