اگر افغانستان کی کرنسی کی بات کی جائے تو آج کے روز ایک امریکی ڈالر لگ بھگ 79 افغانی کے برابر ہے۔ پاکستان جیسی بدحال معیشت میں یہی ڈالر تقریباً 290 پاکستانی روپے میں دستیاب ہے اور انڈیا جیسی تیزی سے پھلتی پھولتی معیشت کے 84 انڈین روپے ایک امریکی ڈالر کے برابر ہیں۔
گذشتہ ہفتے جب فنانشل معاملات پر رپورٹنگ کرنے والے ادارے ’بلومبرگ‘ نے افغانستان کی کرنسی کو کوارٹر (یعنی گذشتہ تین ماہ) کی بہترین پرفارمنس دکھانے والی کرنسی قرار دیا تو بہت سے لوگوں کی جانب سے اس پر حیرت کا اظہار کیا گیا جبکہ پاکستان کے سوشل میڈیا پر چند صارفین کی جانب سے اسے افغانستان میں برسراقتدار طالبان کی ’کامیابی‘ قرار دیا گیا۔
تاہم لوگ اس بات پر بھی حیران ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں موجود ’حکومت‘ کو دنیا کا کوئی ملک باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کرتا، جو عالمی پابندیوں کی زد میں ہے، جس کے بیرون ممالک اثاثے منجمد ہیں اور جہاں بھوک اور افلاس کے ڈیرے ہیں اس کی کرنسی میں ایسا خاص کیا ہے کہ یہ گذشتہ تین ماہ کے دوران دنیا کی ’بیسٹ پرفارمنگ‘ کرنسی رہی ہے؟
اس رپورٹ میں ہم اسی معاملے کا جائزہ لیں کہ ایسا کیونکر ممکن ہوا اور وہ کیا عوامل ہیں جن کی بنیاد پر افغان کرنسی ’بہترین پرفارمنس‘ دکھانے والی کرنسی بنی۔
افغانستان کی کرنسی ’تیسری بہترین کرنسی‘
گذشتہ مہینے کے آخر میں یہ خبر سامنے آئی کہ ڈالر کے مقابلے میں افغان کرنسی جسے ’افغانی‘ کہا جاتا ہے اتنی مضبوط ہوئی ہے کہ ایک ڈالر 73 افغانی کے برابر ہو گیا، لیکن اگلے ہی روز پھر سے 78 افغانی تک پہنچ گیا تھا ۔ یکم اکتوبر کی شام کو ایک ڈالر 83 افغانی کے برابر تھا۔
بلومبرگ کی رپوٹ کے مطابق رواں سال جولائی سے اب تک افغانستان کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں 9 فیصد بہتر ہوئی ہے جس کے بعد یہ کولمبیا کی ’پیسو‘ اور سری لنکا کے ’روپے‘ کے بعد تیسری بہترین کارکردگی دکھانے والی کرنسی کے طور پر سامنے آئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بہتری کی بڑی وجہ طالبان حکومت کا کرنسی پر کنٹرول، امداد کی مد میں افغانستان کو موصول ہونے والے اربوں ڈالرز، بیرون ممالک مقیم افغان شہریوں کی طرف سے اپنے رشتہ داروں کو بھیجے جانے والی ترسیلات زر میں اضافے کے باعث ہوا ہے۔
یاد رہے کہ ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں بسنے والے لگ بھگ 66 فیصد شہری بنیادی ضروریات زندگی مشکل ہی سے افورڈ کر پاتے ہیں جبکہ ملک میں بیروزگاری اپنے عروج پر ہے۔
جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2021 میں طالبان کے ملک پر قابض ہونے کے بعد سے اقوام متحدہ نے 5.8 ارب ڈالر امداد کی غرض سے بھیجے ہیں۔
بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے افغان بینک کے سابق نگراں گورنر اور ایک عرصے تک افغان سینٹرل بینک میں کام کرنے والے عہدیدار خان افضل ہدہ وال کا کہنا ہے کہ افغان کرنسی کے قدر میں بہتری حقیقی نہیں ہے بلکہ مصنوعی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ مصنوعی اس لیے ہے کہ ایسا افغانستان کے پیدواری عمل میں بہتری کے نتیجے میں نہیں ہے۔ طالبان کی حکومت میں افغانستان میں کوئی بہتر انداز میں تجارتی اور پیداواری سرگرمی نہیں ہو رہی بلکہ بھوک اور افلاس پر قابو پانے کے لیے اقوام متحدہ سے ملنے والی امدادی رقوم (جو ڈالر کی شکل میں ہوتی ہیں) اور کچھ ترسیلات زر کو بینکوں میں جمع کیا جا رہا ہے جس کے باعث افغانستان کی کرنسی بہتر نظر آئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بلومبرگ کی رپورٹ میں افغان کرنسی کی بہتری کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ کیونکہ حالیہ دنوں میں اس خطے میں بیشتر ممالک کی کرنسی کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں کمی واقع ہوئی ہے مگر مصنوعی اور جزوقتی اقدامات کے باعث افغان کرنسی کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ افغان کرنسی کی قدر میں کمی واقع نہ ہونے کی مختلف وجوہات ہے اور ان میں ایک وجہ یہ ہے کہ افغان کرنسی عالمی مارکیٹ میں تو ابھی تک نہیں آئی ہے کیونکہ جب سینٹرل بینک ڈالر اوپن مارکیٹ میں لے آئے اور اس کو متوازن رکھ لے تو صورتحال واضح ہو سکتی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان جیسے ممالک میں کرنسی ایکسچینج ریٹ ملک کی معاشی ترقی سے جڑا ہوا فیکٹر نہیں ہے۔‘
’اب سامان تجارت آسانی سے منڈی یا اپنی منزل پر پہنچتا ہے‘
تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے افغانستان کے چند کاروباری افراد نے اس میں طالبان کی حکومت کی چند ’کامیابیوں‘ کا بھی ذکر کیا ہے جس کے باعث کرنسی کی صورتحال بہتر ہوئی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے افغانستان کے چیمبر آف کامرس کے حکام اور تاجروں نے طالبان کے بعض اقدامات کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ سابق حکومت (اشرف غنی کی حکومت) کے خاتمے اور طالبان کے آنے کے بعد ان کے بہت سارے مسائل حل ہوئے ہیں اور کچھ مشکلات میں کمی واقع ہوئی ہے جس سے مارکیٹ کی صورتحال میں بہتری آئی ہے۔
افغان چیمبر آف کامرس کے بورڈ کے رکن اور پاک افغان مشترکہ چیمبر کے رکن خان جان الکوزے نے بی بی سی کو بتایا کہ طالبان کے آنے کے بعد جو سب سے بڑا کام ہوا ہے وہ امن کا قیام ہے۔ ان کے مطابق پہلے سامان کی ترسیل کے دوران مختلف جرائم پیشہ گروہ ٹیکس کے نام پر تاجروں سے ’بھتہ‘ لیتے تھے جس کا اب خاتمہ ہو چکا ہے اور اب کسی اضافی لاگت کے بغیر سامان آسانی سے منڈی میں پہنچ جاتا ہے جبکہ دیگر ہمسایہ ممالک بشمول پاکستان سے بھی سامان کی ترسیل آسان ہوئی ہے۔
خان جان کے مطابق ’اب ایک ہی حکم ہے اور سب کو ایک طرح سے ڈیل کیا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ تاہم جمہوری حکومت کے خاتمے کے بعد نئے مسائل نے بھی جنم لیا ہے جن میں سے ایک تو یہ ہے کہ طالبان کے آنے کے بعد افغانستان کو گذشتہ 20 سالوں سے عالمی امداد اور اداروں کا تعاون حاصل تھا جو دو سال پہلے ختم ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اِس وقت افغانستان میں کہیں مسائل ہیں مگر بعض شعبوں میں سخت کنٹرول کے باعث بہتری بھی آ رہی ہے ۔
مقامی ایکسچینج ڈیلرز کے ایک نمائندے کے مطابق افغان طالبان نے ملک میں پاکستانی روپے سمیت دیگر کرنسیوں کے استعمال پر پابندی عائد کر رکھی اور فی الوقت تجارت کے لیے صرف افغان کرنسی کے استعمال کا حکم دیا گیا ہے جس وجہ سے افغان کرنسی کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا ہے۔
افغان اُمور پر سینیئر تجزیہ کار سمیع یوسفزئی کے مطابق بظاہر افغانستان میں کرنسی کے قدر میں اضافہ اس لیے نہیں ہے کہ ملک میں کوئی معاشی ترقی ہو رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ بیرون ممالک اور اداروں کی جانب سے ڈالر کی صورت میں جو امدادی رقوم آ رہی ہیں وہ افغانستان کے سینٹرل بینک میں جمع ہو رہی ہیں جن کے باعث افغان کرنسی اپنی صورتحال وقتی طور پر ناصرف مستحکم رکھے ہوئے ہے بلکہ اس کی قدر میں بھی کچھ اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بیروں ملک سے تجارت بہت محدود سطح پر ہو رہی ہے اور اگر تھوڑی بہت ہو رہی ہے تو اس کے لیے رقم کی ترسیل باقاعدہ چینلز کے بجائے مختلف طریقوں سے کی جا رہی ہے ۔
’اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ جو ڈالر باہر سے آ رہے ہیں وہ جمع ہو رہے ہیں اور بینکوں سے لوگ آسانی سے رقم نہیں نکال سکتے۔‘
سمیع یوسفزئی کے مطابق اس وقت افغانستان میں معیشت کی بہتری کے لیے کچھ نہیں ہے، چین اور پاکستان کے ساتھ جو سرحدی تجارت ہو بھی رہی ہے وہ مقامی سطح پر ہو رہی ہے۔
افغان کرنسی پر پالیسی کیا ہے؟
افغانستان میں دو سال پہلے یعنی اگست 2021 میں طالبان نے اشرف غنی کی حکومت کا تختہ الٹتے ہوئے حکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔
طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد حکومتی اور معاشی نظم و نسق چلانے کے بہت سے ماہر ملک چھوڑ کر دیگر ممالک کو نقل مکانی کر گئے تھے۔
افغان بینک کے سابق نگراں گورنر افضل ہدہ وال افغان کرنسی کے حوالے سے افغانستان کی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں تمام ممالک کی ایکسچینج ریٹ کی پالیسی مختلف ہوتی ہے، کچھ ممالک فکس ایکسچینج ریٹ رکھتے ہیں جیسا کہ متحدہ عرب امارات اور نیپال کے انڈیا کے ساتھ فکس ایکسچینج ریٹ ہوتا ہے جبکہ بعض ممالک میں ایکسچینج ریٹ مارکیٹ میں طلب اور رسد کی بنیاد پر کام کرتا ہے، تاہم بعض مملک کی پالیسی ’مینیجڈ‘ ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ جہاں تک افغانستان کی بات ہے یہاں ڈالر مارکیٹ میں تو ہے لیکن اس میں ملک کا سینٹرل بینک مداخلت کرتا ہے اور یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ افراط زر کو قابو میں رکھا جا سکے اور افغانی کے ایکسچینج ریٹ اس سطح پر رکھے جا رہے ہیں کہ ہمسایہ ممالک یا پارٹنر ممالک سے جب تجارت ہو تو سامان تجارت کم قیمت پر دستیاب ہو سکے۔
خان افضل کے مطابق اب جو صورتحال ہے اس میں ڈالر باہر ممالک سے زیادہ آ رہے ہیں مگر حکومتی کنٹرول کے باعث لوگ انھیں نکال نہیں سکتے، اس لیے پورے ملک میں تجارت صرف افغان کرنسی میں ہو رہی ہے اس لیے افغان کرنسی کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں فیزیکل ڈالر کی آمد ہے، اس کے علاوہ تجارتی معاہدے بھی بینک کے ذریعے نہیں ہو رہے کیونکہ جو ممالک دور ہیں ان کے ساتھ تجارت مشکل ہے اور جو ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت ہو رہی ہے وہ مقامی صرافہ بازار کے ذریعے ہوتی ہے جس کی ادائیگی حوالہ کے ذریعے ہوتی ہے۔