پاکستان میں جمعرات کی صبح سے تو تمام قومی خبریں تقریباً معمول کے مطابق ہی چل رہی تھیں تاہم دوپہر کے وقت تمام ٹی وی چینلز پرعام انتخابات کے جنوری کے آخری ہفتے میں انعقاد کی بریکنگ نیوز فلیش کرنے لگی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے 21 ستمبر کو جاری کیے گئے چار سطروں پر مشتمل مختصر اعلامیے کے ذریعے اعلان کیا گیا کہ ملک میں عام انتخابات جنوری 2024 کے آخری ہفتے میں کروا دیے جائیں گے۔
الیکشن کمیشن کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ’آج الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کے کام کا جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کہ حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست 27 ستمبر 2023 کو شائع کر دی جائے گی۔‘
اعلامیے کے مطابق ’ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات و تجاویز کی سماعت کے بعد حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست 30 نومبر کو شائع کی جائے گی اور اس کے 54 دن کے الیکشن پروگرام کے بعد انتخابات جنوری 2024 کے آخری ہفتے میں کروا دیے جائیں گے۔‘
اس خبر کا سامنے آنا تھا کہ ٹی وی سکرینز اور سوشل میڈیا پر الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے تبصروں اور بحث کا سلسلہ شروع ہو گیا اور یوں الیکشن ہونے، نہ ہونے اور کب ہونے جیسے کئی ماہ سے گردش کرتے سوالات اور ان سے جڑے وسوسوں میں بدلاؤ کی جھلک دکھائی دی۔
الیکشن کمیشن کے اعلان کے ساتھ جہاں نگران حکومت کی مدت کو غیر معمولی طول دینے جیسی افواہوں کا خاتمہ ہوا وہیں یہ بحث چھڑ گئی کہ آیا الیکشن کمیشن کا یہ اعلان آئین سے مطابقت بھی رکھتا ہے کہ نہیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جنوری میں انتخابات کے انعقاد کے اعلان پر پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کو کتنی امید ملی ہے اور کیا اس سے ملک میں موجود سیاسی عدم استحکام میں بھی کمی آ سکے گی؟ بی بی سی نے انہی سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے لیے چند سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور تجزیہ کاروں سے بات کی ہے۔
پاکستان میں نو اگست 2023 کو قومی اسمبلی اور اس کے بعد سندھ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوئیں تو سب کو انتظار تھا کہ اب الیکشن کی تاریخ کا اعلان کب لیا جائے گا ۔ یہ ابہام بھی موجود رہا کہ آیا نگران حکومت کا دائرہ اختیار اس لیے تو نہیں بڑھایا گیا کہ اس کی مدت پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کی طرح لا متناہی طول پکڑ لے گی۔
تو کیا الیکشن کمیشن کا اعلان سیاسی جماعتوں کے لیے امید کی کرن ہے؟ اور کیا اس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام میں کچھ قرار آنے کی امید ہے؟
اس سوال کے جواب میں پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر احسن اقبال نے بی بی سی گفتگو میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا یہ اعلان نہایت خوش آئند ہے کیونکہ اس سے بعض حلقے جو ملک میں بد گمانی اور غیر یقینی پھیلا رہے تھے، اسے ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
’2018 میں تمام سیاسی جماعتوں نے فیصلہ کیا تھا کہ اگلا الیکشن نئی مردم شماری پر ہو گا لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے 2022 تک مردم شماری کروانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔‘
احسن اقبال کے مطابق ’الیکشن کمیشن نے متعدد بار پی ٹی آئی کی حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ اگلے انتخابات کے لیے نئی مردم شماری کروانا ضروری ہے اور پھر اس پر عمل نہ کرنے سے تنازع پیدا ہوا کہ الیکشن 90 دن میں ہو گا یا چار ماہ میں ہو گا۔‘
احسن اقبال کے مطابق ’جب اپریل 2022 میں ہماری حکومت آئی تو ہم نے مردم شماری کا عمل شروع کیا جس کے بعد نئی مردم شماری اگست 2023 میں نوٹیفائی ہوئی تو الیکشن کمیشن نے آئین و قانون کے تحت حلقہ بندیاں کیں۔ اگر ایسا نہ کرتا تو ون مین ون ووٹ کا اصول پامال ہوتا۔ کچھ اضلاع کی نمائندگی زیادہ ہوتی اور کچھ کی کم۔‘
انتخابات کے اعلان کا مطالبہ تو سیاسی جماعتوں کی جانب سے بارہا کیا جاتا رہا ہے تاہم بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے ماہ کا اعلان کرنے کو پھر تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے۔
اس سوال کے جواب میں سابق وفاقی وزیر قانون اورتحریک انصاف کے دور حکومت میں عمران خان کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ الیکشن کمیشن آئین کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ توہین عدالت کا مرتکب بھی ہوا ہے۔
’سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی عدالت میں الیکشن کمیشن نے یقین دہانی کروائی تھی کہ انھیں انتخابات کروانے کے لیے چار ماہ کا وقت درکار ہے تاکہ انتخابات کی تیاری کی جا سکے۔ تو اب ایک طرف غداری ہے تو دوسری طرف الیکشن کمیشن توہین عدالت کا مرتکب بھی ہوا ہے۔‘
بابر اعوان نے دعویٰ کیا کہ ’قومی اسمبلی کیونکہ اپنے وقت سے پہلے تحلیل کی گئی تو آئین کے مطابق صدر نے اپنے اختیارات کے تحت نومبر میں انتخابات کا اعلان کیا۔ الیکشن کمیشن نے جنوری میں انتخابات کا اعلان کیا ہے، یہ ماروائے آئین ہے اور اس پر آرٹیکل چھ لگ سکتا ہے۔ یہ بہت سنگین قدم ہے کہ آئین کو اپنی طرف سے اس طرح توڑ مروڑ دیا جائے۔‘
بابر اعوان کے مطابق ’آئین میں صدر کے اختیارات بھی واضح ہیں جس کے لیے آرٹیکل 90 اور 91 دیکھا جا سکتا ہے جس کی انھوں (الیکشن کمیشن) نے بُری طرح نفی کی ہے۔‘
مسلم لیگ ن نے جہاں اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے وہیں پی ڈی ایم کے اتحاد میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی نے شیڈول جاری کیے جانے کے بجائے محض الیکشن کے ماہ کے اعلان پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے بی بی سی کو بتایا کہ پیپلز پارٹی کا مطالبہ تھا کہ الیکشن کمیشن الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرے اور ساتھ ہی شیڈول بھی جاری کرے۔
فیصل کریم کنڈی کے مطابق الیکشن کمیشن نے آدھا کام کیا ہے لیکن نہ ہی تاریخ دی اور نہ ہی شیڈول جاری کیا اور یہ دونوں چیزیں ابھی زیر التوا ہیں۔
ان کے مطابق ’پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے ڈیمانڈ کی تھی کہ ہمیں الیکشن کے انعقاد کی بابت بتایا جائے۔ اب الیکشن کمیشن کو جواب دینا ہو گا کہ یہ آئین کے مطابق بھی ہے کہ نہیں کیونکہ میرے خیال سے یہ آئین کے مطابق نہیں۔‘
فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ بلاول بھٹو ابھی ملک سے باہر ہیں ان کی واپسی پر کور کمیٹی کے اجلاس میں لائحہ عمل کا فیصلہ کریں گے۔
’ہم آج بھی کہتے ہیں کہ جو کچھ آئین کے مطابق ہے اس پر عمل کیا جائے۔ الیکشن کمیشن بروقت شیڈول کے اجرا نہ کرنے پر جوابدہ ہے۔ اب کور کمیٹی میں فیصلہ ہو گا کہ آیا ہم عوام میں جاتے ہیں یا کورٹ میں جاتے ہیں۔‘
دوسری جانب تحریک انصاف نے الیکشن جنوری میں ہونے کے اعلان پرالیکشن کمیشن کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات کے انعقاد کے اعلان کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
ترجمان پی ٹی آئی رؤوف حسن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کسی مقررہ تاریخ پر انتخابات منعقد کرنا ہے۔ انتخاب کے انعقاد کی تاریخ کے اعلان کی بجائے مہینے کا تقرر باعثِ حیرت ہے۔
’آئین الیکشن کمیشن کو اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز کی مدتِ مقررہ میں انتخابات کے انعقاد کا پابند بناتا ہے،الیکشن کمیشن جنوری کی کسی بھی تاریخ کا تعیّن کرے وہ آئین کی مدت سے باہر ہوگی۔‘
انھوں نے کہا کہ 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِسماعت ہے اور عدالت کے حتمی فیصلے تک 90 روز سے باہر کوئی بھی تاریخ قابل قبول نہیں۔
اس وقت جب کے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو سزا اور بیشتر قیادت کو مقدمات کا سامنا ہے ایسے میں انتخابات کے لیے ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت انتخابی مہم کیونکر کامیابی سے چلا سکے گی؟
بی بی سی کے اس سوال کے جواب میں ترجمان پی ٹی آئی نے الزام عائد کیا کہ الیکشن کمیشن صاف، شفاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات کے لیے آئین کے تحت مطلوب ماحول قائم کرنے میں بھی ناکام ہے۔
’تحریک انصاف کو بدترین ریاستی جبر کا نشانہ بنا کر انتخاب کی دوڑ سے باہر کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔‘
’لیول پلیئنگ فیلڈ کے لیے کیسز کو میرٹ پر سننا ضروری ہے‘
سیاسی جماعتوں کی جانب سے تو الیکشن کمیشن کے اعلان پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے لیکن کیا واقعی اس اعلان سے ملک میں سیاسی بے چینی کا خاتمہ ہو سکے گا؟
اس سوال کے جواب میں اینکر اور صحافی عاصمہ شیرازی نے کہا کہ یہ ضرور ہے کہ کسی حد تک الیکشن کمیشن کے اس اعلان سے سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہو گا تاہم جب تک شیڈول اور تاریخ کا اعلان نہیں ہو گا اس وقت تک یہ سیاسی بے چینی ختم نہں ہو گی۔
تو کیا موجودہ سیاسی صورتحال میں تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات لڑنے کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ ( یکساں مواقع) میسر ہو گی؟
اس سوال پر عاصمہ شیرازی نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا فی الحال ہوتا دکھائی نہیں دے رہا لیکن ایسا ہونا صروری ہے۔
’یہ درست ہے کہ عمران خان کے خلاف سنجیدہ قسم کے کیسز ہیں لیکن ان کی جماعت موجود ہے۔ اگر ان کو انتخابات لڑنے کا موقع دیا جائے گا تو پھر یقینی طور پر معاملات کنٹرول میں رہ سکتے ہیں اور لیول پلیئنگ فیلڈ کے خدشات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔‘
’سیاسی جماعتوں کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ کا امکان فی الحال بہت زیادہ نظر نہیں آ رہا تاہم آگے جا کر ہو سکتا ہے کہ یہ امکان بڑھ جائے کیونکہ میرے خیال میں پاکستان تحریک انصاف کو کسی حد تک اس کا موقع دینا ہو گا۔‘
عاصمہ شیرازی کے مطابق انتخابات لڑنے میں برابری کا موقع تب ہی مل سکتا ہے جب تحریک انصاف کے کیسز کو میرٹ پر سنا جائے۔
’اگر کیس نیب کے حوالے سے بنتے ہیں تو اس میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے تاہم جس طرح دہشت گردی کے مقدمات اور نو مئی کے تناظر میں چیزیں آگے بڑھی ہیں تو میرا خیال ہے اس میں میرٹ پر چیزیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘
’تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع دیے بغیر ظاہر ہے کہ انتخابات کا فائدہ اس طرح نہیں ہو گا کیونکہ اس صورت میں بعد میں بھی وہی ہونے کے امکان ہے جیسا کہ 2018 کے انتخابات کے بعد ہوا۔ تو اگر اس صورتحال سے بچنا ہے تو برابری کے مواقع دینا ہوں گے۔‘
دوسری جانب صحافی اور اینکر نسیم زہرہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کے بعد اب سیاسی جماعتوں کے ساتھ عوام میں بھی یقیناً یہ شک ختم ہو جائے گا کہ کسی نہ کسی طریقے سے غیر جمہوری سیٹ اپ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
’اچھی بات یہ ہو گی کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم پر فوکس کریں گی اور باقی معاملات کا انحصار اس پر ہو گا کہ نیا سیٹ اپ قائم ہو اور معاملات درست طریقے سے آگے بڑھیں۔‘
تاہم نسیم زہرہ نے اس بات پر زور دیا کہ ان سب میں یہ بہت بھی اہم ہو گا کہ انتخابی عمل کتنا صاف شفاف ہوتا ہے۔‘