پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ان بچوں میں کمسن لڑکوں کی تعداد 50 فیصد سے زیادہ ہے۔
حال ہی میں پنجاب کے محکمہ داخلہ نے اپنے ذیلی ادارے پرووینشل انٹیلیجنس سینٹر کی ایک رپورٹ پنجاب پولیس کو بھجوائی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ رواں برس کے پہلے ساڑھے پانچ ماہ کے عرصے میں صوبے بھر سے 1390 بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات سامنے آئے۔
ان میں 959 ایسے واقعات تھے جن میں کمسن لڑکوں کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ ضلع گوجرانوالہ میں سب سے زیادہ 220 واقعات ہوئے جن میں 158 لڑکے متاثر ہوئے۔
محکمہ داخلہ کی رپورٹ کے مطابق لگ بھگ ان تمام واقعات کے مقدمات درج ہوئے اور دوران تفتیش معلوم ہوا کہ زیادہ تر تین قسم کے ملزمان کمسن بچوں کے خلاف جنسی تشدد میں ملوث پائے گئے: رشتہ دار، ہمسائے اور اجنبی۔
یہ رپورٹ کہتی ہے کہ تقریباً 700 سے زیادہ واقعات میں ملزمان چالان ہو کر عدالتوں میں پہنچے ہیں اور یہ معلوم ہوا ہے کہ 55 فیصد سے زیادہ واقعات میں بچوں کے ’ہمسائے‘ اور 13 فیصد سے زیادہ میں ان کے ’رشتہ دار‘ ملوث ہیں۔
چار سو سے زیادہ مقدمات میں تاحال تحقیقات مکمل نہیں ہو پائیں جبکہ 148 مقدمات ختم کر دیے گئے۔ یہ وہ مقدمات ہیں جن میں متاثرہ بچوں کے لواحقین اور ملزمان میں معاملات طے پا جاتے ہیں اور وہ اپنی شکایات واپس لے لیتے ہیں۔
محکمہ داخلہ نے ایسے واقعات کی روک تھام کے حوالے سے چند سفارشات بھی اس رپورٹ کا حصہ بنائی ہیں جن میں مختلف اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے اور اداروں کے درمیان زیادہ ہم آہنگی پیدا کرنے کا کہا گیا۔
ساتھ ہی ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ پولیس گمشدہ یا اغوا ہونے والے بچوں کا ڈیٹا بیس یا ریکارڈ رکھے تاکہ اس کا جائزہ لیا جا سکے اور پالیسی ترتیب دینے میں مدد ملے۔
سیکس آفینڈرز کی رجسٹری کا نظام کیا ہے؟
دنیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں ڈیٹا بیس یا ریکارڈ کی مدد سے بھی بچوں کے خلاف جنسی جرائم کی روک تھام کی جاتی ہے۔ تاہم یہ ریکارڈ بچوں کا نہیں بلکہ ایسے افراد کا ہوتا ہے جو ایسے واقعات میں ملوث پائے جاتے ہیں۔
ان افراد کو باقاعدہ ’سیکس آفینڈرز‘ کے طور پر رجسٹر کیا جاتا ہے۔ پھر جس علاقے میں یہ سیکس آفینڈرز رہائش رکھتے ہیں وہاں لوگ اس رجسٹری کی مدد سے ان کی موجودگی سے آگاہ رہ سکتے ہیں۔
یوں قانونی کارروائی کے خوف کے ساتھ ساتھ ’سیکس آفینڈرز‘ کے ڈیٹا بیس میں شامل ہونے کا خوف بھی جنسی جرائم کی روک تھام میں مدد دیتا ہے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام کا استعمال ہر قسم کی غلطی سے پاک ہو تاکہ کوئی معصوم شخص اس کا نشانہ نہ بن جائے۔
سیکس آفینڈرز رجسٹری کا نظام خاص طور پر ایسے واقعات کی روک تھام میں مدد دے سکتا ہے، جس میں ہمسائے ملوث پائے جاتے ہیں جیسا کہ صوبہ پنجاب میں حال ہی میں دیکھا گیا ہے کہ 55 فیصد سے بچوں کے خلاف ریپ کے واقعات میں ہمسائے ملوث ہیں۔
پنجاب میں ریکارڈ یا ڈیٹا بیس کا نظام تو موجود ہے تاہم اس کا استعمال ’سیکس آفینڈرز رجسٹری‘ کے لیے نہیں کیا جا رہا۔ تاہم سوال یہ ہے کہ ایسا نظام پاکستانی معاشرے میں قائم کیا بھی جا سکتا ہے یا نہیں؟ اگر اس کے استعمال میں غلطیاں ہوں تو کیا نقصان فائدے سے بڑا ہو سکتا ہے؟
ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پاکستان میں خاص طور پر بچوں کے خلاف جنسی جرائم میں زیادہ تر کس قسم کے لوگ ملوث ہوتے ہیں اور ایسے افراد کے گرد کرمنل جسٹس سسٹم کی پکڑ کتنی مضبوط ہے۔
’میرا بیٹا تو گھر کے پاس ہی دکان تک گیا تھا‘
راولپنڈی کے شہری محمد یوسف محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ایک روز انھیں خبر ملی کہ ان کا نو برس کا بیٹا حمزہ یوسف گھر سے نکلا تھا لیکن مڑ کر واپس نہیں آیا۔ محمد یوسف علاقے کے دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر بچے کو تلاش کرتے رہے لیکن اس کی کچھ خبر نہ ملی۔
اس دوران محمد یوسف نے پولیس کو بھی بچے کی گمشدگی کی اطلاع کر دی۔ گمشدگی کے پانچویں روز پولیس نے اسی محلے میں واقع ایک گھر کی پانی کی ٹینکی سے حمزہ کی لاش برآمد کی۔
مزید تحقیقات پر معلوم ہوا کہ حمزہ کو اسی محلے میں پتنگ بیچنے والے شخص نے اغوا کر کے ریپ کا نشانہ بنایا اور پھر اس خوف سے اسے قتل کر دیا کہ بچہ اس بارے میں کسی کو بتا نہ دے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محمد یوسف کہتے ہیں کہ ہر ماں باپ اپنی اولاد کا خیال رکھتے ہیں۔ ’میرا بیٹا تو صرف گھر کے پاس ہی واقع دکان تک گیا تھا وہاں سے اس کو اغوا کر لیا گیا۔ یہاں ماں باپ کیا کر سکتے ہیں۔‘
پولیس کے مطابق بچوں کے خلاف جنسی جرائم کے واقعات میں زیادہ تر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ان کے اغوا سے پہلے ان کی نگرانی ہو رہی ہوتی ہے اور زیادہ تر انھیں ریپ سے پہلے اغوا کیا جاتا ہے۔
’یہ مجرمانہ ذہنیت کے لوگ یا پیڈوفائلز ہوتے ہیں‘
لاہور پولیس کے انویسٹیگیشن کے ڈیپارٹمنٹ کی سینیئر سپڑنٹنڈنٹ آف پولیس ڈاکٹر انوش مسعود نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات میں زیادہ تر ہوتا یہی کہ بچوں کو پہلے اغوا کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر انوش مسعود کہتی ہیں بچوں کو اغوا کرنے والے پہلے ان کے گھر سے باہر نکلنے کے اوقات اور عادات کا مشاہدہ کرتے ہیں اور پھر مختلف طریقوں سے ان کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
’زیادہ تر دیکھا یہ گیا ہے کہ ایسے جرائم میں ملوث افراد پیڈوفائلز ہوتے ہیں یا ایسے سیکس آفینڈرز ہوتے ہیں جو ایک سے زیادہ مرتبہ اس نوعیت کے جرائم کر چکے ہوتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ بچے کیونکہ اچھے برے کی زیادہ سمجھ بوجھ نہیں رکھتے اس لیے وہ آسانی سے اس کا نشانہ بن جاتے ہیں۔
انوش کا کہنا ہے کہ پولیس کے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ زیادہ تر اس نوعیت کے واقعات میں بچوں کا کوئی قریبی یا جان پہچان والا شخص ملوث ہوتا ہے۔
پکڑے جانے کے بعد ایسے لوگ جیل سے باہر کیسے آ جاتے ہیں؟
پاکستان میں حالیہ دنوں میں بچوں کے خلاف جنسی تشدد اور استحصال جیسے واقعات میں اضافے کے بعد کئی قوانین بنائے گئے ہیں اور پہلے سے لاگو قوانین میں تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایسے جرائم میں ملوث افراد کے لیے سخت سزائیں رکھی گئی ہیں۔
تاہم مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر واقعات میں پولیس ایسے افراد کو عدالتوں سے سزائیں نہیں دلوا پاتی۔ اس کے بعد وہ کچھ عرصہ جیل میں گزارنے کے بعد رہا ہو کر باہر آ جاتے ہیں۔ یوں ایک ایسا شخص جو جنسی طور پر بچوں کی طرف مائل ہو یا پیڈوفائل ہو وہ اپنا علاقہ تبدیل کر کے دوبارہ بچوں کے درمیان رہ رہا ہوتا ہے۔
ایس ایس پی انویسٹیگیشن لاہور ڈاکٹر انوش مسعود کہتی ہیں کہ ملزمان کو سزائیں دلوانے میں پولیس کو چند مسائل کا سامنا ہوتا ہے جن کا تعلق معاشرتی رویوں سے ہے۔
’معاشرتی دباؤ یا بدنامی کے خوف سے بہت سے لوگ متاثرہ بچوں کا میڈیکل نہیں کرواتے یا ڈی این اے ٹیسٹ نہیں کروایا جاتا اور جب تک یہ ہوتا ہے اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے پولیس کو عدالت میں جرم ثابت کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں۔‘
وہ سمجھتی ہیں کہ لوگوں کو یہ آگاہی دینے کی ضرورت ہے کہ ایسی نوعیت کے واقعات میں میڈیکل ٹیسٹ ایک انتہائی ضروری ثبوت ہے جسے ضائع نہیں ہونا چاہیے۔
جیل سے باہر آنے پر کیا مجرمان کو کوئی خوف ہوتا ہے؟
بچوں کے ساتھ جنسی استحصال جیسے واقعات میں جہاں بچے کو قتل نہیں کیا گیا وہاں زیادہ تر واقعات میں مجرمان جلدی جیل سے باہر آ جاتے ہیں۔
زیادہ تر افراد دوبارہ اسی نوعیت کے کسی واقعے میں ملوث پائے جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں ماہرین کے خیال میں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جیل اور قانونی کارروائی کا سامنا کرنے اور جیل سے باہر آ جانے کے بعد پیڈوفائلز یا اس طرح کی ذہنیت کے افراد کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور انھیں خوف نہیں رہتا۔
برطانیہ میں سنہ 2008 میں ایک نظام لایا گیا جسے ’دی چائلڈ سیکس آفینڈر ڈسکلوژر سکیم‘ کہا گیا۔ اس میں ایسے سیکس آفینڈرز کو رجسٹر کر کے ان کا ڈیٹا بیس بنایا گیا۔
والدین ایسے تمام افراد کے حوالے سے پولیس سے اس ڈیٹابیس کی مدد سے ہر ایسے شخص کے بارے میں معلومات لے سکتے ہیں جس تک ان کے بچوں کی رسائی ہونا ہو۔ اس طرح انھیں یہ علم ہو جاتا ہے کہ آیا وہ شخص ماضی میں بچوں کے استحصال جیسے الزامات کا سامنا تو نہیں کر چکا۔
ماہرین کے مطابق اس طرح کا نظام بذاتِ خود ایک ’ڈیٹرنٹ‘ یا خوف کے طور پر کام کرتا ہے جو لوگوں کو اس نوعیت کے جرم کا مرتکب ہونے سے باز رکھتا ہے۔
کیا پاکستان میں ایسا نظام بنایا جا سکتا ہے؟
بچوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ساحل کی چیف ایگزیکیوٹو ڈاکٹر منیزہ بانو کہتی ہیں کہ پاکستان میں نہ صرف ایسا کیا جا سکتا ہے بلکہ بہت مفید بھی ثابت ہو گا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس قسم کے نظام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ہر وہ جگہ جہاں بچے ہیں وہاں کام کرنے والے افراد کے بارے میں پیشگی معلومات میسر ہوں گی۔
’مثال کے طور پر سکول ہے یا کوئی نرسری ہے تو وہاں کسی کو ملازمت دینے سے قبل یہ دیکھا جا سکے گا کہ اس شخص کا کوئی ایسا مجرمانہ ریکارڈ تو موجود نہیں۔‘
ڈاکٹر منیزہ بانو کہتی ہیں کہ ممکنہ طور پر پیڈوفائلز کو بچوں کے قریب آنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ اس طرح ایسے کسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ وہ ایک جگہ سزا کاٹنے کے بعد یا رہا ہو جانے کے بعد کسی دوسری جگہ جا کر دوبارہ کسی بچے کو ریپ کا نشانہ بنانے کی کوشش کرے۔
پنجاب میں موجودہ نظام کیا ہے؟
لاہور پولیس کی ایس ایس پی انویسٹیگیشن ڈاکٹر انوش مسعود نے بی بی سی کو بتایا کہ پنجاب میں جرائم پیشہ افراد کا ریکارڈ رکھنے کا ایک نظام موجود ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہماری ایک سی آر او برانچ جہاں تمام جرائم پیشہ افراد کے فنگر پرنٹس لے لیے جاتے ہیں اور ان تمام تر ریکارڈ رکھا جاتا ہے جس میں ان کی رہائش کی معلومات اور تصویر وغیرہ بھی شامل ہیں۔‘
تاہم یہ ریکارڈ پولیس کے پاس موجود ہے اور زیادہ تر اس وقت کام آتا ہے جب جرم ہو چکا ہوتا ہے اور ملوث افراد کو پکڑنے کی کوشش کی جا رہی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر انوش مسعود کہتی ہیں کہ اب پنجاب پولیس اس پہلو پر بھی کام کر رہی ہے کہ اس ریکارڈ کو جرائم کی روک تھام یعنی پریوینشن کے لیے بھی استعمال کیا جا سکے۔
’ہم اس پر کام کر رہے ہیں کہ یہ سی آر او کا ریکارڈ اس طرح استعمال کیا جائے کہ اگر کوئی سزا سے بچ کر نکل جاتا ہے اور وہ کسی دوسری جگہ پر جا کر رہتا ہے تو وہاں کے لوگوں کو خبردار کیا جا سکے فلاں شخص اس قسم کے جرائم میں ملوث رہا ہے۔‘
لیکن اگر غلط شخص اس لسٹ میں آ جائے تو؟
سیکس آفینڈر رجسٹری جیسے نظام کو لاگو کرنے میں یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں کرمنل جسٹس سسٹم کے مؤثر ہونے کے حوالے سے خدشات ہیں وہاں اگر کسی غلط شخص کو اس لسٹ پر ڈال دیا گیا تو اس کے نتائج ان کی زندگی پر کیا ہوں گے۔
مثال کے طور پر اگر بے گناہ یا معصوم شخص غلطی سے اس لسٹ میں شامل کر دیا جاتا ہے تو اس کے لیے نہ صرف معاشرے رہنا محال ہو گا، اسے ملازمت ملنا بھی مشکل ہو جائے گا۔
ساحل کی چیف ایگزیکیوٹو ڈاکٹر منیزہ بانو سمجھتی ہیں کہ کچھ بہت ہی کم واقعات میں ایسا ہونا ممکن ہو سکتا ہے تاہم اس قسم کی رجسٹری کا نظام بنایا جانا زیادہ ضروری ہے۔
’کہیں اکا دکا ایسا ہو سکتا ہے کہ غلطی سے کسی ایسے شخص کا نام اس میں آ جائے ورنہ زیادہ تر ایسا نہیں ہو گا۔ وہی لوگ اس میں شامل ہوں گے جن کے خلاف جرم ثابت ہو چکا ہو گا۔ اور یہ ایک قومی ذمہ داری ہو گی اس لیے اس میں غلطی کی گنجائش نہیں ہو گی۔‘
وہ کہتی ہیں اس قسم کے نظام کے فوائد زیادہ ہیں اور اس کے ہونے سے بچوں کی جنسی استحصال جیسے جرائم سے حفاظت میں بہت مدد مل سکتی ہے۔