کچھ راتوں کی سحر ہو کے نہیں ہوتی۔ تیرگی مٹنے کا نام نہیں لیتی اور خواہشیں ناتمام ہو کر، حسرتوں میں ڈھل جاتی ہیں۔ پاکستان کے لیے بھی کولمبو کی یہ رات کچھ ایسی ہی تھی۔
جس شام کا آغاز خوف اور احتیاط کے تال میل سے ہوا، وہ پہلے عبداللہ شفیق کے تحمل میں بدلی اور پھر رضوان کی استقامت سے افتخار کی جارحیت تک بہت کچھ ایسا ہوا کہ گماں کا ممکن بعید از قیاس نہ رہا مگر بابر اعظم یہاں خود اپنی ہی مدد نہ کر پائے۔
یہ پچ وہ تھی کہ ابتداً یہاں قدم جمانا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ عبداللہ شفیق نے احتیاط کا انتخاب کیا اور یہ انتخاب بالکل بجا تھا کہ سری لنکن بولنگ کوئی تر نوالہ نہیں تھی۔ عبداللہ کا صبر بار آور رہا۔
رضوان آئے تو احوال پر گرفت نہیں پا رہے تھے مگر وہ جمے رہے۔ جوں جوں گیند کی کاٹ ماند پڑی، وہ اپنے اصل پر پلٹنے لگے اور پھر بارش کے بعد جب کنڈیشنز بلے بازی کو سازگار ہوئیں تو وہ افتخار کے ہمراہ اپنی ٹیم کو وہاں تک لے گئے جہاں سے شکست کے لیے پاکستان کو ایک بدترین بولنگ پرفارمنس اور اوسط کپتانی درکار تھی۔
اگرچہ بادئ النظر میں یہ پیس اٹیک اس کی جھلک نہیں تھا جو پاکستان کی شہرت ہو چکا ہے مگر اس میں ایسی کم مائیگی بھی نہ تھی کہ سری لنکن بیٹنگ کی مشکلیں آسان پڑ جاتیں۔
اس پچ کے مزاج سے یہاں پیسرز کا مہنگا ہونا طے ہی تھا۔ بات اٹکی تھی تو فقط سپنرز کے کردار پر، کہ وہی اس میچ کی سمت متعین کرنے کے حقدار تھے اور یہاں سب سے بڑا بار شاداب خان پر تھا اور ان سے بھی بڑا بوجھ بابر اعظم پر تھا کہ وہ اپنے بولرز کو کیسے صرف کریں گے۔
وہ شاداب خان جو کبھی اپنی گگلیوں سے بلے بازوں کو نچا دیا کرتے تھے، اب شاید خود بھی اپنے آپ کو پہچان نہیں پاتے۔ نہ ہی ان کی انگلیوں میں وہ جادو نظر آتا ہے کہ جسے پڑھنے کو کئی سبق یاد کرنا پڑ جائیں۔ وہ ساری شہرت اب گئے دنوں کی یاد سی بنتی جا رہی ہے۔
اور شاہین آفریدی جو کہ اس نوآموز پیس اٹیک کے سرکردہ تھے، وہ شروع میں ہی سری لنکن ٹاپ آرڈر کے بھاؤ میں آ بیٹھے۔ نئے گیند سے وکٹیں بٹورنا ان کی فطرت رہا ہے مگر یہاں جب وہ ہی درست لینتھ کھوجنے میں پھیکے پڑ گئے تو محمد وسیم کو دوش کیونکر دیا جائے۔
مگر افتخار احمد نے سپن ڈیپارٹمنٹ کی بھرپور لاج رکھی۔ شاداب کے برعکس وہ گیند کی رفتار گھٹاتے چلے گئے اور سری لنکن بیٹنگ الجھتی چلی گئی اور پھر یہ ہوا کہ دو تہائی اننگز تک سبقت رکھنے والی سری لنکن اننگز یکایک کسی بوجھ تلے دبنے لگی۔
اور جب سری لنکن کپتان دسون شانکا پویلین کو لوٹ رہے تھے تو آر پریماداسا سٹیڈیم کے ڈی جے نے استاد نصرت فتح علی خاں کی قوالی ’دم مست قلندر‘ چلائی۔ یہ آواز کانوں میں پڑتے ہی باؤنڈری پر کھڑے شاہین آفریدی سمیت پوری ٹیم میں گویا نئی روح عود کر آئی۔
چند ہی لمحوں بعد شاہین سری لنکن بیٹنگ کو تگنی کا ناچ نچائے کھڑے تھے۔ سری لنکن نگاہوں کے عین سامنے نظر آتی جیت اب شکوک و شبہات کی اوٹ کے پرے سے آنکھ مچولی کرنے لگی اور پاکستان یکبارگی کہانی میں پلٹ آیا۔
زمان خان کے لیے یہ کوئی نیا امتحاں نہیں تھا۔ پی ایس ایل میں وہ بارہا ایسے ہی تُند مراحل سے گزر چکے ہیں اور لگ بھگ ہر بار سرخرو بھی رہے ہیں مگر یہاں قسمت کا الٹ پھیر کچھ ایسا ہوا کہ عین آخری گیند سے پہلے، فائن لیگ کو باؤنڈری سے بلا کر دائرے میں لے آیا گیا۔
اور پھر قسمت کی خوبی دیکھیے کہ وننگ سٹروک بھی میدان کے عین اسی حصے کو گیا جہاں دور تلک کسی ذی روح کا نام و نشان نہ تھا۔
میچ میں پاکستان کا آغاز بھی برا نہ تھا اور انجام بھی کسی یادگار خوبی سے بعید نہ تھا مگر بِیچ سفر بابر اعظم نے جو کوتاہ بینی دکھائی، اس کی قیمت چکانا بھی شاید ناگزیر تھا۔