’مجھے بے حد شرمندگی محسوس ہوتی تھی جب مجھے ایڈمن والے آ کر کلاس میں کہتے تھے کہ سب کی فیس آ گئی ہے، سوائے آپ کے۔‘
’یہ وہ جملے تھے جنھوں نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کا خواب ادھورا چھوڑ دوں کیونکہ میرے پاس وسائل نہیں ہیں۔‘
حمیرا لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ ان کا تعلق متوسط طبقے سے ہے۔ جس کی وجہ سے انھیں اپنی تعلیمی اخراجات پورے کرنے میں مسائل کا سامنا رہا ہے۔
یہ ان کی ڈگری کا آخری سال ہے جبکہ ان کا یہ کہنا ہے کہ ’مالی مشکلات کے باعث میری گریجوئیشن کی چار سالہ ڈگری میرے لیے 16 سال کے برابر تھی۔‘
حمیرا ایسی واحد طالب علم نہیں ہیں جن کے لیے مالی مشکلات کی وجہ سے اپنی تعلیم کا خواب پورا کرنا مشکل یا ناممکن ہو رہا ہے۔
حال ہی میں ایسی ہی ایک مثال اس وقت نظر آئی جب سماجی رابطوں کی سائٹ ٹوئٹر پر اریبہ نامی صارف نے اپنے بھائی کی یونیورسٹی کی فیس دینے کے لیے سوشل میڈیا صارفین سے مالی مدد مانگی تاکہ ان کے بھائی لاہور کی نجی یونیورسٹی لمز میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
ان کی اس اپیل پر کئی لوگوں نے ان کی مدد کی تو کئی ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے پاکستان کے تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ اریبہ پر بھی تنقید کی کہ جب آپ کسی یونیورسٹی کی فیس برداشت نہیں کر سکتے تو وہاں داخلہ ہی کیوں لیا جائے۔
جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کا یہ کہنا تھا کہ اچھی یونیورسٹی میں میرٹ پر داخلہ ملنا بڑی بات ہے اور ایسے بچوں کی مدد کرنی چاہیے۔
اریبہ کی اس کہانی میں اپنی کہانی دیکھنے والی حمیرا بتاتی ہیں کہ ’آپ یہ نہیں جانتے کہ حالات کب اور کیسے انسان کے لیے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کے لیے یہ کہنا بہت آسان ہوتا ہے کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہییں۔‘
’میں نے جب اپنے تعلیم شروع کی تھی تو میرے والد حیات تھے اور ان کی دکان تھی۔ ہم پانچ بہنیں ہیں اور ایک بھائی۔ میرے والد کی خواہش تھی کہ میں پروفیسر بنوں۔ اس لیے انھوں نے جب میرا داخلہ اس یونیورسٹی میں کروایا تو اس وقت میری فیس 33 ہزار فی سمسٹر تھی۔ ایک، ڈیڑھ سال آرام سے گزر گیا۔‘
’پھر میرے والد کو قتل کر دیا گیا۔ اس دن کے بعد سے میرے لیے تعلیم سمیت زندگی کا ہر پہلو مشکل ہو گیا۔ ہمارے مالی حالات خراب ہو گئے۔ بھائی کو تعلیم سے وقفہ لے کر دکان پر بیٹھنا پڑا۔ میں نے اپنی تعلیم نہیں چھوڑی اور ہوم ٹیوشن شروع کر دی۔ اس کے علاوہ بھی کوئی چھوٹا موٹا لکھنے کا کام ہوتا، تو میں کر لیتی تھی۔‘
’ہر سمیسٹر میں میرے سر پر یہ تلوار لٹک رہی ہوتی تھی کہ فیس کیسے دینی ہے۔ جس کے بعد میں نے کمیٹیاں ڈال کر فیس ادا کی۔ ایک مرتبہ مجھے ٹیچر نے ایک مضمون میں فیل کر دیا کیونکہ میرے پاس فائنل پروجیکٹ کرنے کے پیسے نہیں تھے۔‘
’اس وقت میں نے سوچا کہ میں تعلیم چھوڑ دوں لیکن پھر میری ایک دوست نے مجھے کہا کہ حمیرا تم ایسا تو مت سوچو۔ اس نے مجھے ادھار دیا اور کہا کہ اپنی فیس ادا کرو اور جب تمھارے پاس پیسے ہوں تو مجھے لوٹا دینا۔‘
’پھر حال ہی میں ایک سمیسٹر ایسا تھا کہ میرے پاس پیسے کم پڑ گئے کیونکہ ہماری فیس 33 ہزار سے بڑھ کر 56 ہزار ہو گئی ہے۔ میرے لیے فیس کا بڑھنا کسی آزمائش سے کم نہیں تھا۔ اس وقت میرے ایک سر نے مجھے کہا تم فکر مت کرو میں کچھ کرتا ہوں۔ انھوں نے ڈونیشن ڈیپارٹمنٹ سے کہہ کر مجھے 10 ہزار روپے لے کر دیے جس کے بعد میں نے فیس جمع کروائی۔‘
یونیورسٹیوں کی بڑھتی ہوئی فیسوں کی وجہ کیا ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان پنجاب ایچ ای سی شاہد عمران کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ یونیورسیٹوں کے حوالے سے بات کی جائے تو فیسوں کو ایک محدد حد تک بڑھانے کا عمل زیادہ تر میڈیکل اور انجینیئرنگ کالج اور یونیورسٹیز تک تو ضرور ہے لیکن دیگر یونیورسٹیز پر یہ پابندی نہیں ہے کہ وہ کس حد تک فیس بڑھائیں گی۔
یعنی کوئی ایسی ریگولیٹری اتھارٹی موجود نہیں ہے جو پرائیوٹ سیکٹر کی یونیورسٹیز کی فیسوں پر کنٹرول رکھ سکے؟ ایک سوال کے جواب پر ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے کوشش کی تھی۔ لیکن اس کوشش کے فوری بعد ہمارے خلاف اسمبلی میں بل پیش کر دیا گیا کہ ایچ ای سی کے دائرہ کار کو محدود کیا جائے۔‘
ایچ ای سی کے ہی ایک اور افسر نے بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے کہا ’بعض پرائیویٹ یونیورسٹوں والے ایک مافیا کے طور پر آپریٹ کرتے ہیں۔ اس لیے وہ نہیں چاہتے کہ انھیں کنٹرول کرنے کے لیے کوئی اتھارٹی موجود ہو یا یہ کام کرے۔‘
’انھیں زیادہ چھوٹ اس وقت سے ملی ہے جب وائس چیئرمینوں کی تعیناتی کے اختیارات گورنر سے لے کر وزیراعلیٰ کو دیے گئے ہیں۔‘
تاہم ان الزامات کو رد کرتے ہوئے ترجمان پرائیوٹ سیکٹر یونیورسٹیز پاکستان میاں عمران مسود کا کہنا تھا کہ ’ہمیں مافیا کہنا زیادتی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں آپریٹ کرنے والی تمام یونیورسٹیاں ایک دوسرے کے مقابلے پر کام کر رہی ہوتی ہیں۔ ہر ایک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی یونیورسٹی میں تعلیم کے میعار کو بہتر بنائے۔‘
’اس کے لیے وہ بہتر سے بہترین اساتذہ کو پڑھانے کے لیے رکھتے ہیں۔ ناصرف یہ بلکہ جو یونیورسٹیاں زیادہ فیسیں وصول کرتی ہیں وہ اسی لحاظ سے سروسز بھی مہیا کرتی ہیں۔ جو یونیورسٹی تین سے چار لاکھ فیس لے رہی ہے ان کے کلاس رومز دیکھ لیں۔‘
’یہی نہیں سوئمنگ پول، سپورٹس اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی آگے ہوتی ہیں۔ کئی ایسے پروگرامز بھی آفر کیے جاتے ہیں جوبین الاقوامی ادروں کے ساتھ مل کر سرانجام دیے جاتے ہیں، اُن کی لائنسنگ فیس بھی کافی زیادہ ہوتی ہے۔‘
’جب آپ ایسی کسی یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہیں تو آپ اپنی مرضی سے سب معلومات جاننے کے بعد ہی داخلہ لیتے ہیں۔ والدین بھی یونیورسٹی کا نام دیکھتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’حکومت ہم پر تنقید کرتی ہے کہ ہم فیسیں زیادہ لیتے ہیں۔ وہ ہمیں کہتے ہیں کہ آپ لوگ غیر منافع بخش کام کر رہے ہیں کیونکہ یہ ایک نوبل کام ہے۔‘
’جبکہ حکومت ہم پر ٹیکس کمرشل بنیادیوں پر لگاتے ہیں۔ ہمیں کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا جاتا۔‘
’گورنمنٹ کو چاہیے کہ وہ سرکاری اداروں میں بھی تعلیمی میعار کو بہتر بنائے۔ اور اگر وہ یہ نہیں کر سکتے تو کم از کم طالب علموں کے لیے کوئی ایسی سکیم متعارف کروائیں جس کے تحت انھیں قرض دیا جائے تاکہ وہ اپنی مرضی کی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر سکیں۔‘
فیس کے پیسے نہ ہونے کی صورت میں آپ کیا کر سکتے ہیں؟
زیادہ تر طلبہ اور طالبات ایسے ہی طریقے اپناتے ہیں جو اریبہ اور حمیرا نے اپنائے۔ لیکن یہاں یہ بات جاننا بھی ضروری ہے کہ ایچ ای سی کے قواعد کے مطابق ہر پرائیویٹ یونیورسٹی اس بات کی پابند ہے کہ تعلیم کے لیے مالی امداد کا محکمہ قائم کرے جو ان بچوں کی مالی معاونت کر سکے جو اپنی فیس ادا نہیں کر سکتے۔
تاہم یونیورسٹیوں میں زیادہ تر بچوں کو علم ہی نہیں ہوتا ہے کہ ایسا کوئی محکمہ موجود بھی ہے یا نہیں۔
اس معاملے پر بات کرتے ہوئے ترجمان پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز پاکستان میاں عمران مسود کا کہنا تھا کہ ’یہ بات درست ہے کہ اس محکمے کو زیادہ نمایاں نہیں کیا جاتا کیونکہ ہر یونیورسٹی کے پاس محدود سکالرشپ موجود ہوتے ہیں جن میں میرٹ پر آنے والے بچوں اور ضرورت مند بچوں کی فیس 50 سے 70 فیصد تک فیس معاف کی جاتی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے جو بچوں کو تعلیم کے لیے قرض دے رہا ہو۔ اخوت والے پھر بھی تھوڑا بہت اس فیلڈ میں کام کر رہے ہیں ان کے علاوہ تو کوئی بھی نہیں ہے۔‘
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سرکاری یونیورسٹیوں میں محدود سیٹوں کی وجہ سے زیادہ تر طالب علموں کو پرائیویٹ یونیورسٹیوں کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔
ایچ ای سی پنجاب کے ڈیٹا کے مطابق اس وقت سرکاری یونیورسیٹوں میں تقریبا سات لاکھ طالب علم زیر تعلیم ہیں جبکہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں یہی تعداد تقریبا 20 لاکھ ہے۔
دوسری جانب ایچ ای سی کا کہنا ہے کہ سرکاری طور پر وہ کئی بچوں کو پاکستان اور دیگر ممالک میں پڑھائی کے لیے بھیجتے ہیں۔ ’لیکن حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہر ضرورت مند بچہ یہ سکالرشپ حاصل کر سکے کیونکہ انھیں حاصل کرنے کا بھی ایک میرٹ ہے۔‘