انتباہ: اس تحریر میں موجود بعض تفصیلات قارئین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہیں۔
سوڈانی دارالحکومت پر قبضے کے لیے سات ہفتوں کی شدید لڑائی کے بعد خرطوم کے کچھ رہائشیوں کو ایک ایسے مسئلے کا سامنا ہے جس کا انھوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا اور وہ یہ ہے کہ ’سڑکوں پر پڑی ڈھیروں لاشوں کا اب کیا کیا جائے؟‘
عمر، فرضی نام، نے بی بی سی کو بتایا کہ’میں نے تین لوگوں کو ان کے اپنے گھروں کے اندر دفن کر دیا اور باقی بچ جانے والوں کو اس گلی کے داخلی راستے پر دفنایا جہاں میں خود رہتا ہوں۔
عمر کے مطابق ’کم از کم دروازہ کھول کر کتوں کو انسانی لاشیں چباتے دیکھنے سے تو کہیں بہتر ہے کہ انھیں کہیں بھی دفنا دیا جائے۔‘
کوئی نہیں جانتا کہ اب تک کتنے لوگ مارے جا چکے ہیں، لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک ہزار سے زیادہ ہیں، جن میں کراس فائر میں پھنسے کئی شہری بھی شامل ہیں۔
سوڈان میں دو مسلح دھڑے، فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) جو کہ ایک نیم فوجی گروپ ہے متعدد بار سیزفائر کے باوجود لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں اور ایسے میں لاشیں لے کر قبرستان جانا کہیں زیادہ خطرناک ہے۔
عمر ابھی تک کم از کم 20 افراد کو دفنا چکے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرا ایک پڑوسی اپنے گھر کے اندر ہی گولیوں کا نشانہ بن کر ہلاک ہو گیا۔ میں اس کے گھر سے ٹائلیں ہٹانے، قبر کھودنے اور انھیں وہیں دفن کرنے کے علاوہ مزید کچھ نہیں کر سکتا تھا۔‘
’گرمی میں لاشیں گل جاتی ہیں۔ اب ایسی صورتحال میں کیا تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔ خرطوم کے کچھ محلے اب باقاعدہ قبرستانوں میں بدل رہے ہیں۔‘
گذشتہ ماہ عمر نے خرطوم کے الامتداد ضلع میں اپنے گھر سے صرف ایک میٹر کے فاصلے پر ایک گلی میں چار لوگوں کے لیے قبریں کھودیں۔ اور انھوں نے نشاندہی کی کہ وہ دوسرے لوگوں کو جانتے ہیں جو قریبی محلوں میں ایسا ہی کر رہے ہیں۔
ان کے مطابق ’مرنے والوں میں سے بہت سے افراد کو خرطوم یونیورسٹی کے قریب کے علاقوں میں دفن کیا گیا تھا جبکہ کچھ مزید لاشوں کو محمد نقیب روڈ نامی قریبی علاقے میں دفنایا گیا۔
سوڈان میں گھروں یا محلوں میں دفن افراد کی تعداد کے بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، تاہم عمر کے مطابق یہ تعداد ’درجنوں میں ہو سکتی ہے۔‘
حامد، فرضی نام، کو بھی کچھ ایسا ہی تجربہ ہوا۔
حامد نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے ایک فوجی طیارے کے گر کر تباہ ہونے کے بعد فوج کے تین اہلکاروں کو دارالحکومت سے 12 کلومیٹر دور نسلی فسادات کے شکار علاقے شمبت میں دفن کر دیا تھا۔
ان کے مطابق ’میں اتفاق سے اس جگہ موجود تھا۔ پانچ لوگوں کے ایک گروپ نے اور میں نے لاشوں کو ملبے سے نکالا اور رہائشی عمارتوں سے گھرے علاقے میں دفن کر دیا۔‘
حامد، ایک رئیل اسٹیٹ ایجنٹ ہیں اس علاقے میں 20 سال سے مقیم ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ایک کام رحمدلی والا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ اہم نہیں ہے کہ ہم مردے کو کہاں دفن کرتے ہیں۔
’انھیں دفن کرنا ترجیح ہے۔ یہ صدقہ جاریہ ہے۔ قبرستانوں کے سفر میں دن لگ سکتے ہیں اور متحارب گروپوں کے ماہر نشانہ باز ہر جگہ موجود ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ہم معاشرے کو صحت کے بحران سے بچانے میں مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ ہمارا ایک مذہبی اور اخلاقی فرض بھی بنتا ہے۔‘
’دفنانے سے اہم جنگی جرائم کے ثبوت ضائع ہو سکتے ہیں‘
ڈاکٹروں کی یونین کی سربراہ ڈاکٹر عطیہ عبداللہ عطیہ نے کہا ہے کہ نیک نیتی کے باوجود، یہ کارروائیاں جنگی جرائم کے ثبوت کو ختم کر سکتی ہیں۔
ڈاکٹر عطیہ نے متنبہ کیا ہے کہ تدفین کے یہ ’رضاکارانہ جذبے‘ کا طریقہ کار ’سچائی کو دفن‘ کر سکتا ہے، کیونکہ اس سے یہ ثبوت بھی کھو جائے گا کہ آخر لوگ کیسے مرے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ لاشوں کی شناخت کر کے انھیں صحیح اور باوقار طریقے سے قبروں میں دفنایا جانا چاہیے۔
ڈاکٹر عطیہ نے اصرار کیا کہ لوگوں کو تدفین صحت کے حکام، سوڈانی ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ پر چھوڑنی چاہیے۔
ان کے مطابق ’مُردوں کو اس طرح دفن کرنا جائز نہیں ہے۔ تدفین کے عمل میں حکومت کے سرکاری نمائندوں، پراسیکیوشن، فرانزک ماہرین اور ریڈ کراس کی شرکت لازمی ہے۔ ڈی این اے کے نمونے لینا بھی ضروری ہے۔‘
جب ہم نے ڈاکٹر عطیہ سے پوچھا کہ ان کے خیال میں ایسے ملک میں ان طریقوں کو جاری رکھنا کیسے ممکن ہے جہاں صحت کا نظام اور امن و امان تباہ ہو چکا ہے تو انھوں نے کہا کہ اس عمل میں دیگر دنیا کے ممالک کو کردار ادا کرنا چاہیے۔
دو رضاکاروں، عمر اور حامد نے کہا کہ وہ دفن کرنے سے پہلے ان کے چہروں اور لاشوں کی تصاویر لیتے ہیں، جس سے مستقبل میں ان کی شناخت میں مدد مل سکتی ہے۔
لیکن ڈاکٹر عطیہ نے یہ بھی خبردار کیا کہ غیر محفوظ تدفین بیماری کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتی ہے۔
’مُردوں کو براہ نام طریقے سے دفنانے سے اس بات کا قوی امکان رہتا ہے کہ آوارہ کتے لاشوں کو نکال سکتے ہیں۔ یہاں مناسب تدفین کا اطلاق نہیں ہوتا، کیونکہ لاشوں کو بے نقاب ہونے سے روکنے کے لیے قبر میں کوئی ٹھوس چیز یا اینٹیں رکھنا ضروری ہے۔‘
تاہم حامد نے دعویٰ کیا کہ زیادہ تر سوڈانی قبر کھودنے کا صحیح طریقہ جانتے ہیں جہاں لاشیں ’کم از کم ایک میٹر زیر زمین‘ دفنائی جاتی ہیں۔‘
’شناخت کے لیے ہر لاش پر ایک فائل رکھی جاتی ہے‘
اس وقت لاشوں کو دفنانے کے لیے کچھ منظم کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔
احمد، فرضی نام، ریڈ کراس کے لیے رضاکارانہ بنیادوں پر سڑکوں سے لاشیں ہٹانے کا کام کرتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ میں چہرے اور لاش کی تصاویر لیتا ہوں، رجسٹر کرتا ہوں کہ آیا یہ نئی لاش ہے یا گل سڑ گئی ہے اور میں اسے نمبر دیتا ہوں۔‘
احمد نے مزید کہا کہ مستقبل کی شناخت کے لیے ہر لاش پر ایک فائل رکھی جاتی ہے۔
ڈاکٹر عطیہ کی تنقید کے باوجود لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ صحت عامہ کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی کی وجہ سے ان کے پاس کوئی اور چارہ رہ نہیں گیا ہے۔
11 مئی کو سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز گردش کر رہی تھیں جن میں دو سوڈانی خواتین ڈاکٹرز میگدولین اور مگدا یوسف غالی کو ان کے باغ میں دفن کرتے دکھایا گیا تھا۔
ان کے ایک بھائی نے، جن کا نام یہاں ظاہر نہیں کیا جا رہا ہے، بی بی سی کو ایک ویڈیو کال میں بتایا کہ ان کی دو بہنوں کو گھر میں دفن کرنا ’واحد آپشن‘ تھا۔
انھوں نے روتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ’تقریباً 12 دن گزر چکے تھے اور ان کی لاشوں کو دفنایا نہیں گیا تھا۔ پڑوسیوں نے گھر سے بدبو آنے کی شکایت کی، تو لوگوں نے انھیں باغیچے کی قبر میں دفنانے میں مدد کی پیشکش کی۔‘
صحت کے حکام لاشوں کو قبرستانوں میں منتقل کرنے کے لیے سوڈانی ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
لیکن خانہ جنگی نے ان امدادی ٹیموں کے کام کو مشکل بنا دیا ہے۔
ان دو ہلاک ہونے والی بہنوں کی کہانی اس ہولناکی کو ظاہر کرتی ہے جس کا لوگ ہر روز سامنا کرتے ہیں۔
ہلاک ہونے والی ان دونوں ڈاکٹرز بہنوں کے بھائی نے بتایا کہ ’میری بہنوں کو ان کے باغ میں ایک گڑھے میں دفن کر دیا گیا تھا۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کا یہ انجام ہو گا۔‘