خیال، احساس اور الفاظ ذہن کی کال کوٹھڑی میں بند ہیں۔ لفظ جو زنجیروں میں جکڑ چکے، لہجے جو آواز کھو چکے اور حرف تمنا کا کشکول ہاتھ میں لیے اظہار کی بھیک چاہتے ہیں۔
احساس کو پس زندان کیسے کیا جا سکتا ہے؟ خیال بھی کبھی ہتھکڑیوں میں جکڑے گئے ہیں؟ ہاں الفاظ بہر حال قید کیے جاتے رہے ہیں مگر جب لفظ حصار توڑتے ہیں تو جبر کے قلعے مسمار ہو جاتے ہیں۔
جو کل درست نہیں تھا وہ آج کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے۔ کل سیاست، سماج اور صحافت کو پابہ رسن کیا جاتا تھا، سوچ پر پہرے بٹھائے جاتے تھے، آوازیں بند کی جاتی تھیں، اظہار پر بند باندھے جاتے تھے۔ آج بھی وقت اور حالات کچھ اسی طرز پر ہیں۔
تبدیلی پراجیکٹ کا اہم حصہ تنقیدی آوازوں کا گلا گھونٹنا تھا، جہاں کسی نے آواز اُٹھائی وہیں آواز بند، جہاں کسی نے دوسری طرف کا بیانیہ دینے کی کوشش کی وہ زیر عتاب۔ متوازن اور جمہوریت پسند آوازوں کو لکنت زدہ بنا دیا گیا اور چیختے چنگھاڑتے لفظوں کو بے آواز۔ گولی سے گالی تک ہر ہتھیار استعمال ہوا۔۔۔ نتیجہ کیا نکلا جو خاموش ہوئے وہ پوری آواز سے چیخنے لگے۔
اہل سیاست کے ساتھ بھی عجب سلوک ہوا۔ پورے قد سے کھڑے لوگوں کی ٹانگیں کاٹ دی گئیں، دماغ اور ذہن رکھنے والے لمبی زبانوں اور چھوٹے دماغوں کے سامنے کم حیثیت ہوئے۔ جن کی پَگ تھی اُن کے سر کنٹوپ اور جن کے سر تھے اُن کو رسوائی دی گئی۔
سیاست اور صحافت سر بازار رسوا ہوئے تو سماج کی باری آئی۔ تقسیم در تقسیم معاشرے میں نفرت کی بارودی سُرنگیں بچھا دی گئیں۔ اب مقتدرہ کا خود ان ہی سرنگوں پر پاؤں ہے۔
ہائبرڈ دور تاریک ٹھہرا۔ تبدیلی پراجیکٹ لانے والے ہاتھ ملنے لگے، پچھتاوے طاری ہوئے اور خدشے حاوی۔ قافلے سے مگر احساس زیاں جاتا رہا۔ اسٹیبلشمنٹ پہلو سے لگی بیٹھی رہی اور پھر دامن چھڑانے میں مصروف۔
2018 کے انتخابات سے قبل جو فضا بنائی گئی تھی اُس کا ذکر کئی بار ہو چکا مگر اب اُس فضائے رنگ و بو میں دوبارہ رنگ بھرنے کا خیال سیاسی کینوس کو مزید بے رنگ کر سکتا ہے۔
ایک بار پھر ملک انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے مگر کیا حالات ایک بار پھر 2018 جیسے بنتے نظر آ رہے ہیں۔ شادی ہال نئی ’غیر حقیقی سیاسی جماعتوں‘ کا لیبر روم بن رہا ہے جبکہ شادیانوں کی گونج میں سیاست بالجبر کا اظہار بھی ببانگ دہل ہے۔
عمران خان کے لیے سیاسی بساط بچھائی گئی تو اب نئے انتخابات سے قبل ایک سا سیاسی ماحول کیسے بنایا جا رہا ہے؟ 2018 میں جنوبی پنجاب کا محاذ تیار کیا گیا تو کیا اب نئے گروپس کی تشکیل سے سیاست میں ’استحکام‘ آ پائے گا؟ مان لیجیے کہ نواز شریف اور جہانگیر ترین کے ساتھ نا انصافی ہوئی مگر کیا ایک بار پھر نااہلیت کی تلوار چلائی جائے گی۔
سیاسی پنڈت سیاسی صورت حال کو بھانپ رہے ہیں اسی لیے ٹیکنو کریٹس کے ہاتھ ملک کی بھاگ دوڑ دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر حکمران اتحاد جن خدشات میں گھرا نظر آتا ہے اُن میں نگران سیٹ اپ کا طویل دورانیہ بھی ایک ان دیکھا خوف ہے۔
انتخابات کی آئینی ضرورت پوری ہو یہ بھی بہر حال آدھی ادھوری جمہوری جماعتوں کی خواہش ہے تاہم ایک بار اقتدار چھوٹا تو دامن میں کانٹے بھی آ سکتے ہیں یہ خدشات بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔
ٹیکنوکریٹ نظام کی پُشت پر مقتدرہ کی دیرینہ خواہشوں کا انبار بھی نظر آ سکتا ہے اور بے لگام سیاست کو لگام ڈالنے کی آڑ میں سیاسی نظام کی قربانی نا دینی پڑ جائے یہ خطرات بھی لاحق ہیں۔
سوال یہ ہے کہ انتخابات سے قبل لیول پلیئنگ فیلڈ یا ایک سا ماحول کیونکر میسر آ سکتے ہیں؟ بھلا نام لینے پر پابندی لگانے سے کبھی ذہن کھرچے جا سکتے ہیں۔ تصویر پر پابندی تشہیر کے لیے از خود کافی ہے، سمجھانے والوں کو یہ سمجھ کیسے آئے گی۔
عمران خان کے دور میں جو کچھ ہوا آج اسے مکافات عمل کے ساتھ تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ بہر حال یہ سلسلہ رُکے گا نہیں۔ شاید ہم خوگرِ سلاسل ہیں جبھی تو قید کے عادی اور اظہار سے خوف زدہ ہیں۔ سکوت کی صدا سُنیے کہیں کان بہرے نہ ہو جائیں اور لہجے لکنت زدہ۔