’اگر آپ ہمارے باغ میں آ کر پانچ سے دس پیٹیاں پھل لے کر جانا چاہیں تو ہم ایسا کرنے میں آپ کی مدد کریں گے۔ مگر اس طرح پھلدار درختوں کی ٹہنیاں توڑ کر آپ اپنے ساتھ لے جائیں گے تو ہمیں اس بات سے بہت تکلیف ہو گی کیونکہ ہم ان درختوں کو اپنے بچوں کی طرح پالتے ہیں۔‘
یہ کہنا ہے ہنزہ کے ایک مقامی شہری مہدی آصفی کا جو یہاں آنے والے چند سیاحوں کے روّیے سے نالاں ہیں۔
ان کا کہنا کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ سوچیں اگر آپ کا گھر کسی خوبصورت علاقے میں ہو جہاں نہایت عمدہ ذائقے والی خوبانی، آلوبخارے یا سیب کے درخت لگے ہوں، اور کوئی انجان شخص ان درختوں سے نہ صرف پھل توڑے بلکہ آپ کے درختوں کو بھی نقصان پہنچائے تو آپ کو کیسا لگے گا؟
ہر سال کی طرح اس سال بھی پاکستان کے شمالی علاقوں گلگت بلتستان اور سکردو سے مقامی افراد اور سیاحوں نے بھی ایسی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کیں جو بعد میں وائرل بھی ہوئیں، جن میں بعض سیاحوں کو ناصرف پھلدار درختوں کے ساتھ جُھولتے اور ان سے پھل توڑتے دیکھا گیا بلکہ اُن کے ہاتھوں میں پھلوں سے لدی درختوں کی ٹہنیاں بھی تھیں۔
سیاحوں کی ان حرکتوں کی وجہ سے مقامی لوگوں نے اپنے غم و غصے کا اظہار سوشل میڈیا پر بھی کیا۔
مقامی لوگوں کو سیاحوں سے کیا شکوہ ہے؟
پاکستان کے اکثر علاقوں سے لوگوں نے اس پر ردعمل دیا اور کہا کہ اُن علاقوں کے مقامی لوگ مہمان نواز ہوتے ہیں جنھیں یہ بُرا نہیں لگتا کہ کوئی اُن کے درختوں سے پھل توڑے مگر جو بات اُنھیں تکلیف دیتی ہے وہ یہ ہے کہ اُن کے درختوں کو نقصان پہنچایا جائے۔
سکردو کے شہری انور علی نے کہا کہ ’ہم تو چاہتے ہیں کہ لوگ مُلک کے ہر حصے سے یہاں آئیں اور ہم تو خود اُنھیں پھل پیش کرتے ہیں تاکہ وہ ان کے ذائقے سے لطف اندوز ہوں مگر یہاں کے لوگوں کے رہن سہن کا بھی خیال رکھیں۔‘
چیف کنزرویٹر فاریسٹ، پارکس اینڈ وائلڈ لائف گلگت بلتستان ڈاکٹر ذاکر حُسین کہتے ہیں کہ سیاح اکثر لوگوں کی پرائیویسی کا خیال نہیں کرتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سکردو اور گلگت میں سیاح بغیر اجازت کے مقامی لوگوں کی نجی پراپرٹی میں داخل ہو جاتے ہیں، مقامی لوگوں کے گھروں کی بنا اجازت تصاویر لیتے ہیں اور پھل توڑتے ہیں۔‘
سکردو کے ایک اور رہائشی عامر علی کا کہنا تھا کہ سیاح مقامی بچوں کو بظاہر اپنی خوشی سے دس یا بیس روپے دے دیتے ہیں، جو مناسب نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں بھکاری کم ہیں۔ اس طرح کرنے سے بچوں میں لالچ پیدا ہو گا اور سکول سے چھٹی کے بعد سڑکوں پر آ بیٹھیں گے۔‘
انھوں نے سیاحوں سے درخواست کی کہ ’اگر آپ پیسے دینا چاہیں تو کسی سکول کو عطیہ کر دیں لیکن یہاں کے بچوں کی عادتیں خراب نہ کریں۔‘
’یہ پھلدار درخت مقامی لوگوں کی خوراک بھی ہیں اور ذریعہ معاش بھی‘
ڈاکٹر ذاکر حُسین نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ پھل دار درخت یہاں کے مقامی لوگوں کے لیے سب کچھ ہیں، یعنی اُن کا کھانا پینا، کمائی کا ذریعہ حتیٰ کہ ان لوگوں کے جانوروں کی خوراک بھی انھیں درختوں سے وابستہ ہے۔‘
اُنھوں نے وضاحت کی کہ درختوں کو پہنچنے والا نقصان ان کی آئندہ پیداوار کو متاثر کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ان پھلدار درختوں کی ٹہنیوں کو توڑ دیا جائے تو آئندہ سال ان درختوں کی پیدارور میں بڑی کمی واقع ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کو شدید مُشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
ڈاکٹر ذاکر نے بتایا کے مقامی لوگ انہی پھلوں کو موسم سرما کے لیے بھی ذخیرہ کرتے ہیں۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ’موسم سرما میں جب ان علاقوں میں شدید برف باری ہوتی ہے اور یہاں کا مُلک کے دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ منقطع ہو جاتا ہے تو ایسے میں موسم گرما میں خشک کیے جانے والے یہی پھل ان کی خوراک میں اہم کردار بھی ادا کرتے ہیں۔‘
پھلدار درختوں کو نقصان سے بچانے کے لیے مقامی انتظامیہ کیا کر رہی ہے؟
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز اور تصاویر کے بعد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے چیف سیکرٹری گلگت بلتستان محی الدین وانی نے کہا کہ سیاحوں کو اس صوتحال سے متعلق آگاہی کے لیے کونسلنگ کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا ’ایسے افراد کے خلاف کوئی قانونی کاروائی تو عمل میں نہیں لائی جا سکتی مگر فارسٹ آفیسرز کو یہ ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ اگر کسی بھی سیاح کو گلگت بلتستان یا کسی بھی اور علاقے میں پھلدار درختوں کو نقصان پہنچاتے یا ان علاقوں میں گندگی پھیلاتے دیکھا گیا تو انھوں ایک گھنٹے کا کونسلنگ سیشن دیا جائے گا اور سمجھایا جائے گا کہ جو وہ کر رہے ہیں وہ کیوں نہیں ہونا چاہیے۔‘
محی الدین وانی کے مطابق گلگت بلتستان کے سکولوں میں بچوں کی کونسلنگ کے لیے باقائدہ منصوبہ بندی کی جا رہی ہے تاکہ بڑے پیمانے پر اس علاقے کے ماحول کو نہ صرف بہتر بنایا جا سکے بلکہ اسے محفوظ بھی رکھا جا سکے۔
سکردو اور گلگت بلتستان میں پائے جانے والے چند نایاب پھل
بلاگر اور سیاحت کے شوقین نصر احمد بھٹی کے مطابق ’سکردو کے علاقوں پاری، کھرمنگ اور گھانچے میں ’سسپولو‘ کے نام سے پائی جانے والی سیب کی قسم اب پیداوار میں تو کم ہو گئی ہے مگر آج بھی بہت مقبول ہے۔‘
’سسپولو سیب انتہائی خوشبو دار اور میٹھا ہوتا ہے، اس سیب کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے درخت کو مُلک کے کسی بھی اور علاقے میں لگایا جائے تو وہ پھل تو ضرور دیتا ہے مگر اس میں وہ خوشبو نہیں ہوتی جو پاری کھرمنگ کے علاقوں میں پائے جانے والے سسپولو سیب میں ہوتی ہے۔‘
نصر نے مزید بتایا کہ ’سکردو میں پائی جانے والی لذیذ خوبانی کی اقسام میں ’مار غلام‘ اور ’ہلمان‘ سرفہرست ہیں، ان میں کچھ رنگت میں سفید اور کچھ نارنجی ہوتی ہیں۔‘
نصر کے مطابق سکردو کے متعدد علاقوں میں مقامی لوگ اپنے پھلدار درختوں کو جانوروں اور سردی کی شدت سے بچانے کے لیے ان کے تنوں کو کپڑے سے لپیٹ دیتے ہیں۔
پاکستان میں خوبانی کی ساٹھ مختلف اقسام گلگت، دیامر، غذر اور سکردو میں لگے باغات میں پیدا ہوتی ہیں۔
سکردو سے رہائشی اور کاروباری شخصیت ذاکر جان بلتی کے مطابق شمالی علاقوں میں دیہی آبادی خوبانی کی کاشت سے منافع کماتی ہے اور اس کے روزگار سے وابستہ ہے۔
ذاکر بتاتے ہیں ’شمالی علاقہ جات کی مقامی آبادی خوبانی کو موسمیاتی بیماریوں کے علاج میں بطور دوا بھی استعمال کرتی ہے۔‘
اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مقامی لوگ موسم سرما میں ہونے والے نزلے یا زکام کی صورت میں خوبانی کا ہریسہ بنا کر کھاتے ہیں مزید یہ کہ اگر گرمیوں میں شدید گرمی کی وجہ سے طبعیت ناساز ہو تو اسی خوبانی کا شربت عمدہ طریقہ علاج بھی ہے۔‘
پاکستان خوبانی کی پیداور کے لحاظ سے دنیا کے اُن ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو ایک لاکھ ٹن سالانہ سے زیادہ خوبانی پیدا کرتے ہیں اور ایک لاکھ بانوے ہزار ٹن سے زیادہ کی پیداوار کے ساتھ پاکستان دنیا بھر میں خوبانی کی پیداوار کا 4.98 فیصد حصہ پیدا کرتا ہے۔
بلاگر نصر احمد بھٹی کا کہنا ہے کہ ’جب سیاح اپنے علاقوں کے سخت موسم سے نکل کر شمالی علاقوں کا رُخ کریں تو ان علاقوں کے رہنے والے افراد سماجی اور ثقافتی اقدار کا خاص خیال رکھیں اور وہاں کے پھلدار درختوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔ ‘