اہم خبریں

سپرم کے نمونے میں تبدیلی پر 1.5 کروڑ روپے جرمانہ: جب والدین کو معلوم ہوا کہ جڑواں بچوں کا والد کوئی اور ہے

دنیا بھر میں بہت سے جوڑے طبی وجوہات کی بنا پر بچہ پیدا کرنے کی خواہش میں ٹیکنالوجی کا سہارا لیتے ہیں۔ انڈیا میں بھی ایک جوڑے نے ٹیکنالوجی کا سہارا لیا تھا جس کے نتیجے میں اُن کے ہاں جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی۔

اس جوڑے نے اے آر ٹی (اسسٹنٹ ری پروڈکٹیو ٹیکنالوجی) نامی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا تھا جس کے نتائج سے وہ خوش تھے لیکن بعد میں اُن کی زندگی میں ایک عجیب موڑ تب آیا جب شوہر کو معلوم ہوا کہ اے آر ٹی میں استعمال ہونے والا سپرم اس کا نہیں تھا۔

یعنی وہ اپنی اہلیہ کے ہاں پیدا ہونے والے جڑواں بچوں کا بائیولوجیکل باپ نہیں تھا۔

والدین کو پتا کیسے چلا؟

اس کہانی کا آغاز لگ بھگ 15 سال پہلے ہوا تھا۔

سنہ 2008 میں اس انڈین جوڑے نے اے آر ٹی کی مدد سے بچہ پیدا کرنے کے لیے نئی دہلی کے ایک نجی ہسپتال بھاٹیہ گلوبل سپتال اور اینڈو سرجری سے رابطہ کیا۔

ایسے جوڑے جنھیں عام طور پر بچہ پیدا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اس ٹیکنالوجی کی مدد لیتے ہیں۔

اس جوڑے نے بھی اسسٹڈ ری پروڈکٹیو ٹیکنالوجی کے ذریعے بچہ پیدا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس حوالے سے صارفین کے تنازعات حل کرنے کے لیے بنائے گئے کمیشن (این سی ڈی آر سی) کے فیصلے کا تذکرہ محکمہ صارفین کے امور، حکومت ہند کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا ہے۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ سال 2008 میں یہ خاتون اس ٹیکنالوجی کے ذریعے حاملہ ہوئی اور سال 2009 میں انھوں نے جڑواں بچوں کو جنم دیا۔

لیکن بعدازاں پیدا ہونے والے ایک بچے کا جب بلڈ ٹیسٹ کروایا گیا تو سامنے آنے والے نتائج نے والدین کو شک میں مبتلا کر دیا۔

خون کے ٹیسٹ میں بچے کا بلڈ گروپ ’اے بی پازیٹیو‘ تھا۔

والدین حیران رہ گئے کیونکہ والدہ کا بلڈ گروپ ’بی پازیٹیو‘ جبکہ والد کا ’او نیگیٹو‘ تھا۔

اس کے بعد جوڑے نے بچوں کا پیٹرنٹی ٹیسٹ (ڈی این اے پروفائل) کرانے کا فیصلہ کیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ جڑواں بچیوں کا بائیولوجیکل باپ خاتون کا شوہر نہیں ہے۔

جب جوڑے کو پیٹرنٹی ٹیسٹ کے ذریعے پتہ چلا کہ ان کے جڑواں بچوں کا بائیولوجیکل باپ کوئی اور ہے اور سپرم کا تبادلہ ہوا ہے، تو انھوں نے کنزیومر افیئرز ایکٹ کے تحت شکایت درج کرائی۔

جوڑے نے ہسپتال پر لاپرواہی اور سروس میں کوتاہی کا الزام لگایا۔

ساتھ ہی انھوں نے دعویٰ کیا کہ ہسپتال کے اس رویے کی وجہ سے وہ جذباتی تناؤ کا شکار ہو گئے ہیں اور خاندان میں لڑائی جھگڑا بھی ہوا ہے۔

جوڑے کو یہ بھی ڈر تھا کہ اس تبدیلی کے باعث عین ممکن ہے کہ بچوں کو کوئی جینیاتی بیماری بھی لگ سکتی ہے۔

اس شکایت میں جوڑے نے لاپرواہی کے بدلے دو کروڑ روپے کے معاوضے کا مطالبہ کیا تھا۔

اس معاملے میں نیشنل کنزیومر کمیشن کے صدر ڈاکٹر ایس ایم کانتیکر نے فیصلہ دیا۔ انھوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے کلینکس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جہاں صورتحال تشویشناک ہے۔

یہ بھی کہا گیا کہ بعض ماہر امراض جن کے پاس اس شعبے کے حوالے سے مہارت نہیں ہے، وہ پیسے کی خواہش میں ایسے کلینک کھولتے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں ایسے کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

کمیشن نے لکھا کہ ’یہ خیال رکھنا ہو گا کہ جو لوگ بچے پیدا نہیں کر پاتے ہیں وہ جذباتی اور مالی طور پر پریشانی کا شکار ہوتے ہیں اور اگر غلط علاج کیا جائے تو اس سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔‘

کیس کا کیا فیصلہ ہوا؟

این سی ڈی آر سی نے اس کیس کا فیصلہ گذشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں سناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کیس براہ راست ہسپتال کے خلاف ہے۔

اس معاملے میں فیصلہ دیتے ہوئے کمیشن نے ہسپتال کو مجموعی طور ڈیڑھ کروڑ روپے ہرجانے اور جرمانے کی مد میں ادا کرنے کو کہا ہے۔

اس حوالے سے بی بی سی کی جانب سے رابطہ کرنے پر ہسپتال کی جانب سے کہا گیا کہ یہ معاملہ ابھی بھی عدالت میں ہے اور وہ اس پر بات کرنا پسند نہیں کریں گے۔

کمیشن کے مطابق اس معاملے میں ملوث دو ڈاکٹروں کو دس، دس لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا ہو گا جبکہ ہسپتال انتظامیہ کو کنزیومر لیگل ایڈ اکاؤنٹ میں 20 لاکھ روپے جمع کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔

کمشین نے قرار دیا کہ دونوں بچوں کے نام پر نیشنل بینک میں لگ بھگ سوا کروڑ کی رقم جمع کرائی جائے گی اور یہ رقم دونوں بچوں کے نام پر رکھی جائے گی۔

والدین بچوں کی دیکھ بھال کے لیے بینک میں جمع کروائی گئی رقم پر سود لے سکتے ہیں۔

اس طرح کے کیسز کتنے عام ہیں؟

بی بی سی کے رابطہ کرنے پر ڈاکٹر نینا پٹیل کہتی ہیں کہ ایسے کیسز کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

پچھلے 30 سالوں سے ڈاکٹر نینا پٹیل گجرات کے آنند شہر میں سروگیسی سینٹر چلا رہی ہیں۔

ان کے مطابق ’ہر بار نمونہ لینے سے پہلے اور اسے ہسپتال میں جمع کرنے تک شفافیت اور جانچ پڑتال کا مؤثر نظام موجود ہے۔ ہم دو گواہ (عینی شاہدین) رکھتے ہیں لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اپنے گھر سے نمونے لے کر آتے ہیں، اس لیے ہم ایسے معاملات میں بھی چوکنا رہتے ہیں تاکہ کوئی غلطی نہ ہو۔ ریکارڈ میں یہ معلومات واضح طور پر درج ہوتی ہیں کہ نمونہ گھر سے لایا گیا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اب بہت جدید ٹیکنالوجی بھی آ چکی ہے جس میں سے ایک ’الیکٹرانک وٹنس سسٹم‘ ہے۔

ڈاکٹر نینا پٹیل کہتی ہیں کہ بعض اوقات نمونے دینے والوں کے نام ایک جیسے ہوتے ہیں، اس لیے اس بارے میں بھی بہت چوکنا رہنا پڑتا ہے تاکہ کوئی غلطی نہ ہو۔

الیکٹرانک وٹنس سسٹم کی مزید تفصیل بتاتے ہوئے ڈاکٹر ہرشا بین کہتی ہیں کہ نمونہ دینے کے لیے آنے والے شخص کے لیے ایک آئی ڈی بنائی جاتی ہے جس میں کوڈ ہوتا ہے۔

یہی کوڈ نمونہ دینے والے کے خاتون کے لیے بھی لکھا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر ہرشا بین ایمبریو اور اس کی نشوونما کے لیے وقف شعبے میں ایمبریولوجسٹ ہیں۔

وہ بتاتی ہیں ’ہم اس ٹیگ یا بار کوڈ کو سپرم کے نمونے اور بیضے پر لگاتے ہیں جس سے اسے فرٹیلائز کیا جاتا ہے، اور اگر اس میں کوئی غلطی ہو جائے تو سسٹم الرٹ کے سگنل بھیجنا شروع کر دیتا ہے۔ ان جدید تکنیکوں نے غلطی کے تمام امکانات کو ختم کر دیا ہے۔‘

اس معاملے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے دہلی کے کلاؤڈ ہسپتال کے ڈاکٹر گنجن سبروال کہتی ہیں کہ ایسا ہونا بہت مشکل ہے، کیونکہ یہ عمل تمام اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شروع ہوتا ہے۔ اس میں جوڑے سے سب سے پہلے رضامندی کے ایک فارم پر دستخط کروائے جاتے ہیں اور اس فارم پر دونوں کی تصاویر بھی لگائی جاتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’نمونہ لینے سے پہلے سپرم دینے والے شخص کا پورا نام پوچھا جاتا ہے، نمونہ لینے کا وقت، سپرم عطیہ کرنے والے کے دستخط اور پھر دیگر تفصیلات نوٹ کی جاتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں غلطی کا کوئی امکان ہی نہیں ہوتا۔‘