اہم خبریں

سیریئل کلر بہنیں، جنھیں چھ بچوں کے قتل میں سزائے موت تو ہوئی مگر پھر بھی وہ بچ گئیں

انتباہ: اس کہانی میں کچھ چیزیں قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں

یہ جرم 35 سال پہلے ہوا تھا۔ 25 سال تک مقدمے کی سماعت ہوئی۔ آخری فیصلہ گذشتہ برس سنایا گیا تھا۔

یہ دل دہلا دینے والا جرم انڈیا کی ریاست مہاراشٹرا میں پیش آیا۔

حکومت کی جانب سے تاخیر اور غیر ضروری طریقہ کار کی وجہ سے اس جرم میں ملوث سیریل کلرز کے لیے سپریم کورٹ کی طرف سے منظور کی گئی سزائے موت پر کبھی عملدرآمد نہیں ہو سکا۔

یہ تین خواتین پر مبنی ایک ایسی خوفناک کہانی ہے، جو مہاراشٹرا میں سب سے سفاک سیریل کلر بن گئیں۔ وہ بچوں کو اغوا کرتی تھیں اور چوری کرنے کے لیے بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتی تھیں۔

ان تین خواتین پر 42 بچوں کے اغوا اور پھر ان میں سے زیادہ تر کو قتل کر دینے کا الزم تھا۔

یہ اغوا اور قتل کا سلسلہ چھ برس تک جاری رہا۔ اس سنگین جرم کی جڑ تک پہنچنے میں تفتیش کاروں کو کئی برس لگ گئے۔

بالآخر عدالت میں یہ ثابت ہو گیا کہ 13 بچوں کو اغوا کیا گیا اور ان میں سے کم از کم چھ کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔

یہ مہاراشٹرا کی تاریخ کا سب سے طویل عدالتی مقدمہ ہے۔ ان تینوں کے خلاف فیصلہ گزشتہ سال سپریم کورٹ میں پڑھ کر سنایا گیا۔

ان قتل ہونے والے بچوں کے بارے میں معلومات بہت دیر سے منظر عام پر آئیں۔ اس کے بعد یہ مقدمہ کافی دیر تک چلتا رہا۔

حتمی فیصلے کے بعد مجرموں کی پھانسی میں بھی تاخیر ہوئی، جس کے بعد سپریم کورٹ کو سزائے موت کو منسوخ کرنا پڑا کیونکہ صدر نے رحم کی درخواست مسترد کرنے میں پانچ سال تک تاخیر کی۔

یہ سیریل کلر بہنیں کون ہیں؟

یہ سب قصہ کچھ بچوں کی گمشدگی سے شروع ہوا۔ سنہ 1990 اور سنہ 1996 کے درمیان لاپتہ کیے گئے ان بچوں کا تعلق مغربی مہاراشٹرا، پُونے، ناسک اور ممبئی کے قریب کولہاپور جیسے شہروں سے تھا۔

اس عرصے کے دوران یہ بات منظر عام پر آئی کہ 42 بچوں کے اغوا کی ذمہ دار صرف تین خواتین تھیں۔ انجنا بائی، ان کی بیٹی سیما اور انھی کی دوسری شادی شدہ بیٹی رینوکا شندے نے 90 کی دہائی کے اوائل میں پونے کے گنج نگر کی شہری کچی آبادی میں ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر لیا۔

انھوں نے مزدوری کے علاوہ مقامی سطح پر چوری چکاری کو اپنا ذریعہ روزگار بنا لیا۔ اس وقت رینوکا کے شوہر کرن شندے پونے میں درزی کا کام کرتے تھے۔

ایک ’محفوظ‘ چوری جو اپنے بیٹے سے شروع ہوئی

سیما، رینوکا اور ان کی ماں انجنا بائی بھیڑ والی جگہوں، بازاروں اور میلوں میں خواتین کے پرس، زیورات اور مردوں کے بٹوے چوری کرتی تھیں۔

سنہ 1990 میں ایک بار رینوکا نے ایک بھیڑ والی جگہ پر ایک خاتون کا پرس چھین لیا لیکن وہاں کے لوگوں نے انھیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ اس وقت ان کا دو برس کا بیٹا ان کے ساتھ تھا۔ جب لوگوں نے انھیں پکڑ لیا تو رینوکا اپنے بچے کو کچھ دور لے گئیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میں نے کبھی چوری نہیں کی۔ یہ میرا بچہ ہے۔ میں کیسے چوری کر سکتی ہوں؟ انھوں رو دھو کر خود کو بھیڑ سے بچا لیا۔¬

انھوں نے یہ کہانی اپنی ماں اور بہن کو سنائی۔ یہ سن کر وہ تینوں خوش ہوئیں کہ انھوں نے چوری کرنے کا ایک نیا اور قدرے ’محفوظ‘ طریقہ ڈھونڈ نکالا لیا۔

چوری کے لیے اغوا کی تکنیک

اس کے بعد انھوں نے بہت سے بچوں کو اغوا کرنا شروع کیا جس میں سٹریٹ چلڈرن، بھکاریوں کے بچے اور دیگر بے سہارا بچے شامل تھے۔ ان تینوں نے پھر ان بچوں کو مختلف شہروں میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔ مندروں کے تہواروں اور ایسی جگہوں پر جہاں لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں، وہ بچوں کو چوری کے لیے استعمال کرتی تھیں۔

بچے والی عورت پر کوئی یہ شک نہیں کرتا کہ وہ چور ہو سکتی ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انجنا بائی اور ان کی دو بیٹیوں نے چوری کو اپنا کاروبار بنا لیا۔

بعد میں تفتیش سے پتا چلا کہ وہ پونے، ممبئی، ناسک اور کولہاپور جیسے کئی شہروں میں اسی طرح کی چوری میں ملوث تھیں۔

پہلا بچہ جو رونے کی وجہ سے قتل ہوا

ایک بار انجنا بائی اپنی بیٹیوں کے ساتھ چوری کرنے گئیں۔ پھر وہ ایک آدمی کے ڈیڑھ برس کے بچے کو بھی ساتھ لے آئیں۔

بعد میں جب وہ اس بچے کے ساتھ چوری کرنے گئیں تو عوام نے سیما کو زیورات چوری کرتے ہوئے پکڑ لیا۔ بھیڑ میں موجود خواتین نے سیما کو پیٹنا شروع کر دیا۔ انجنا بائی، جو ایک بچے کو اپنی بانہوں میں پکڑے ہوئے تھیں، نے بھیڑ کی توجہ ہٹانے کے لیے بچے کو دور زمین پر پھینک دیا۔

تکلیف سے بچہ زور زور سے رونے لگا۔ اس کے بعد سیما نے روتے ہوئے بھیڑ کے سامنے قسم کھائی کہ انھوں نے کوئی چوری نہیں کی۔

اس کے بعد انھوں نے وہاں مجمعے سے معافی مانگنے کی التجا کی۔ جس پر ہجوم نے انھیں پولیس کے حوالے کرنے کی کوشش کی لیکن پھر لوگوں نے انھیں وہاں سے چلے جانے کی اجازت دے دی۔

بعد میں یہ تینوں خواتین گاؤں چھوڑنے کے لیے بس سٹاپ پر پہنچیں لیکن بچہ درد سے رو رہا تھا۔ انھیں اب بچے کے زخموں کی کوئی فکر نہیں تھی کیونکہ وہ اس علاقے سے فرار ہونے کی جلدی میں تھیں۔

اب بچے کو زخمی حالت میں لے جانا بھی خطرناک تھا۔ وہ مسلسل رو رہا تھا۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ لڑکے کی حالت پریشانی پیدا کرے گی، انجنا بائی نے بچے کا سر زور سے بجلی کے کھمبے سے دے مارا۔

سر پر ایک اور زوردار چوٹ لگنے سے بچہ مر گیا۔ پھر انھوں نے لاش کو وہیں دفن کر دیا اور تینوں فرار ہو گئیں۔

ڈیڑھ سالہ بچے کو بہت ’آسانی‘ سے قتل کرنے کے بعد تینوں وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئیں۔ اس کے بعد انھوں نے ایک نیا منصوبہ تیار کیا۔

چوری میں استعمال ہونے والے بچوں کو معمول کے مطابق اس طرح بے رحمی سے مقصد پورا ہو جانے کے بعد مار دیا جاتا۔

تینوں خواتین جب بھی عوام کے گھیرے میں آ جاتیں تو وہ بچوں کو گالی دینا اور برا بھلا کہنا شروع کر دیتیں۔

رینوکا اور سیما اپنے جیسے غریب گھرانوں کے بچوں کی جاسوسی کرتی تھیں اور انھیں اغوا کرتی تھیں۔

ان کا ہدف شہر کی کچی آبادیوں میں گھومتے بے بس بچے تھے کیونکہ کئی بار تو پولیس کو بھی ان علاقوں میں بچوں کے گم ہونے کی کوئی شکایت موصول نہیں ہوتی تھی۔ گمشدگی کی اطلاع دینے کے باوجود کوئی بھی پولیس کے ساتھ بچے کی تلاش جاری رکھنے کی پرواہ نہیں کرتا۔

ظلم کی انتہا

رینوکا، سیما اور انجنا بائی پر الزام تھا کہ انھوں نے ایک ساتھ 42 بچوں کو اغوا کیا۔ شکوک و شبہات بھی پیدا ہوئے کہ ان میں سے اکثر کو انھوں نے ہی مارا ہوگا۔

پولیس ناکافی شواہد کی وجہ سے مقدمہ نہ چلا سکی تاہم پولیس کی جانب سے چلائے جانے والے مقدمات میں صرف 13 بچوں کے اغوا اور کم از کم چھ کا قتل ہی عدالت میں ثابت ہو سکا۔

اغوا ہونے والے زیادہ تر بچے بہت کم عمر تھے۔ پولیس قتل کا سامان برآمد نہیں کر سکی کیونکہ انھیں بغیر کسی ہتھیار کے قتل کیا جاتا۔

الزامات کی تائید کے لیے کوئی ثبوت نہیں ملا۔ زیادہ تر بچوں کو زمین سے ٹکرانے، بجلی کے کھمبے سے سر ٹکرا کر، گلا دبانے اور ناک اور منھ دبانے سمیت وحشیانہ کارروائیوں کے ذریعے قتل کیا گیا۔

ایک بچے کو روند کر ہلاک کرنے کی افواہیں بھی عام تھیں لیکن یہ ثابت نہیں ہو سکا کیونکہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی کئی بچوں کی لاشیں نہیں مل سکیں۔

خوفناک جرائم کو سلسلہ وار قتل کے طور پر پیش کیا گیا

کولہا پور سے کچھ بچوں کے لاپتہ ہونے کے سلسلے میں انجنا بائی اور ان کی دونوں بیٹیوں سے پوچھ گچھ کی گئی۔

رینوکا کے شوہر کرن شندے کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ دوران تفتیش رینوکا اور ان کے شوہر نے کئی جرائم کا اعتراف کیا۔ ان جرائم میں بچوں کے بہیمانہ قتل کی تفصیلات سامنے آنے لگیں۔

لیکن چھ سال کے دوران ہونے والے تمام جرائم کو ایک ساتھ دیکھ کر کیس کو مضبوط کرنے کے لیے ثبوت اکٹھا کرنا اتنا آسان کام نہیں تھا۔

اس بیان کے علاوہ عدالت میں پیش کرنے کے لیے پولیس کے پاس کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں تھے۔

ہندوستان ٹائمز سے بات کرتے ہوئے اس وقت کے پولیس افسر سوہاس ناتھ گوڑا نے کہا کہ ’متعدد اضلاع کی پولیس ٹیموں نے قتل کے سلسلے میں مل کر کام کرنا شروع کیا۔ کریمنل انویسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ نے تفتیش کی اور کولہا پور سیشن کورٹ میں مقدمہ درج کیا۔

رینوکا کے شوہر وعدہ معاف گواہ بن گئے

رینوکا اور سیما نے جج کو جرائم سے متعلق جھوٹے بیانات دیے۔ انھوں نے جج کو بتایا کہ پولیس نے ان پر جھوٹا الزام لگایا۔ انھوں نے یہ بھی دلیل دی کہ بچوں کا قتل نہیں ہوا اور وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتیں۔

آخر کار رینوکا کے شوہر، کرن شندے، جو بہت سے جرائم میں ان کے ساتھی تھے، اپنے آپ کو مزید نہ روک سکے اور وعدہ معاف گواہ بن گئے۔

عدالت اور عوام نے کرن شندے کی گواہی سے ان چاروں کے ذریعے کیے گئے وحشیانہ قتل کے بارے میں تفصیلات سنیں۔ انھوں نے عدالت کے سامنے جو حقائق رکھے اور ان تین خواتین سے متعلق جن حقائق سے پردہ اُٹھایا اُنھوں نے ریاست مہاراشٹرا کو ہلا کر رکھ دیا۔

مقدمے کے اختتام پر رینوکا شندے اور سیما کویت کو سزائےِ موت سنا دی گئی کیونکہ ان کے جرائم انتہائی سفاکانہ تھے اور ان کی مثال نہیں ملتی۔ یہ کیس پہلی بار سنہ 1996 میں سامنے آیا تھا۔ اس کے بعد دونوں بہنوں، انجنا بائی اور کرن شندے کو گرفتار کر لیا گیا۔

لیکن عدالت میں کیس کی سماعت ہونے سے پہلے ہی انجنا بائی کی پولیس حراست میں موت ہو گئی۔ جس کی وجہ سے رینوکا اور سیما کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش جاری رکھی گئیں۔ کرن شندے کو وعدہ معاف گواہ بننے کی وجہ سے رہائی مل گئی۔

مقدمے میں وکلا کا کہنا ہے کہ اگرچہ پولیس نے عینی شاہدین اور دیگر شواہد کی کمی کی وجہ سے ملزمان کو پکڑ لیا لیکن مقدمے کی سماعت کے دوران پولیس کو کافی محنت کرنا پڑی۔ اس معاملے میں ماتحت عدالت میں 156 گواہوں پر جرح کی گئی۔

گاؤں کی ان بہنوں کے ہاتھوں اغوا یا قتل کیے گئے کچھ بچوں کے والدین کے سامنے جب یہ معاملہ پہلی بار آیا تو وہ با قاعدگی سے عدالت میں پیش ہوئے۔ انھوں نے جج کے سامنے بیانات بھی ریکارڈ کرائے۔

وکیل مانک ملک نے ہندوستان ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا ’چونکہ یہ کیس بہت پیچیدہ اور تاخیر کا شکار ہوگیا تھا، وہ مقدمے کی سماعت کے لیے آگے نہیں آئے۔‘

ایڈوکیٹ مانک ملک نے ماتحت عدالت میں ان بہنوں کی طرف سے دلائل پیش کیے۔

ان سیریل کلر بہنوں کا شکار ہونے والے زیادہ تر بچوں کا تعلق انتہائی غریب گھرانوں سے تھا۔ اس لیے ان کی طرف سے نہ تو کوئی مقدمہ کرنے والا تھا اور نہ ہی ان بچوں کے والدین کے پاس اتنے پیسے تھے کہ وہ اپنے بچوں کے قاتلوں کو انجام تک پہنچا سکتے۔

تحقیقات کے دوران عوام میں کافی غصہ تھا

روزنامہ پٹھاری کے سینیئر صحافی مہیش کرلیکر کولہاپور ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ میں مقدمے کی کوریج کر رہے تھے۔

انھوں نے یاد دلایا کہ ان تینوں کے خلاف لوگوں میں کافی غصہ پایا جاتا تھا، جنھوں نے ان معصوم بچوں کو بے دردی اور ظالمانہ طریقے سے قتل کیا۔

اس قتل عام میں معصوم بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس سے لوگوں میں خاص طور پر خواتین میں بے پناہ غصہ پایا جاتا تھا، جس کے اظہار کے لیے وہ عدالت تک پہنچیں۔

مہیش کرلیکر نے بی بی سی مراٹھی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ تین خواتین جنھوں نے گھناؤنا قتل کیا تھا کو پولیس نے بروقت گرفتار کر لیا تھا جو پرتشدد موڈ میں تھیں۔ ہمیں یہ نوٹ کرنا چاہیے کہ ان تمام خواتین کا قتل ہونے والے بچوں سے کوئی تعلق نہیں۔‘

صحافی ادے کلکرنی نے کہا کہ جب یہ کیس چل رہا تھا تو ان مجرموں کے چہروں پر کوئی پشیمانی نہیں تھی جو ٹرائل کے لیے عدالت آئے تھے۔

28 جون 2001 کو کولہا پور کی سیشن کورٹ نے رینوکا اور سیما کو 13 نابالغوں کو اغوا کرنے اور ان میں سے کم از کم چھ کو قتل کرنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی۔

اگلے پانچ برس کے دوران بمبئی ہائی کورٹ نے سزائے موت کو برقرار رکھا لیکن فیصلے میں کہا گیا کہ چھ کے بجائے صرف پانچ بچوں کو قتل کرنے کا الزام ثابت ہوا۔

سپریم کورٹ نے سنہ 2006 میں ہائیکورٹ کے سزائے موت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ پھر حسب معمول ان دونوں بہنوں نے رحم کی درخواستیں بھیجیں لیکن صدر نے فیصلہ کرنے میں وقت لیا اور پھر سنہ 2014 میں اس وقت کے صدر پرناب مکھرجی نے رحم کی درخواست مسترد کر دی اور پھانسی کی تصدیق کر دی گئی لیکن رحم کی درخواست پر غور کرنے میں پانچ سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔

اس تاخیر کی وجہ سے ان بہنوں کی جانب سے درخواست دائر کی گئی کہ پھانسی کو اب منسوخ کر دیا جائے۔ 20 جنوری 2022 کو سزائے موت کو کالعدم قرار دے کر انھیں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔

یہ بہنیں اب پونے کی یرواڈا جیل میں اپنی باقی زندگی گزار رہی ہیں۔ اب رینوکا کی عمر 49 اور سیما کی عمر 44 سال ہے۔

سرکاری فائلوں کی سست رفتاری سے لے کر ’ریڈ ٹیپ‘ تک کے طریقہ کار تک، کیس میں دیر سے فیصلے کی مختلف وجوہات بتائی گئی ہیں۔

سیما کویت نے 10 اکتوبر 2008 کو اور رینوکا نے 17 اکتوبر 2009 کو رحم کی درخواست دائر کی تھی۔

پرناب مکھرجی کی جانب سے اسے مسترد کرنے کے بعد سنہ 2014 میں انھوں نے غیر ضروری تاخیر کا حوالہ دیتے ہوئے موت کی سزا کو منسوخ کرنے کی اپیل دائر کی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ چونکہ سات سال، دس ماہ اور 15 دن کی تاخیر کی کوئی واضح وجہ نہیں، اس لیے ان کی سزائے موت کو ایک طرف رکھا جاتا ہے اور عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے‘۔

ایسی رحم کی درخواستوں پر تین ماہ کے اندر فیصلہ متوقع ہوتا ہے لیکن عدالت نے نوٹ کیا کہ رحم کی درخواست پر فیصلہ بھی حکومتی حکام کی غفلت کی وجہ سے غیر ضروری طور پر تاخیر کا شکار ہوا۔

ریاستی اور مرکزی حکومت کے افسران نے ایک دوسرے پر الزام تراشی کی لیکن مرکزی حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے حلف نامے میں ممبئی کے سرکاری دفتر میں آگ لگنے کے واقعے کا ذکر بھی شامل ہے۔

اس میں کہا گیا کہ رحم کی درخواست کے دستاویزات آگ میں جل گئی تھیں اور ریاستی حکومت نے تازہ دستاویزات تیار کرنے میں اضافی وقت لیا۔