اہم خبریں

سپریم کورٹ نظر ثانی ایکٹ کیا ہے اور کیا اس سے نواز شریف یا جہانگیر ترین کو فائدہ ہو سکتا ہے؟

سوموار کے دن سپریم کورٹ میں پنجاب کے انتخابات پر الیکشن کمیشن کی جانب سے نظر ثانی درخواست کی سماعت ہوئی تو عدالت میں انکشاف ہوا کہ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی منظوری سے ایک نیا قانون نافذ العمل ہو چکا ہے جس کے تحت آئین کی شق 184 تین کے تحت اپیل کا حق فراہم کر دیا گیا ہے۔

ایک جانب جہاں اٹارنی جنرل کے اس اعلان کے بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت ملتوی کر دی وہیں سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھا کہ اس نئے قانون کے سیاسی اثرات کیا ہوں گے اور آیا اس قانون سے نواز شریف اور جہانگیر ترین جیسی اہم سیاسی شخصیات کو ریلیف ملا سکتا ہے جن کو سپریم کورٹ نااہل کر چکی ہے۔

اس قانون سے قبل سپریم کورٹ کی جانب سے ازخودنوٹس کیسز پر فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق موجود نہیں تھا جبکہ نئے قانون میں اپیل پر سماعت عدالت کے لارجر بینچ کو کرنا ہو گی۔

یہ قانون ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ میں مختلف معاملات پر تناؤ موجود ہے جن میں پنجاب میں الیکشن کا انعقاد اور ازخود نوٹس اختیارات کے علاوہ آڈیو لیکس کمیشن کا معاملہ بھی شامل ہے۔

یاد رہے کہ ازخود نوٹس اختیارات میں تبدیلی کے پارلیمانی قانون کے نافذ العمل ہونے سے پہلے ہی سپریم کورٹ نے عملدرآمد روک دیا تھا جبکہ حال ہی میں حکومت کی جانب سے چیف جسٹس سے مشاورت کے بغیر آڈیو لیکس کمیشن ہر عدالتی کمیشن کی تشکیل پر بھی جسٹس عمر عطا بندیال سخت ریمارکس دے چکے ہیں۔

تحریک انصاف کے رہنماؤں کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل بیرسٹر گوہر خان کے مطابق اس امکان کو خارج نہیں کیا جا سکتا کہ پی ٹی آئی اس قانون سازی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دے۔

تاہم یہ قانون ہے کیا اور موجودہ سیاسی حالات پر اس قانون کا کیا اثر ہو گا، اس پر بات کرنے سے قبل یہ جانتے ہیں کہ سوموار کے دن عدالت میں کیا ہوا؟