اہم خبریں

قبائلی ضلع باجوڑ میں جمیعت علمائے اسلام (ف) شدت پسندی پر مبنی کارروائیوں کا ہدف کیوں بن رہی ہے؟

پاکستان کے قبائلی ضلع باجوڑ میں جمیعت علمائے اسلام (ف) کے ورکرز کنونشن پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے چار اگست (جمعہ) کو صوبائی دارالحکومت پشاور میں گرینڈ قومی قبائلی جرگے کا اجلاس طلب کیا ہے جس میں خیبرپختونخوا اور خاص کر سابقہ فاٹا کے علاقوں میں شدت پسندی سمیت امن و امان کی صورتحال پر مشاورت ہو گی۔

جے یو آئی (ف) کے ورکز کنونشن پر گذشتہ اتوار کو ہونے والے حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم داعش نے قبول کرتے ہوئے حملہ آور کی تصویر بھی جاری کی ہے جبکہ دوسری جانب سکیورٹی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ حملہ آور کا تعلق افغانستان سے تھا۔

باجوڑ میں حکام نے اس خودکش حملے میں اب تک 49 افراد کی ہلاکت اور 83 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے جبکہ اس حملے کو حالیہ برسوں میں جمیعت علمائے اسلام (ف) کے رہنماؤں اور کارکنوں پر ہونے والا بڑا حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔

ملک میں عام انتخابات سے قبل جے یو آئی (ف) کے سیاسی کنونشن پر ہونے والے اس حملے کے بعد یہ سوالات کیے جا رہے ہیں کہ آخر جے یو آئی (ف) ہی داعش کی جانب سے ہونے والے حملوں کا ہدف کیوں بن رہی ہے اور ماضی قریب میں اس جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں پر بیشتر حملے باجوڑ میں ہی کیوں ہوئے ہیں؟

جمیعت علمائے اسلام (ف) پر باجوڑ میں یہ پہلا حملہ نہیں ہوا بلکہ پولیس اور سکیورٹی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ چند برسوں میں جے یو آئی (ف) کے لگ بھگ 20 سے زیادہ کارکنوں اور رہنماؤں پر انفرادی حملے ہو چکے ہیں جن میں سے بیشتر کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔

رواں سال 10 اپریل کو باجوڑ کی تحصیل ماموند میں نامعلوم افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں مولانا گل نصیب ہلاک جبکہ ان کے ساتھی مفتی شفیع اللہ شدید زخمی ہوئے تھے۔ اسی طرح نومبر 2022 میں ڈمہ ڈولہ کے مقام پر فائرنگ کر کے جمیعت علمائے اسلام کے رہنما قاری الیاس کو قتل کیا گیا اور اس واقعے کے خلاف ہونے والے احتجاج میں خواتین بھی شریک ہوئی تھیں۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

گذشتہ سال اپریل میں دو اسی نوعیت کے واقعات پیش آئے۔ پہلے واقعے میں مفتی بشیر کو فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا۔ دوسرے واقعے میں مفتی شفیع اللہ کو نشانہ بنایا گیا تھا، جو جمیعت کے اہم رکن تھے اور مقامی سکول میں عربی زبان کے استاد تھے۔ انھیں سڑک کنارے ایک دیسی ساختہ بم دھماکے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان دونوں واقعات کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی تھی۔

جمیعت کے رہنماؤں کے مطابق اس دورانیے میں ان حملوں کے خلاف مقامی رہنماؤں نے ناصرف احتجاج کیے بلکہ دھرنے بھی دیے ہیں، لیکن سرکاری سطح پر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سوموار کی رات اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ وہ امن چاہتے ہیں اور اُن کی جماعت پر حملہ کرنے والے فساد پھیلا رہے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ ایک نظریاتی جنگ ہے، ایک طرف امن کے علمبردار ہیں اور دوسری طرف فساد پھیلانے والے ہیں جو تمام مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں۔

جمیعت داعش کے نشانے پر کیوں؟

باجوڑ میں جمیعت علمائے اسلام کے رہنما اور سابق سینیٹر مولانا عبدالرشید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں یہ تو نہیں معلوم کہ انھیں کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ ان کا یہ سوال ریاست سے ہے کہ ہمارا قصور کیا ہے کیوں جمعیت کو ہی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ جمیعت علمائے اسلام کے کارکن اس ملک کے شہری ہیں اور وہ اس ملک کے قانون اور آئین کو ماننے والے ہیں۔ ’ریاست کو چاہیے کہ وہ ہمیں ہمارا گناہ بتائے کہ آخر کیوں ایسا کیا جا رہا ہے۔‘

سینیئر تجزیہ کار اور محقق عبدالسید نے بی بی سی کو بتایا کہ داعش نے باجوڑ میں جمیعت علمائے اسلام کے جلسہ پر خودکش حملہ کی وجہ جمیعت کے ’جمہوری نظام کا حصہ‘ ہونے کو قرار دیا ہے، مگر اس سے بڑھ کر اس کی چند اور پس پردہ وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ بالخصوص باجوڑ میں جے یو آئی کے رہنماؤں کو حملہ بنانے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ داعش کے دعوؤں کے مطابق سنہ 2021 میں باجوڑ میں داعش کے ایک مقامی حملہ آور زینت اللہ عرف بلال کو ٹارگٹ کلنگ کی ایک کارروائی کے دوران اس وقت پکڑ لیا گیا جب وہ حملے کی تیاری کر رہا تھا اور اس کے بعد اسے تشدد کے بعد قتل کر دیا گیا۔

اس پورے معاملے کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی اور داعش نے الزام عائد کیا تھا کہ حملہ آور کو پکڑنے اور ہلاک کرنے والوں کا تعلق جے یو آئی سے تھا۔ تاہم مولانا عبدالرشید خان نے کہا ہے کہ انھیں کسی ویڈیو کا علم نہیں ہے اور نہ ہی اُن کے کسی کارکن نے یہ تشدد کیا تھا کیونکہ ان کی جماعت ایک آئینی جمہوری پر امن جماعت ہے۔

’ہماری جماعت ایک سیاسی جماعت ہے، ہم امن پر یقین رکھتے ہیں اور ہماری کسی تنظیم یا کسی اورگروہ سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔‘

عبدالسید نے بتایا کہ اس کے بعد سے باجوڑ میں داعش نے تسلسل سے ان افراد کو ’ہدفی کارروائیوں‘ میں قتل کیا جو اس داعش کے مبینہ حملہ آور کے قتل کے مبینہ واقعہ میں شریک تھے۔

انھوں نے کہا کہ داعش کے ایک رہنما ابو سعد خراسانی نے گذشتہ سال مارچ میں ایک تفصیلی تحریری بیان جاری کیا تھا جس میں حملہ آور (بلال) کے قتل کا خصوصی ذکر کیا گیا اور دھمکی دی تھی کہ اس کا انتقام لیا جائے گا۔

عبدالسید کے مطابق اسی طرح داعش کے ’العزائم میڈیا‘ کے طرف سے 92 صفحات پر مشتمل کتابچہ جاری کیا گیا ہے جس میں باجوڑ بم دھماکے کی وجوہات بیان کی گئی ہیں اور اسی کتابچے میں ایک وجہ زینت اللہ عرف بلال کے ’قتل کا انتقام‘ قرار دیا گیا ہے۔

داعش نے باجوڑ حملے کے بعد اپنی کارروائیوں کے بارے میں پشتو زبان میں یہ کتابچہ جاری کیا ہے جس میں جمیعت علمائے اسلام کی پالیسوں پر بات کی گئی ہے ۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار فردوس کا کہنا ہے کہ جمیعت اور داعش کے لوگوں کے درمیان اختلافات داعش کے بننے سے پہلے سے ہیں جب اورکزئی ایجنسی میں حافظ سعید خان اورکزئی تحریک طالبان کے کمانڈر تھے، اُس وقت جمیعت کے کچھ لوگوں کو نشانہ بنایا گیا تھا جس پر ٹی ٹی پی اور حافظ سعید کے درمیان بحث ہوئی تھی اور اختلافات پیدا ہوئے تھے۔

ان کے مطابق اس کے بعد جب ٹی ٹی پی کی مرکزی امارت کا فیصلہ ہونا تھا تو اس کے لیے حافظ سعید بھی امیدوار تھے لیکن ان کے حق میں فیصلہ نہیں ہوا تھا جس پر انھوں نے ٹی ٹی پی سے علیحدگی اختیار کر کے داعش میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

باجوڑ میں چند مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ جب سے اس ضلع میں جمیعت کے قائدین پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے اس کے بعد سے کچھ قائدین دیگر شہروں کو نقل مکانی کر گئے ہیں یا انھوں نے اپنے اہل و عیال کو دوسرے شہروں میں بھیج دیا ہے۔

افتخار فردوس کے مطابق داعش بنیادی طور پر جمہوریت پر یقین نہیں رکھتی اور عالمی سرحدوں اور نیشنلزم کے تصور پر بھی یقین نہیں رکھتی۔ انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ داعش سلفی عقیدے کی پیروکار ہے۔

باجوڑ کے مولانا عبدالرشید کہتے ہیں کہ انھیں نہیں معلوم کہ اس تنظیم (داعش) کا ہماری جماعت سے کیا اختلاف ہے۔ ’ہم جمہوری پارلیمانی سیاست کرتے ہیں۔ ان کے اگر اپنے عزائم ہیں تو ہوں گے ہم تو یہ مانتے بھی نہیں ہیں کہ اس طرح کی کوئی تنظیم موجود ہے۔ کارروائی کے بعد یہ کبھی کس نام سے اور کبھی کس نام سے ذمہ داریاں لیتے ہیں۔‘

اس بارے میں دفاعی امور کے ماہر تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ داعش ابھی افغانستان میں کمزور ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان حکومت نے جب افغان طالبان سے بات کی تھی اور ٹی ٹی پی پر دباؤ بڑھانے کا کہا تھا تو فغان حکام نے کہا تھا کہ اگر ٹی ٹی پی پر دباؤ بڑھائیں گے تو ان کے لوگ داعش میں شامل ہو سکتے ہیں جو زیادہ مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ داعش ہے یا دیگر شدت پسند تنظیموں کے لوگ ہیں جو باجوڑ میں کارروائیاں کر رہے ہیں ۔

داعش کب اور کیسے وجود میں آئی؟

امریکہ نے نائن الیون کے بعد اکتوبر 2001 میں افغانستان پر حملہ کر دیا تھا جس کے بعد سے اس خطے میں حالات خراب ہوئے اور پھر چند سال کے بعد پاکستان میں حالات کشیدہ ہونا شروع ہو گئے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب کچھ مسلح گروہوں نے جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان میں کارروائیاں شروع کر دیں۔

یہ گروپ اتنے مضبوط ہوئے کہ ایک باقاعدہ تنظیم کی شکل اختیار کر گئے جسے بعد میں تحریک طالبان پاکستان کا نام دیا گیا۔ پاکستان حکومت کو پھر ان گروپس اور تنظیموں کے خلاف آپریشنز کرنا پڑے تھے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق خیبر پختونخوا میں داعش کا قیام سنہ 2014 میں ہوا اور پھر 2015 میں اس مسلح گروپ کی کارروائیوں کی اطلاعات موصول ہونے لگیں لیکن سرکاری سطح پر اس کی کبھی تصدیق نہیں جاتی تھی۔

ابتدا میں اس تنظیم میں تحریک طالبان اور دیگر جرائم پیشہ گروہوں کے لوگ شامل ہوئے۔ ان میں اورکزئی ایجنسی سے سعید احمد خان اورکزئی، خیبر اور باجوڑ سے عبدالرحمان اور کمانڈر ابوبکر کے نام سامنے ائے جو داعش کے لیے کام کرتے تھے۔

عبدالسید کے مطابق افغان طالبان نے افغانستان میں 2019 میں داعش کے خلاف بڑی کارروائیاں کی تھیں جس میں داعش کو بڑا نقصان پہنچا تھا اور ان میں زیادہ کارروائیاں باجوڑ کے ساتھ ملنے والی افغاسنتان کے سرحدی علاقوں میں کی گئی تھیں۔

باجوڑ دھماکے کی تحقیقات جاری ہیں اور کو مختلف زاویوں سے دیکھا جا رہا ہے ۔ گزشتہ روز بھی تفتیشی ٹیمیں موقع پر موجود تھیں جس میں فورنزک کے لیے شواہد اکٹھے کیے جا رہے تھے۔