اہم خبریں

سنیپ چیٹ: کیا یہ ایپ منشیات فروش گروہوں کو نوجوانوں تک رسائی فراہم کر رہی ہے؟

میں نے 15 سالہ لڑکی بن کر سنیپ چیٹ اکاؤنٹ کھولنے کے چند منٹ بعد ہی جو کچھ دیکھا ہوں اس پر میں حیران رہ گئی۔

اس پلیٹ فارم پر منشیات باآسانی دستیاب لگ رہی تھی، محض چند کلکس کی دوری پر۔ میں نے سوچا کہ یہ دنیا پوشیدہ ہے اور اس تک رسائی مشکل ہے، لیکن اسے تلاش کرنا بہت آسان تھا۔

میں نے اس بات کی تحقیقات کرنے کے لیے خفیہ طور پر آن لائن آئی کہ کس طرح منشیات فروشوں کے گروہ بچوں کو پھنسانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔

میں نے ان تحقیقات کے سلسلے میں ’میا‘ نامی 15 سالہ لڑکی کا جعلی اکاؤنٹ بنایا تھا۔ میا کے نام سے اکاؤنٹ بناتے ہوئے، میں نے منشیات کی تلاش نہیں کی اور نہ کسی بھی ایسے اکاؤنٹ کو فالو کیا ہے جو بظاہر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث لگتا ہے۔

میں نے صرف اُن اکاؤنٹس کو فالو کیا ہے جو بظاہر کسی بھی نوعمر فرد کے ہو سکتے تھے۔ ایسے ہی ایک اکاؤنٹ پر میں نے ایک سٹوری پر کلک کیا تو وہاں ’ٹیلی گرام‘ نامی ایک اور ایپ اُبھر کر سامنے آ گئی۔ اس پر ایک پیج (صفحہ) موجود تھا جو کوکین اور کیٹامائن سمیت دیگر منشیات فروخت کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

میں حیران ہوں کہ یہ مواد اتنی آسانی سے دستیاب ہے حالانکہ میں نے یہ اکاؤنٹ 15 سالہ بچی کے طور پر بنایا ہوا تھا۔

سنیپ چیٹ کا کہنا ہے کہ منشیات کی خرید و فروخت کے لیے اس کے پلیٹ فارم کا استعمال غیر قانونی ہے اور وہ کسی بھی لین دین کا سراغ لگانے اور اس کی روک تھام کے لیے مواد کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔

’میں نے سوچا کہ وہ میرا بوائے فرینڈ ہے‘

میں جانتی ہوں کہ یہ منشیات فروش گینگ نہ صرف اپنی منشیات بیچنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں بلکہ وہ اس کام کے لیے نوعمر بچوں کی خدمات بھی حاصل کرتے ہیں۔

اینا (فرضی نام) کی عمر 20 سال کے لگ بھگ ہے۔ انھیں نوعمری میں آن لائن موجود ایک مشرقی یورپی منشیات فروشوں کے گروہ نے کنٹرول کیا اور ان کا استحصال کیا تھا۔

وہ اس تاریک دنیا میں اس وقت پھنس گئیں جب سنیپ چیٹ پر ایک نوجوان کی طرف سے دوستی کی درخواست کی گئی۔

اینا نے مجھے بتایا کہ ’وہ کافی رومانوی اور فلرٹ کرنے والا تھا جو مجھ میں بہت زیادہ دلچسپی ظاہر کر رہا تھا۔ ہم دن بھر ایک دوسرے کو میسجز بھیجتے تھے۔‘

اینا نے سوچا کہ شاید وہ کسی نئے بندھن میں بندھنے جا رہی ہیں۔ وہ ایک آدمی سے ملیں، جو اُن سے زیادہ بڑا نہیں تھا اور جو اُن میں دلچسپی لے رہا تھا۔

لیکن اس شخض کے ارادے کچھ اور ہی تھے۔ کیونکہ اس کی نظر میں اینا ایک جوان لڑکی تھیں جن کا باآسانی استحصال کیا جا سکتا تھا۔

اینا کا کہنا تھا کہ ’میں جتنی زیادہ یہاں رہوں گی، اتنی ہی زیادہ میں منشیات کے کاروبار میں مدد کروں گی۔‘

’شروع میں یہ تھوڑا ڈراؤنا تھا، لیکن مجھے احساس ہوا کہ میں عام منشیات فروش کی طرح نہیں لگ رہی تھی لہٰذا میں جب چاہوں اس کام سے علیحدگی اختیار کر لوں گی۔‘

اینا کو لگا کہ وہ کسی ایسے شخص پر احسان کر رہی ہیں جو ان کی پرواہ کرتا ہے ، لیکن انھیں جلد ہی احساس ہوا کہ انھیں منشیات فروشی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

’میں نے سوچا کہ یہ شخص میرا بوائے فرینڈ ہے، پھر میں دوسری لڑکیوں کے میسجز یا اسے دوسرے لڑکیوں کو پیغام بھیجتے ہوئے دیکھآ۔‘

’یہ دل توڑ دینے والا تھا کیونکہ وہ واحد شخص تھا جس پر مجھے اعتماد تھا۔‘

اس گینگ نے اینا کو کنٹرول کرنے اور انھیں استعمال کرنے کے لیے ’خوف کے ہتھیار‘ کا استعمال کیا لیکن اس کی قیمت چکانی پڑی۔

’پھنسی ہوئی اور تنہا‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم صرف گاڑی چلاتے تھے اور وہ منشیات کا کاروبار کرتے تھے۔ ہم گاڑی میں اونچی آواز میں موسیقی سنتے تھے۔ اُن کے پاس منشیات سے بھرا ہوا بیگ ہوتا تھا اور (اس کام کے عوض) وہ مجھے کہتے تھے اپنا ہاتھ بیگ میں ڈالو اور جو چاہو نکال لو۔‘

اس وقت اینا کا خیال تھا کہ اسے مفت میں منشیات دی جا رہی ہیں لیکن ایسا نہیں تھا۔ اینا نے کہا کہ ’انھوں نے مجھے ایک الٹی میٹم دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ آپ اب اس تمام منشیات کے لیے ہماری مقروض ہیں جو آپ نے مفت استعمال کی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اب آپ کے پاس دو راستے ہیں، یا تو آپ منشیات کے کاروبار میں ہماری مدد کر سکتی ہیں اور ہمارے لیے پیسے کما سکتی ہیں یا پھر آپ ہمیں جنسی فائدہ دیں۔‘

اینا نے خود کو ایک ایسے قرض میں پھنسا ہوا محسوس کیا جسے وہ کبھی ادا نہیں کر سکتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اس آپشن کا انتخاب کیا جس کے بارے میں میرا خیال تھا کہ جس سے مجھے کم سے کم پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا، اور وہ تھا جنسی فائدہ۔‘

یہ سوشل میڈیا ہی تھا جس نے اینا کو گینگ کے نرغے میں کھینچ لیا۔ میں یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ کیا میرے جعلی اکاؤنٹ پر بھی ایسا ہو سکتا ہے۔

میا کا اکاؤنٹ بنانے کے فورا بعد سنیپ چیٹ نے فوری کانٹیکٹس میں اضافے تجویز کرنا شروع کر دی۔ میں نے ان اکاؤنٹس کو اپنے کانٹیکٹس میں شامل کرنا شروع کر دیا۔

ان میں سے کچھ اکاؤنٹ منشیات فروش معلوم ہوتے تھے کیونکہ وہ ان نشہ آور اشیا کی تصاویر پوسٹ کرتے تھے جن کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ یہ سب فروخت کرتے ہیں۔

یہ سنپ چیٹ کے الگورتھم کے بارے میں کیا بتاتا ہے؟ سنیپ چیٹ کو لگتا ہے کہ میں 15 سال کی ہوں، لیکن یہ مجھے ممکنہ مجرموں سے جوڑ رہا ہے۔ سنیپ چیٹ کی جانب سے تجویز کردہ دوستوں میں سے ایک نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ لندن سے سوانسی میں منشیات لے جانے والے گینگ کا حصہ تھا۔

اس نے مجھے پیغام بھیجنا شروع کر دیا کہ وہ ایک ’وفادار لڑکی‘کی تلاش میں ہے۔ جب میں نے کہا کہ میں ویلز میں رہتی ہوں تو اس کی دلچسپی مزید بڑھ گئی۔

اس نے مجھے اپنی ایک تصویر اسے دکھانے کو کہا۔ میری تحقیقات کے دوران ایسا بارہا ہوا۔ کیا اس طرح گینگ بچوں کی جانچ پڑتال کرتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ ویسے ہیں جیسا کہ وہ اپنے بارے میں دعویٰ کر رہے ہیں۔

سنیپ چیٹ کا کہنا ہے کہ ان کے پلیٹ فارم پر منشیات کی خرید و فروخت غیر قانونی ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’ہم اپنی کمیونٹی کو محفوظ رکھنے میں مدد کے لیے اس مواد کا پتہ لگانے اور روکنے کے لیے متعدد طریقوں سے کام کرتے ہیں، جس میں فعال سراغ لگانے کی ٹیکنالوجی اور ایپ رپورٹنگ ٹولز شامل ہیں۔‘

’ہمارے پاس ایک ٹیم ہے جو پولیس کی تحقیقات میں معاونت کرتی ہے اور منشیات سے متعلق رجحانات، اصطلاحات اور گینگز کی طرف سے استعمال ہونے والے طرز عمل کو سمجھنے کے لیے ماہرین کے ساتھ باقاعدگی سے ملاقات کرتی ہے۔‘

سنیپ چیٹ کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ’نوجوان صارفین کے لیے اضافی تحفظ موجود ہے تاکہ ان کے لیے ان لوگوں سے رابطہ کرنا مشکل ہو جائے جنھیں وہ نہیں جانتے۔‘

’پورے برطانیہ کے لیے ایک مسئلہ‘

ایک اندازے کے مطابق برطانیہ بھر میں ایسے 500 سے زیادہ گینگز کام کر رہے ہیں۔ میٹروپولیٹن پولیس کے پاس منشیات کے ان گروہوں سے نمٹنے کے لیے ایک ماہر ٹیم ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے 2019 سے اب تک ایسے 1500 نیٹ ورکس کو بند کر دیا ہے۔

تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ انھوں نے گذشتہ ایک سال کے دوران منشیات پکڑنے کے علاوہ 700 سے زائد افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی ہے۔ پولیس افسر ڈین مچل نے کہا کہ ’یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو واقعی پورے برطانیہ میں پھیلا ہوا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ایسے گینگز منشیات فروشی کے دھندے میں بچوں کا استعمال کرتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ بچے لندن میں منشیات کی نقل و حمل میں سب سے بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔

ساؤتھ ویلز پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے کاؤنٹی لائنز گینگز سے نمٹنے کے لیے سوانسی، نیتھ اور لندن میں حالیہ کارروائیوں کے دوران 29 افراد کو گرفتار کیا ہے۔

اینا آخر کار سوشل میڈیا کو چھوڑنے کے بعد’ گینگ کے چنگل سے بچ گئیں لیکن انھوں نے اعتراف کیا کہ وہ ’ہمیشہ گھبراتی رہیں گی۔‘